Mufradat-ul-Quran - An-Noor : 43
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهٗ ثُمَّ یَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ١ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ١ؕ یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے سَحَابًا : بادل (جمع) ثُمَّ : پھر يُؤَلِّفُ : ملاتا ہے وہ بَيْنَهٗ : آپس میں ثُمَّ : پھر يَجْعَلُهٗ : وہ اس کو کرتا ہے رُكَامًا : تہہ بہ تہہ فَتَرَى : پھر تو دیکھے الْوَدْقَ : بارش يَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ خِلٰلِهٖ : اس کے درمیان سے وَيُنَزِّلُ : اور وہ اتارتا ہے مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مِنْ : سے جِبَالٍ : پہاڑ فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے بَرَدٍ : اولے فَيُصِيْبُ : پھر وہ ڈالدیتا ہے بِهٖ : اسے مَنْ يَّشَآءُ : جس پر چاہے وَيَصْرِفُهٗ : اور اسے پھیر دیتا ہے عَنْ : سے مَّنْ يَّشَآءُ : جس سے چاہے يَكَادُ : قریب ہے سَنَا : چمک بَرْقِهٖ : اس کی بجلی يَذْهَبُ : لے جائے بِالْاَبْصَارِ : آنکھوں کو
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے اور ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل (کر برس) رہا ہے اور آسمان میں جو (اولوں کے) پہاڑ ہیں ان سے اولے نازل کرتا ہے تو جس پر چاہتا ہے اسکو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے اور بادل میں جو بجلی ہوتی ہے اسکی چمک آنکھوں کو (خیرہ کر کے بینائی کو) اچکے لئے جاتی ہے
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝ 0ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ۝ 0ۭ يَكَادُ سَـنَا بَرْقِہٖ يَذْہَبُ بِالْاَبْصَارِ۝ 43ۭ زجا التَّزْجِيَةُ : دَفْعُ الشّيء لينساق، كَتَزْجِيَةِ ردیء البعیر، وتَزْجِيَةِ الرّيح السّحاب، قال : يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، وقال : رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء/ 66] ، ومنه : رجل مُزْجًى، وأَزْجَيْتُ ردیء التّمر فَزَجَا، ومنه استعیر : زَجَا الخراج يَزْجُو، وخراج زَاجٍ ، وقول الشاعر : وحاجة غير مُزْجَاةٍ من الحاج أي : غير يسيرة، يمكن دفعها وسوقها لقلّة الاعتداد بها . ( ز ج و ) التزجیۃ کے معنی کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلا پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا ۔ کا بادلوں کو چلانا ۔ قرآن میں ہے : يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43]( اللہ ہی ) بادلوں کو ہنکاتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء/ 66] جو تمہارے لئے ( سمندروں میں ) جہازوں کو چلاتا ہے ۔ اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ رجل مزجی ہنکایا ہوا آدمی یعنی کمزور اور ذلیل آدمی ۔ ازجیت ردی التمر میں نے ردی کھجوروں کو دور پھینک دیا اور زجا لازم ) ازجی ٰ کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہاجاتا ہے ۔ رجا الخزاج ( ن ) خراج کا سہولت سے جمع ہوجاتا ۔ اور ، ، خراج زاج ، ، اس خراچ کو کہتے ہیں جو معمولی ہونے کی وجہ سے سہولت سے جمع ہوجائے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ (203) وجاجۃ غیر مزجاۃ عن الحاج اور حاجت مندوں کی بعض حاجتیں معمولی نہیں ہوتیں کہ انہیں پورا کیا جاسکے ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔ ألف الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش/ 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت . ( ا ل) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : { إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ } ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ { لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ } ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : { وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔ الالف ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے ركم يقال : ( سحاب مَرْكُومٌ ) «1» أي : متراکم، والرُّكَامُ : ما يلقی بعضه علی بعض، قال تعالی: ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] ، والرُّكَامُ يوصف به الرّمل والجیش، ومُرْتَكَمُ الطّريق : جادّتُهُ التي فيها رُكْمَةٌ ، أي : أثر مُتَرَاكِمٌ. ( ر ک م ) رکم ( ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا قرآن میں ہے ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] تہ بہ تہ بادل ۔ الرکام اوپر تلے رکھی ہوئی چیزیں جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے ۔ اسی سے ریت کے ٹیلے اور لشکر کو بھی رکام کہا جاتا ہے اور مرتکم الطریق شاہراہ کو کہتے ہیں ۔ جس میں آمد رفت کے نشانات بکثرت ہوں ۔ ودق الوَدَق قيل : ما يكون من خلال المطر كأنه غبار، وقد يعبّر به عن المطر . قال تعالی: فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ويقال لما يبدو في الهواء عند شدّة الحرّ وَدِيقَة، وقیل : وَدَقَتِ الدّابّةُ واسْتَوْدَقَتْ ، وأتانٌ وَدِيقٌ ووَدُوقٌ: إذا أَظْهَرَتْ رطوبةً عند إرادة الفحل، والْمَوْدِقُ : المکان الذي يَحْصُلُ فيه الْوَدَقُ ، وقول الشاعر : تعفّي بذیل المرط إذ جئت مَوْدِقِي تعفّي أي : تزیل الأثر، والمرط : لباس النّساء فاستعارة، وتشبيه لأثر موطئ القدم بأثر موطئ المطر . ( و د ق ) الودق ۔ بعض نے کہا ہے کہ بارش میں جو غبار سا نظر آتا ہے اسے ودق کہا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد بارش بھی ہوتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل کر ( برس ) رہا ہے ۔ اور گرمی کی شدت سے ہوا میں جو لہریں نظر آتی ہیں انہیں ودیقتہ کہتے ہیں ۔ اور ودقت الدبتہ واستودقت کے معنی ہیں مادہ چو پایہ کا نر کی خواہش کے وقت رطوبت نکالنا چناچہ اس مادہ ( چوپایہ ) کو نر کی خواہش میں رطوبت نکال رہی ہو ودیق یا ودوق کہتے ہیں ۔ اور جہا بارش ہوئی ہو اس جگہ کو مودق ( ظرف ) کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 444) تعفی بذیل المرط اذاجئت مودنی تعفی کے معنی نشان مٹانے کے ہیں اور ہرط پڑی چادر کو کہتے ہیں جو ستر کے لیئے عورتیں اوپر اوڑھتی ہیں یہاں شاعر نے قدم کے پڑنے کی جگہ کو موضع مطر کے ساتھ تشبیہ دی ہے ور شعر کے معنی یہ ہیں کہ جب میں اپنی محبوبہ کے پاس آتا ہوں تو وہ اپنی چادر سے میرے قدموں کے نشان مٹادیتی ہے ۔ خل ( درمیان) الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، قال الشاعر : 143- أرى خلل الرّماد ومیض جمر وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد . ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ برد أصل البرد خلاف الحر، فتارة يعتبر ذاته فيقال : بَرَدَ كذا، أي : اکتسب بردا، وبرد الماء کذا، أي : أكسبه بردا، نحو : 48- ستبرد أکبادا وتبکي بواکيا «4» ويقال : بَرَّدَهُ أيضا، وقیل : قد جاء أَبْرَدَ ، ولیس بصحیح «5» ، ومنه البَرَّادَة لما يبرّد الماء، ويقال : بَرَدَ كذا، إذا ثبت «6» ثبوت البرد، واختصاص للثبوت بالبرد کا ختصاص الحرارة بالحرّ ، فيقال : بَرَدَ كذا، أي : ثبت، كما يقال : بَرَدَ عليه دين . قال الشاعر : 49- الیوم يوم بارد سمومه «7» وقال الآخر : 50- .... قد برد المو ... ت علی مصطلاه أيّ برود «1» أي : ثبت، يقال : لم يَبْرُدْ بيدي شيء، أي : لم يثبت، وبَرَدَ الإنسان : مات . وبَرَدَه : قتله، ومنه : السیوف البَوَارِد، وذلک لما يعرض للمیت من عدم الحرارة بفقدان الروح، أو لما يعرض له من السکون، وقولهم للنوم، بَرْد، إمّا لما يعرض عليه من البرد في ظاهر جلده، أو لما يعرض له من السکون، وقد علم أنّ النوم من جنس الموت لقوله عزّ وجلّ : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] ، وقال : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] أي : نوما . بارد، أي : طيّب، اعتبارا بما يجد الإنسان في اللذة في الحرّ من البرد، أو بما يجد من السکون . والأبردان : الغداة والعشي، لکونهما أبرد الأوقات في النهار، والبَرَدُ : ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب : اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد : ذو برد، قال اللہ تعالی: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] . والبرديّ : نبت ينسب إلى البرد لکونه نابتا به، وقیل : «أصل کلّ داء البَرَدَة» «2» أي : التخمة، وسمیت بذلک لکونها عارضة من البرودة الطبیعية التي تعجز عن الهضم . والبَرُود يقال لما يبرد به، ولما يبرد، فيكون تارة فعولا في معنی فاعل، وتارة في معنی مفعول، نحو : ماء برود، وثغر برود، کقولهم للکحل : برود . وبَرَدْتُ الحدید : سحلته، من قولهم : بَرَدْتُهُ ، أي : قتلته، والبُرَادَة ما يسقط، والمِبْرَدُ : الآلة التي يبرد بها . والبُرُد في الطرق جمع البَرِيد، وهم الذین يلزم کل واحد منهم موضعا منه معلوما، ثم اعتبر فعله في تصرّفه في المکان المخصوص به، فقیل لكلّ سریع : هو يبرد، وقیل لجناحي الطائر : بَرِيدَاه، اعتبارا بأنّ ذلک منه يجري مجری البرید من الناس في كونه متصرفا في طریقه، وذلک فرع علی فرع حسب ما يبيّن في أصول الاشتقاق . ( ب ر د ) البرد ( ٹھنڈا ) اصل میں یہ حر کی ضد ہے ۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے : برد ( ن ک ) کذا اس نے ٹھند حاصل کی برد ( ن) الماء کذا پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ جیسے ع ( الطویل ) ( 47 ) ستبرد اکباد وتبلی بو کیا تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو رلا ڈالے گی اور برد تفعیل ) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض کے نزدیک ابردر ( افعال ) بھی اس معنی میں آجاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اسی سے البرادۃ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں برد کذا کے معنی کسی چیز کے البرد ا ولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حر کو حرکت لازم ہی اسی طرح برد کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ برد علیہ دین ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) ( 48 ) الیوم باردسمومہ ۔ آج باد سموم جامد ہے ۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 49 ) ۔۔۔۔۔۔ قدبرد الموت ۔۔ ت علی مصطلاہ ۔۔۔۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی ۔ لم یبرد بیدی شیئ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی ۔ برد الانسان مرجانا فوت ہوجانا ۔ بردہ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بوارد کہا جاتا ہے کیونکہ ہیت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون کا حق ہوتا ہے ۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے ۔ جیسا کہ قران میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی دو روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ؟ اور آیت کریمہ : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] میں بھی برد بمعنی نیند ہے یعنی ہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب ہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے احت اور سکون حاصل ہوتا ہے خوشگوار زندگی لے لئے عیش بارد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے الابردان صبح وشام کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈ ہی ہوتے ہیں ۔ البرد کے معنی اولے کے ہیں اور برد السحاب کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی سحاب ابرد وبرد ۔ اور اولے برسانے والے بادل قرآن میں ؟ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے ۔ لبرد دی نرکل کی قسم کا ایک پونا ۔ یہ برد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پیدا ہوتا ہے غل مشہور ہے اصل کل داء البردۃ کہ بدہضمی الا مراض ہے بدہضمی کو بردۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے س سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے ۔ البردود ٹھنڈا پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فعول کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے ۔ جیسے ماء برود ( ٹھنڈا پانی ) ثغر یرود ( خنک دانت ) جیسا کہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو برود کہا جاتا ہے بردت الحدید میں نے لو ہے ریتی سے رگڑ یہ بردتہ بمعنی قتلتہ سے مشتق ہے اور لوہ چون کو برادۃ کہا جاتا ہے ۔ المبرۃ ( آلہ ) ریتی جس سے لوہے کو ریتتے بیں ۔ ۔ ا البرد یہ البرید کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی صطلاح میں برد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لئے متعین رہتے ہیں ۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے اس لئے ہر تیز رو کے کے لئے ھو یبرد کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور پرند گے ہر وں کو برید ان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرح علی الفرع کے قبیل سے ہے جیسا کہ علم الا شتقا ا میں بیان کیا جاتا ہے ۔ صوب الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، وذلک علی أضرب : الأوّل : أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان . والثاني : أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» . والثالث : أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور . والرّابع : أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ ( ص و ب ) الصواب ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ (2) مستحسن چیز کا قصد کرے لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے سنا السَّنَا : الضّوء الساطع، والسَّنَاءُ : الرِّفعة، والسَّانِيَةُ : التي يسقی بها سمّيت لرفعتها، قال : يَكادُ سَنا بَرْقِهِ [ النور/ 43] ، وسَنَتِ الناقة تَسْنُو، أي : سقت الأرض، وهي السَّانِيَةُ. ( س ن و ) السنار ( اسم مقصود ) چمک دار روشنی کو کہتے ہیں اور السناء ( ممدوح کے معنی رفعت کے ہیں ۔ اور معنی رفعت کے اعتبار سے آپ کشی جانور کو ، ، سانیہ ، ، کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يَكادُ سَنا بَرْقِهِ [ النور/ 43] اور بادل میں جو بجلی ہے اس کی چمک آنکھوں کو ذخیرہ کرکے بینائی کو ) اچکے لئے جاتی ہے ۔ اور سنت الناقۃ تسنو کے معنی ہیں اونٹنی نے کنویں سے پانی نکالا اور زمین کو سیراب کیا اور ایسی اونٹنی کو سانیۃ کہاجاتا ہے ( والجمع السونی ) برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ ذهاب والذَّهَابُ : المضيّ ، يقال : ذَهَبَ بالشیء وأَذْهَبَهُ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ، لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود/ 10] ( ذ ھ ب ) الذھب الذھاب ( والذھوب ) کے معنی چلا جانے کے ہیں ۔ ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ لَيَقُولَنَّ : ذَهَبَ السَّيِّئاتُ عَنِّي [هود/ 10] تو ( خوش ہوکر ) کہتا ہے کہ ( آہا ) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
Top