Al-Qurtubi - Al-Kahf : 58
وَ رَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ لَوْ یُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ١ؕ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْئِلًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَفُوْرُ : بخشنے والا ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا لَوْ : اگر يُؤَاخِذُهُمْ : ان کا مواخذہ کرے بِمَا كَسَبُوْا : اس پر جو انہوں نے کیا لَعَجَّلَ : تو وہ جلد بھیجدے لَهُمُ : ان کے لیے الْعَذَابَ : عذاب بَلْ : بلکہ لَّهُمْ : ان کے لیے مَّوْعِدٌ : ایک وقت مقرر لَّنْ يَّجِدُوْا : وہ ہرگز نہ پائیں گے مِنْ دُوْنِهٖ : اس سے ورے مَوْئِلًا : پناہ کی جگہ
اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو پکڑنے لگے تو ان پر جھٹ سے عذاب بھیج دے مگر ان کے لئے ایک وقت (مقرر کر رکھا ہے) کہ اس کے عذاب سے کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وربک الغفور ذوالرحمۃ یعنی وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے، یہ اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ کفار اس میں داخل نہیں۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ (النسائ :48) ۔ ذوالرحمۃ۔ اس میں چار تاویلات ہیں۔ -1 ذوالعفو۔ معافی دینے والا۔ -2 ذوالثواب۔ ثواب دینے والا۔ ان دونوں تاویلات پر اہل ایمان کے ساتھ مختص ہوگا کفار داخل نہ ہوں گے۔ -3 ذوانعمۃ۔ نعمتیں عطا فرمانے والا۔ -4 ذوالھدی۔ ہدایت دینے والا۔ ان دونوں تاویلات کی ببناء پر یہ اہل ایمان اور کفار دونوں کو شامل ہوگا، کیونکہ وہ دنیا میں کافر پر بھی انعام فرماتا ہے جس طرح مومن پر انعام فرماتا ہے۔ اس نے اپنی ہدایت کو کافر کے لیے واضح کیا جس طرح اس نے اپنی ہدایت کو مومن کے لیے واضح کیا، مگر اس سے مومن نے ہدایت پائی اور کافر محروم رہا (1) ۔ لویواخذھم بما کسبوا۔ یعنی اگر کفر اور گناہوں کی وجہ سے مواخذہ کرتا تو انہیں جلدی عذاب دیتا لیکن وہ مہلت دیتا ہے۔ بل لھم موعد۔ یعنی مدت مقرر ہے اس تک انہیں ڈھیل دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لکل نبا مستقر (انعام : 67) لکل اجل کتاب۔ الخ (الرعد) جب وہ وقت آجائے گا تو عذاب ان سے موخر نہ ہوگا خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔ لن یجدوا من دونہ۔ مویلا۔ مویلا۔ سے مراد پناہ گاہ ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور ابن زید کا قول ہے، یہ جوہری نے ” الصحاح “ میں حکایت کیا ہے (1) ۔ وال یئل والادؤ ولا بروزن فعول، اس کا معنی ہے پناہ لینا۔ واء ل بروزن فاعل، اس کا معنی ہے نجات طلب کرنا۔ مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے محرز اس۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے ونیا (دوست) ، ابو عبیدہ نے کہا : اس کا معنی ہے نجات کی جگہ۔ بعض نے فرمایا : محیضاً (پناہ گاہ) ، سب کا معنی ایک ہے۔ عرب کہتے ہیں : لا والت نفسہ۔ یعنی اس کا نفس نجات نہ پائے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : لا والت نفسک خلی تھا لعامرین ولمتکلم اور الاعشیٰ نے کہا : وقد اخالس رب البیت غفلتہ وقد یحاذر منی ثم مائل (2) یعنی نجات نہیں پاتا۔
Top