Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Noor : 43
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهٗ ثُمَّ یَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ١ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ١ؕ یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِؕ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تونے نہیں دیکھا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يُزْجِيْ
: چلاتا ہے
سَحَابًا
: بادل (جمع)
ثُمَّ
: پھر
يُؤَلِّفُ
: ملاتا ہے وہ
بَيْنَهٗ
: آپس میں
ثُمَّ
: پھر
يَجْعَلُهٗ
: وہ اس کو کرتا ہے
رُكَامًا
: تہہ بہ تہہ
فَتَرَى
: پھر تو دیکھے
الْوَدْقَ
: بارش
يَخْرُجُ
: نکلتی ہے
مِنْ خِلٰلِهٖ
: اس کے درمیان سے
وَيُنَزِّلُ
: اور وہ اتارتا ہے
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمانوں سے
مِنْ
: سے
جِبَالٍ
: پہاڑ
فِيْهَا
: اس میں
مِنْ
: سے
بَرَدٍ
: اولے
فَيُصِيْبُ
: پھر وہ ڈالدیتا ہے
بِهٖ
: اسے
مَنْ يَّشَآءُ
: جس پر چاہے
وَيَصْرِفُهٗ
: اور اسے پھیر دیتا ہے
عَنْ
: سے
مَّنْ يَّشَآءُ
: جس سے چاہے
يَكَادُ
: قریب ہے
سَنَا
: چمک
بَرْقِهٖ
: اس کی بجلی
يَذْهَبُ
: لے جائے
بِالْاَبْصَارِ
: آنکھوں کو
کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ ہانک کر لاتا ہے بادلوں کو، پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے بارش نکلتی ہے اور آسمان سے۔ اس کے اندر کے پہاڑوں سے اولے برساتا ہے۔ پس جسے چاہتا ہے نقصان پہنچاتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو اچک لے جائے
اَلَمْ تَرَا اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَـہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ ط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلاَ تَـہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِمَا یَفْعَلُوْنَ ۔ (النور : 41) (کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ باخبر ہے اس چیز سے جو وہ کر رہے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کی دعوت اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا نور ہے۔ مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کا نور فطرت اس نورہدایت سے مستنیر ہوتا ہے۔ بنا بریں ضروری ہے کہ اس نور کا ادراک اور اس سے وابستگی کے لیے ان نشانیوں پر غور کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور کھلی آنکھوں سے ان حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی خبر دیتی ہیں۔ پیش نظر آیات میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات اور نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات میں اسی خدائے وحدہ لاشریک لہ کا تصرف ہے۔ اس سے بڑی اور نشانی کیا ہوگی کہ کائنات میں بیشمار مخلوقات ہیں۔ کچھ آسمانوں میں ہیں کچھ زمین میں اور کچھ فضاء میں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح کرتی نظر آتی ہے۔ آسمانوں میں فرشتے تو خیر پیدا ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کے لیے کیے گئے ہیں لیکن دیگر مخلوقات بھی جن میں سورج، چاند، ستارے، سیارے اور ثوابت شامل ہیں سب اللہ تعالیٰ ہی کی تسبیح میں مصروف ہیں۔ اسی طرح زمین میں جن و انس کے علاوہ جتنی مخلوقات ہیں چاہے ان کا تعلق حشرات الارض سے ہو یا آبی مخلوقات سے یا جنگل کی دنیا سے۔ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں حتیٰ کہ جمادات بھی جن کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہ بےجان چیزیں ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں۔ پہاڑوں اور پتھروں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح فضا میں اڑنے والے پرندے کبھی چہچہاتے ہوئے اس کی تسبیح کرتی ہیں اور کبھی پَر پھیلائے ہوئے افتراش کی حالت میں تسبیح کناں نظر آتے ہیں۔ تسبیح سے کیا مراد ہے سوال یہ ہے کہ ان کی تسبیح کیا ہے ؟ اس کا حقیقی جواب تو وہی ہے جو قرآن کریم نے دیا۔ وَ اِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلاَّ یُسَبِیْحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰـکِن لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ” ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد کی تسبیح کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق کی اپنی خاص زبان ہے جن میں جمادات بھی شامل ہیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھتے۔ اسی زبان میں وہ تسبیح کرتے ہیں۔ دوسری بات قرآن کریم نے یہ کہی ہے کہ ہر مخلوق اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتی ہے یعنی جس طرح ہم جانتے ہیں کہ نماز کیسے پڑھنی ہے اور تسبیح کیسے کرنی ہے، وہ بھی جانتے ہیں۔ البتہ علماء نے یہ بات واضح کی ہے کہ نماز سے مراد اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہوں، مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی بجا لاتے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ چونکہ صلوٰۃ و تسبیح سے مراد بندگی اور اطاعت ہے اس لیے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ تمام مخلوقات کو ان کی جبلت اور فطرت کے تحت زندگی گزارنے کا جو طریقہ سکھایا گیا ہے اس کی پابندی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے۔ یہ تمام مخلوقات اس سے کبھی انحراف نہیں کرتیں۔ اور بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان کی تخلیقی ساخت ہمارے بعض ارکانِ عبادت سے مشابہت بھی رکھتی ہے اور یہی ان کی تسبیح ہے۔ مثلاً حشرات الارض زمین پر سجدہ ریز رہتے ہیں، چارپائے رکوع میں ہیں، درخت اور پہاڑ وغیرہ حالت قیام میں ہیں اور بعض جانوروں کی ساخت ہمارے قعود سے مشابہ ہے۔ جب تک یہ مخلوقات اپنی مخصوص زندگی سے بہرہ ور رہتی ہیں تو وہ اپنی عبادت کی حالت پر قائم رہتی ہیں لیکن جب انھیں موت آتی ہے تو ان کی ساخت تبدیل ہوجاتی ہے۔ سانپ الٹ جاتا ہے، یعنی سجدہ ختم کردیتا ہے۔ درخت حالت قیام میں ہیں لیکن جب ان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ زمین پر گرپڑتے ہیں۔ یہی حال باقی پودوں کا بھی ہے۔ لیکن حقیقی جواب یہی ہے کہ سب مخلوقات اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مصروف ہیں لیکن ہم ان کی تسبیح کو نہیں جانتے۔ البتہ بعض اہل کشف بعض دفعہ ان کی تسبیحات سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ واللہ اعلم واحکم بالصواب۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تم تو ان کی تسبیح اور صلوٰۃ سے واقف نہیں ہو کیونکہ تم ان کے افعال و اعمال کو نہیں سمجھتے، لیکن اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے جب وہ تمہیں خبر دے رہا ہے تو اب اس میں شک کی کیا گنجائش ہے۔ دوسری مخلوقات کی تسبیح اور صلوٰۃ کا ذکر ایک تو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے اور دوسرا ممکن ہے اس طرف بھی اشارہ ہو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو ماننے سے انکار کرتا یا اس کی عبادت سے منہ پھیرتا ہے وہ دراصل ایک ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جو ساری دنیا سے بالکل جدا راستہ ہے اور وہ ایک ایسی راگنی چھیڑتا ہے جو اس کائنات کے مجموعی نغمہ سے بالکل بےجوڑ ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہا ہے چاہے وہ اپنے ماحول میں بالکل تنہا ہو، اسے حوصلہ رکھنا چاہیے کہ اس راہ کا مسافر کبھی تنہا نہیں ہوتا، اس کے دائیں بائیں اس کے ہمسفر موجود ہیں کیونکہ ساری کائنات اس کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہے۔ وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ ۔ (النور : 42) (اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ ہی کی طرف ہے سب کی واپسی۔ ) عبادت کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے گزشتہ آیت کریمہ میں جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے یہ اس کی دلیل ہے چونکہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی مملوک اور اس کی محکوم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا حاکم حقیقی اور کارسازِ مطلق ہے اور پھر سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کے نظام میں کسی اور کا دخل ہو اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کائنات کی کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے غافل ہو کر کسی اور کی تسبیح پر آمادہ ہوسکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب کائنات پر مکمل اختیار و اقتدار اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے تو پھر جو لوگ اس سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہیں انھیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ کس انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُـؤَلِّفُ بَیْنَـہٗ ثُمَّ یَجْعَلُـہٗ رُکَامًا فَـتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ج وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ جِبَالٍ فِـیْھَا مِنْ م بَرَدٍ فَـیُصِیْبُ بِـہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَیَصْرِفُـہٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآئُ ط یَکَادُ سَنَابَرْقِـہٖ یَذْھَبُ بِالْاَبْصَارِ ۔ (النور : 43) (کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ ہانک کر لاتا ہے بادلوں کو، پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے بارش نکلتی ہے۔ اور آسمان سے اس کے اندر کے پہاڑوں سے اولے برساتا ہے۔ پس جسے چاہتا ہے نقصان پہنچاتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو اچک لے جائے۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح :۔ یُزْجِیْ …دھکیلنا، ہانکنا، رُکَامًا …رکم، کسی چیز کو اکٹھا کرنا، جب کسی چیز کو اکٹھا کیا جائے اور اسے اوپر نیچے رکھ دیا جائے تو عرب کہتے ہیں رکم الشی یرکمہ، کیچڑ کے ڈھیر کو الرکمۃ کہتے ہیں اور ریت کے ڈھیر کو رکام کہتے ہیں۔ اسی طرح بادل جب گھر کر آجائے اور گہرا ہوجائے تو اسے رکام کہا جاتا ہے۔ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ جِبَالٍ فِـیْھَا مِنْ م بَرَدٍ ” اس جملے کی ترکیب میں اصحابِ تفسیر کے ہاں اختلاف ہوا ہے اور اس کا اثر ترجمے پر بھی پڑتا ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ مِنْ جِبَالٍ اور مِنْ م بَرَدٍ دونوں جگہ مِنْ زائد ہے۔ تقدیرِ کلام اس طرح ہے یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآئِ بَرْدًا یَکُوْنُ کَالْجِبَالِ ” یعنی آسمان سے برف اتارتا ہے جو پہاڑوں کی طرح ہوتی ہے۔ علامہ پانی پتی اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء بَعْضَ جِبَالٍ مِنْ بَرَدٍ یعنی آسمان سے جب برف برستی ہے تو اتنی کثرت سے برستی ہے، معلوم ہوتا ہے برف کے پہاڑ ہیں جو آسمان سے اتر رہے ہیں۔ اور ایک توجیہ وہ ہے جو ترجمے سے ظاہر ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مختارِ مطلق ہے اس سے پہلے کی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کائنات کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی اور اس کی بندگی میں مصروف ہے۔ اس کے خالق اور مالک ہونے اور اس کے حاکم مطلق اور کارسازِحقیقی ہونے کا علم ہر ایک کی فطرت میں داخل ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ کائنات میں سارا اختیار و اقتدار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ وہ اپنے اختیارِ مطلق سے جو تصرف چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل زمین کو سمجھانے کے لیے یہ مثال دی گئی کہ دیکھو زمین پیاسی ہوتی ہے، پانی کی ایک ایک بوند کو ترستی ہے لیکن جن قوتوں کو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک کر رکھا ہے کسی کی یہ قدرت نہیں کہ ان پر بارش کی چند بوندیں برسا سکے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آتا ہے تو وہ ہَوائوں کے زور سے بادلوں کو ہانکتا ہوا وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں بارش برسانا مقصود ہوتا ہے۔ اور پھر بادلوں پر اس کے تصرف کا عالم یہ ہے کہ بادل کے چھوٹے چھوٹے آوارہ ٹکڑوں کو وہ ایک جگہ سمیٹتا اور جمع کرتا ہے۔ ان کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح رکھتا ہے کہ ان میں گہری کثافت پیدا ہوجاتی ہے پھر ان بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ایک ہوجاتا ہے۔ بارش کا برسنا بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے اور زمین کا اسے قبول کرنا جتنی ضرورت ہو اسے روک لینا اور نگل لینا اور باقی ندی نالوں میں پہنچا دینا یہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور پھر اس کے نتیجے میں اس کی رحمت کی مزید نمود اس طرح ہوتی ہے کہ نئی نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ فضاء رنگ و نور میں ڈھل جاتی ہے، رگِ سنگ میں بھی لہو کی گردش تیز ہوجاتی ہے، چند ہی دنوں میں زمین مخملی لباس پہن لیتی ہے، انسانوں اور حیوانوں کے لیے نہ صرف پیاس بجھانے کا انتظام ہوتا ہے بلکہ چارے اور خوراک کا بھی انتظام ہوجاتا ہے۔ فصلیں تیزی سے لہلہانے لگتی ہیں، ہر طرف اس کی رحمت برستی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس کے تصرف کی ہمہ گیری کا عالم یہ ہے کہ اسی رحمت کو وہ جب چاہتا ہے نقمت میں تبدیل کردیتا ہے۔ گھٹائیں جس طرح رحمت کا پیغام بن کے آتی ہیں اسی طرح بعض دفعہ عذاب کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ کتنی معذب قومیں اسی طرح عذاب کی نذر ہوئیں، لیکن عام حالات میں بھی وہ اسی بادل کو جما کر برف کی صورت میں ڈھال دیتا ہے اور پھر جس سرزمین پہ چاہتا ہے ژالہ باری شروع ہوجاتی ہے۔ کہیں تو بادل کی وجہ سے سرسبزی اور ہریالی پیدا ہوتی ہے اور فصلیں لہلہانے لگتی ہیں لیکن کہیں یہی رحمت جب نقمت کی صورت اختیار کرتی ہے تو لہلہاتی فصلیں دیکھتے ہی دیکھتے برباد ہوجاتی ہیں، جانور مرجاتے ہیں، آبادیاں فنا ہوجاتی ہیں۔ اس کے تصرف کی قوت کا عالم یہ ہے کہ ایک ہی آبادی سے بعض دفعہ ہوا اور بادل گزرتے ہیں لیکن ان کے اندر چھپی ہوئی آگ یا برف آبادی کے ایک حصے کو جلا ڈالتی ہے اور دوسرا حصہ محفوظ رہتا ہے۔ آج کی زبان میں اسی کو سائیکلون کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس کا کئی بار تجربہ ہوچکا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ بگولوں میں چھپ کر جنات آتے ہیں اور وہ تباہی مچا دیتے ہیں، لیکن اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے، وہ کبھی رحمت کی صورت اختیار کرتا ہے اور کبھی نقمت کی صورت اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ دونوں پر قادر ہے۔ جب اس کے بادل اللہ تعالیٰ کے جلال کی صورت اختیار کرتے ہیں اور وہ کسی قوم کے لیے تنبیہ اور عذاب بن کر آتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اس آفت سے خود کو یا دوسروں کو بچا سکیں۔ ان بادلوں کے اندر جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک کا یہ حال ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں کو اچک لے جائے گی۔
Top