Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَا تَقْتُلُوا
: نہ مارو
الصَّيْدَ
: شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: حالت احرام میں
وَمَنْ
: اور جو
قَتَلَهٗ
: اس کو مارے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مُّتَعَمِّدًا
: جان بوجھ کر
فَجَزَآءٌ
: تو بدلہ
مِّثْلُ
: برابر
مَا قَتَلَ
: جو وہ مارے
مِنَ النَّعَمِ
: مویشی سے
يَحْكُمُ
: فیصلہ کریں
بِهٖ
: اس کا
ذَوَا عَدْلٍ
: دو معتبر
مِّنْكُمْ
: تم سے
هَدْيًۢا
: نیاز
بٰلِغَ
: پہنچائے
الْكَعْبَةِ
: کعبہ
اَوْ كَفَّارَةٌ
: یا کفارہ
طَعَامُ
: کھانا
مَسٰكِيْنَ
: محتاج
اَوْ عَدْلُ
: یا برابر
ذٰلِكَ
: اس
صِيَامًا
: روزے
لِّيَذُوْقَ
: تاکہ چکھے
وَبَالَ اَمْرِهٖ
: اپنے کام (کیے)
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے معاف کیا
عَمَّا
: اس سے جو
سَلَفَ
: پہلے ہوچکا
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر کرے
فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ
: تو اللہ بدلہ لے گا
مِنْهُ
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
ذُو انْتِقَامٍ
: بدلہ لینے والا
مومنو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلا (دے اور وہ یہ ہے کہ) اس طرح کا چارپایہ جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کردیں قربانی (کردے اور یہ قربانی) کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ (دے اور وہ) مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہے) یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا (کامزہ) چکھے (اور) جو پہلے ہوچکا وہ خدا نے معاف کردیا اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا۔ اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے۔
آیت نمبر
95
مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا یہ ہر مسلمان مذکر اور مونث کو خطاب ہے یہ نہی آزمائش ہے جس کا ذکر (آیت) یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید میں ہے۔ روایت ہے کہ ابو الیسر، ان کا نام عمرو بن مالک انصاری تھا۔ حدیبیہ کے سال انہوں نے احرام باندھا ہوا تھا اور انہوں نے جنگلی گدھا شکار کیا تو اس میں یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) لاتقتلوا الصید وانتم حرم۔ مسئلہ نمبر
2
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) لاتقتلوا الصیدقتل سے مراد ہر وہ فعل ہے جو روح کو فوت کردے اس کی کئی صورتیں ہیں نحر کرنا، ذبح کرنا، گلہ دبادینا، پتھر سے سر کچل دیناوغیرہ اللہ تعالیٰ نے محرم پر حرام کیا ہے ہر وہ فعل جس سے روح کو فوت کرنے والاہو مسئلہ نمبر
3
۔ جس نے شکار کو قتل کیا یا اس نے اسے ذبح کیا، پھر اس نے اسے کھایاتو اس پر قتل کرنے کی ایک جزا ہے کھانے کہ علیحدہ جزا نہیں یہی امام شافعی کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : اس پر اس کی بھی جزا ہے جو اس نے کھایا یعنی اس کی قیمت۔ صاحبین نے امام صاحب کی مخالفت کی ہے وہ فرماتے ہیں : استغفار کے علاوہ اس پر کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ اس نے مردہ کو استعمال کیا ہے جس طرح دوسرا مردہ جانور اٹھاتا ہے اسی طرح اگر اس کو کسی دوسرے محرم نے کھایاتو اس پر بھی صرف استغفا رہے۔ امام ابوحنیفہ کی حجت یہ ہے کہ اس نے احرام کی ممنوع چیز کو لیا ہے، کیونہ اس کا قتل کرنا بھی ممنوع چیزوں میں سے تھا اور یہ معلوم شدہ ہے کہ قتل سے مقصود بھی کھانا ہوتا ہے اور جو چیز مقصود تک پہنچانے والی ہو یعنی احرام کے ممنوع تک تو وہ جزا کا موجب ہوتی ہے پھر جو مقصود ہے اس پر بدرجہ اولی جزا ہوگی۔ مسئلہ نمبر
