Mutaliya-e-Quran - At-Tahrim : 7
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اے لوگو جنہوں نے کفر کیا لَا تَعْتَذِرُوا : نہ تم معذرت کرو الْيَوْمَ : آج کے دن اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم جزا دئیے جارہے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
(اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو، آج معذرتیں پیش نہ کرو، تہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے
[يٰٓاَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوْا : اے لوگوں جنھوں نے انکار کیا ] [لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ : تم لوگ بہانے مت گھڑو آج کے دن ] [انمَا تُجْزَوْنَ مَا : تم کو تو بس بدلہ دیا جاتا ہے وہی جو ] [كُنْتم تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ کیا کرتے تھے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 7 ۔ بتارہی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حدِّ استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان نہیں اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بچے دنیا میں خوشحال ہوں، بلکہ اس سے بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ” تم میں سے ہر ایک راعی (چرواہا) ہے اور ہر ایک اپنی رعیت (گلے) کے بارے میں جوابدہ ہے۔ حکمراں راعی ہے اور وہ اپنی رعیت …رعایا) کے معاملہ میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے۔ “ (تفہیم القرآن)
Top