4
۔ ہمارے نزدیک محرم کا شکار کو ذبح کرنا جائز نہیں، کیونہ اللہ تعالیٰ نے محرم کو شکار کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے اور امام شافعی نے فرمایا : محرم کے لیے شکار کا ذبح کرنا ذبح ہے اور انہوں نے اس کا تعلق اس سے جوڑا ہے کہ وہ ذبح کا فعل ذبح کے اہل یعنی مسلمان سے صادر ہوا ہے اور وہ اپنے محل کی طرف منسوب ہے اور وہ ہے حلال جانور، پس کھانے کی حلت کی وجہ سے اپنے مقصود کا فائدہ دے گا اس کی اصل حلال جانور کا ذبح کرنا ہے۔ ہم کہتے ہیں : تمہارا یہ کہنا کہ ذبح، ذبح کے اہل سے صادر ہوئی ہے حالانکہ محرم شکار کو ذبح کرنے کا اہل نہیں، کیونکہ اہلیت عقل سے نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ شرع ثابت کرتی ہے یہ ذبح میں اس کی اجازت اور اس کی نفی سے ہے اور شرع میں محرم کو ذبح سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لاتقتلوا الصیدپس نہی کے ساتھ اہلیت کی نفی ہوگئی اور تمہارا قول کہ اس کا مقصود حاصل ہوتا ہے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ محرم جب شکار کو ذبح کرے گا تو اس کے لیے اس کا کھاناحلال نہ ہوگا اور تمہارے نزدیک اس سے کوئی غیر کھاسکتا ہے اور جب ذبح، ذبح کرنے والے کے لیے حلت کا فائدہ نہیں دیتی تو دوسرے کے لیے بھی بدرجہ اولی مفید نہ ہوئی، کیونکہ فرع احکام میں اصل کے تابع ہوتی ہے پس یہ صحیح نہیں کہ جو اصل کے لیے ثابت نہ ہو وہ فرع کے لیے ثابت ہو۔ مسئلہ نمبر
5
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الصید یہ مصدر ہے اس کے ساتھ اسماء کا معاملہ کیا گیا ہے پس شکار کیے گئے حیوان پر اس کا اطلاق ہوتا ہے (
1
) (المحررالوجیز): الصید کا لفظ یہاں عام ہے ہر بری اور بحری شکار کو شامل تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادآیا : (آیت) وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماپس دریائی شکار کو مطلق مباح کردیا یہ اس کا بیان آئندہ آئے گا انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ نمبر
6
۔ خشکی کے شکار میں سے درندوں کے نکلنے اور ان کی تخصیص کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ہر وہ چیز جو درندوں میں سے حملہ نہیں کرتی مثلابلی، لومڑ۔ بجو اور اس جیسے دوسرے جانوروں کو محرم قتل نہیں کرسکتا اگر قتل کرے گا تو فدیہ دے گا۔ فرمایا : چھوٹے بھیڑیے میرے خیال میں ان کو بھی محرم قتل نہ کرے، اگر انہیں قتل کرے گا تو فدیہ دے گا یہ کو وں کے بچوں کی مثل ہیں اور جو چیزیں انسان پر غالب طور پر حملہ آور ہوتی ہیں ان کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں مثلاشیر، بھیڑیا، چیتاوغیرہ، اسی طرح سانپوں، بچھوئوں، چوہوں، کو ئوں اور چیلوں کو مارنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسماعیل نے کہا : پانچ فواسق ہیں حل و حرم میں انہیں قتل کیا جائے گا آپ ﷺ نے انہیں فواسق کہا اور اس کے افعال کو بیان کیا، کیونکہ فاسق فسق کے لیے فاعل کا وزن ہے اور چھوٹے جانوروں کا فعل نہیں ہوتا کتے کا عقور کا وصف بیان کیا اور چھوٹے کتے کاٹتے نہیں ہیں پس وہ اس کے تحت داخل نہ ہونگے۔ قاضی اسماعیل نے کہا : کاٹنے والے کتے کا نقصان لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ فرمایا : ان میں سے سانپ اور بچھو ہیں کیونکہ اسن سے بھی ڈرایا جاتا ہے اسی طرح چیل اور کوا یہ لوگوں کے ہاتھوں سے گوشت اچک لیتے ہیں۔ ابن بکیر نے کہا : بچھو کو قتل کرنے کا حکم، کیونکہ وہ زہر والا ہے اور چوہے کو مارنے کا حکم دیا، کیونکہ وہ مشکیزہ اور جوتا کاٹ دیتا ہے جو مسافر کا زادراہ ہوتے ہیں اور کوے کا مارنے کا حکم دیا، کیونکہ وہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھتا ہے اور ان کا گوشت کاٹ لیتا ہے۔ امام مالک سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : کوے اور چیل کو قتل نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ نقصان پہنچائیں۔ قاضی اسماعیل نے کہا بھڑ میں اختلاف ہے بعض نے اسے سانپ اور بچھو کے ساتھ مشابہت دی ہے۔ فرمایا : اگر بھڑکا ابتداحملہ کرنا نہ ہوتا تو یہ لوگوں پر سانپ اور بچھو سے بھی زیادہ سخت ہوتا لیکن اس کی طبع میں حملہ کرنا نہیں ہے جیسا کہ سانپ اور بچھو میں ہے، بھڑ کو جب اذیت دی جائے تو وہ سخت لڑتی ہے۔ فرمایا : اگر بھڑ کسی کے سامنے آئے اور وہ اسے دور کردے تو اس کے قتل میں اس پر کچھ نہ ہوگا۔ حضرت عمر بن خطاب سے بھڑکے قتل کی اباحت ثابت ہے۔ امام مالک نے کہا : بھڑ کے قاتل کو کوئی چیز کھلانی چاہیے۔ اسی طرح امام مالک نے اس شخص کے بارے کہا جس نے کیکڑا، مکھی اور چیونٹی وغیرہ کو مارا۔ اصحاب الرائے نے کہا : ان تمام کے قاتل پر کوئی چیز نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : محرم درندوں میں سے کسی کو قتل نہ کرے سوائے کاٹنے والے کتے اور بھڑیئے کے خواہ وہ اس پر پہلے حملہ کریں یا یہ ان پر حملہ کرے اگر ان کے علاوہ کسی درندے کو قتل کرے گا تو فدیہ دے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر کتے اور بھڑیئے کے علاوہ کسی درندے نے محرم پر حملہ کیا اور اس نے اسے قتل کردیاتو اس پر کوئی چیز نہ ہوگی اور فرمایا : سانپ، بچھو، کوے اور چیل کے قتل میں اس پر کچھ نہیں ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے مگر امام زفر کا قول مختلف ہے یہی قول اوزاعی، ثوری اور حسن کا ہے اور انہوں نے اس پر حجت یہ پیش کی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے مخصوص جانوروں کو محرم کے لیے قتل کرنے کی اجازت دی ہے، کیونکہ وہ نقصان پہنچاتے ہیں پس اس پر زیادتی کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ علماء کسی چیز پر جمع ہوجائیں اور اس کے معنی میں داخل کردیں۔ میں کہتا ہوں : تعجب ہے امام ابوحنیفہ ؓ عنہؓؓؓؓؓؓرحمۃ اللہ علیہ پر کہ وہ کیل کی علت کی وجہ پر گندم پر مٹی کو محمول کرتے ہیں اور درندوں کو علت فسق اور کاٹنے کی وجہ سے کتے پر محمول نہیں کرتے جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : امام زفر بن ہذیل نے کہا : محرم صرف بھڑیئے کو قتل کرے اور جس نے احرام کی حالت میں کسی اور درندے کو قتل کیا تو اس پر فدیہ ہے خواہ وہ حملہ کی ابتدا کرے یا نہ کرے، کیونکہ وہ بےزبان ہے پس اس کا فعل رائیگاں ہے، یہ حدیث کا رد اور اس کی مخالفت ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : ہر وہ چیز جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا اسے قتل کرنے کی محرم کو اجازت ہے اور اس میں چھوٹا اور بڑا شکار برابر ہیں مگر سوائے سمع کے جو بھیڑیئے اور بجو کے درمیاں پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا : بڑی چچڑی اور چھوٹی چچڑی اور وہ چیزیں جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان میں کوئی کفارہ نہیں ہے، کیونکہ یہ شکار میں سے نہیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وحرم علیکم صید البر مادمتم حرما۔ یہ دلیل ہے کہ الصید سے مراد وہ ہے جو احرام سے پہلے ان پر حلال تھا اور احرام کی وجہ سے ان پر حرام کیا گیا یہ تمام ان سے مزنی اور ربیع نے ذکر فرمائی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جوں کا فدیہ کیوں دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ اذیت دیتی ہے اور کھائی نہیں جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فدیہ نہیں دیا جاتا مگر اس پر جس پر فدیہ دیا گیا ہے بال، ناخن اور ان چیزوں کا پہننا جن کا پہننا اس کے لیے جائز نہیں تھا چونکہ جوں کے پھینکنے میں اپنی ذات سے اذیت کو دور کردینا ہے جب کہ وہ اس کے سر اور داڑھی میں تھی گویا اس نے اپنے بالوں کی تکلیف کے دور کیا۔ جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو قتل کی جاتی ہے، حالانکہ وہ اذیت نہیں دیتی ابو ثور کا قول اس باب میں امام شافعی کے قول کی طرح ہے۔ یہ ابو عمرنے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر
7
۔ ائمہ حدیث نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جانوروں میں سے پانچ ایسے ہیں محرم پر ان کے قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا “ (
1
) (مسند امام احمد حدیث نمبر
5132
) ۔ یہ بخاری کا الفاظ ہیں۔ یہی احمد اور اسحاق نے کہا ہے مسلم میں حضرت عائشہ ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا :” پانچ فواسق ایسے ہیں ان کو حل و حرم میں قتل کیا جائے گا سانپ، ابقع کوا، چوہا۔ کاٹنے والا کتا اور چیل “ اہل علم کی ایک جماعت کا یہی قول ہے فرماتے ہیں : کو وں سے صرف ابقع ماراجائے گا، کیونکہ یہ مطلق کی تقیید ہے۔ اور ابو دائود کی کتاب میں حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ کوے کو پتھر مارے اور اسے قتل نہ کرے (
2
) (سنن ابو دائود، حدیث نمبر
1514
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ جمہور علماء کا قول حضرت ابن عمر کی حدیث کے مطابق ہے۔ ابو دائود اور ترمذی میں السبع العادی (حملہ کرنے والا درندہ) یہ علت پر تنبیہ ہے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وانتم حرم یہ مردوں اور عورتوں اور آزاد، غلام سب کو شامل ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل حرام وامراۃ حرام۔ اس کی جمع حرم ہے جیسے عرب کہتے ہیں : قذال وقذل، احرم الرجل کا معنی ہے وہ حرم میں داخل ہوا جیسے کہا جاتا ہے اسھل یعنی سھل (آسانی) میں داخل ہوا یہ لفظ زمان و مکان کو شامل ہے احرم کی حالت اشتراک کے ساتھ ہے نہ کہ عموم کے ساتھ۔ کہا جاتا ہے : رجل حرام جب کوئی حرمت والے مہینوں میں داخل ہو یاحرم میں داخل ہو یا احرام باندھے لیکن زمانے کی تحریم خارج ہے اس کا اعتبار اجماع سے خارج ہے اورم کان کی تحریم اور احرام کی حالت اصل تکلیف پر باقی ہے یہ ابن عربی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ م کان کے اعتبار سے حرم دو ہیں حرم مدینہ اور حرم مکہ۔ امام شافعی نے طائف کا اضافہ کیا ہے ان کے نزدیک طائف کا درخت کاٹناجائز نہیں اور نہ اس کا شکار کرنا جائز ہے اور جس نے کوئی ممنوع کام یہاں بھی کیا تو اس پر جزا ہوگی اور رہا مدینہ اس میں کسی کے لیے نہ شکار جائز ہے اور نہ درخت کاٹناجائز ہے جیسا کہ حرم مکہ کا حکم ہے اگر کوئی ایسا کرے گا تو گناہگار ہوگا اور امام مالک، امام شافعی اور ان کے اصحاب کے نزدیک اس پر جزا نہیں ہے۔ ابن ابی ذئب نے کہا : اس پر جزا ہے سعد نے کہا : اس کی جزا یہ ہے کہ اس کا سامان چھین لیاجائے۔ امام شافعی سے بھی یہ مروی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : مدینہ طیبہ کا شکار حرام نہیں اسی طرح اس کے درخت کاٹنے بھی ممنوع نہیں۔ امام صاحب کے بعض متبعین نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی حدیث سے حجت پکڑی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” جس کو تم مدینہ طیبہ کی حدود میں شکار کرتے ہو یا درخت کاٹتے ہوئے پائو تو اس کا سامان لے لو “۔ حضرت سعد نے اس شخص کا سامان لے لیا۔ فرمایا : فقہاکا اتفاق ہے کہ جو مدینہ طیبہ میں شکار کرے گا اس کا سامان نہیں لیا جائے گا یہ دلیل ہے کہ وہ حکم منسوخ ہے۔ امام طحاوی نے حضرت انس کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جس میں ہے مافعل النفیر ؟ (نفیر کا کیا ہوا) رسول اللہ ﷺ نے اس پرندے کے شکار کرنے اور اس کو پکڑنے پر انکار نہ کیا۔ ان احادیث میں احناف کے لیے حجت نہیں۔ رہی پہلی حدیث وہ قوی نہیں ہے اگر صحیح بھی ہو تو بھی سلب کے نسخ میں ایسی بات نہیں کہ تحریم مدینہ جو صحت سے ثابت ہے اسے ساقط کر دے۔ کتنے ایسے حرام امور ہیں جن کی دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے۔ رہی دوسری حدیث تو جائز ہے کہ وہ غیر حرم سے شکار کیا گیا ہو۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک وحشی جانور تھا جب آپ ﷺ گھر سے چلے جاتے تو وہ کھیلتا اور بھاگتا رہتا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی آمد محسوس کرتا تو پائوں پھیلا کر بیٹھ جاتا اور حرکت نہ کرتا تھا تاکہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو تکلیف نہ ہو۔ ہماری دلیل وہ روایت ہے جو امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : اگر میں ہرن کو مدینے میں چرتا ہوا دیکھوں تو میں اسے پریشان نہ کروں “۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” دو پتھریلے ٹیلوں کے درمیان جو جگہ ہے وہ حرم ہے “۔ حضرت ابوہریرہ کا قول کہ ” میں ہرن کو پریشان نہیں کروں گا “ دلیل ہے کہ حرم مدینہ میں شکار کو ڈرانا بھی جائز نہیں جس طرح حرم مکہ میں شکار کو ڈراناجائز نہیں ہے اسی طرح حضرت زید بن ثابت کا شرحبیل بن سعد کے ہاتھ سے چڑیا کو چھین لینا جس کو مدینہ طیبہ سے شکار کیا گیا تھا دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام مدینہ طیبہ کے شکار کی تحریم میں رسول اللہ ﷺ کی مراد سمجھ گئے تھے پس اس میں شکار کرنے کو انہوں نے جائز قرار نہ دیا اور جو چیز شکار کی گئی اس کی ملکیت کو بھی جائز نہ کیا۔ ابن ابی ذئب نے نبی مکرم ﷺ کا قول صحیح میں روایت کیا ہے :” اے اللہ ! ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا تھا میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں جس طرح انہوں نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی، اس کا نہ گھاس کاٹا جائے گا نہ درخت کاٹا جائے گا نہ اس کا شکار بھگایاجائے گا “۔ چونکہ مدینہ حرم ہے اس میں شکار منع کیا گیا اور اس کے ساتھ جزا کو معلق کیا گیا جس طرح حرم مکہ کے ساتھ ہے۔ (
1
) (احکام القرآن لابن عربی ) قاضی عبد الوہاب نے کہا : یہ قول میرے نزدیک ہمارے اصول پر زیادہ قیاس کے مطابق ہے خصوصا مدینہ طیبہ ہمارے اصحاب کے نزدیک مکہ سے افضل ہے اس میں نماز، مسجد حرام کی نماز سے افضل ہے اور امام مالک اور امام شافعی کی حجت میں سے یہ ہے کہ اس پر جزا کا حکم اور سامان چھین لینے کا حکم نہیں لگایا گیا۔ یہ امام شافعی کا مشہور قول ہے اور نبی مکرم ﷺ کے قول کا عموم اس پر کوئی حکم نہیں لگاتا ارشاد فرمایا :” مدینہ عیر پہاڑ سے لے کر ثور پہاڑ تک حرام ہے جس نے اس میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے نہ فرض قبول کرے گانہ نفل “۔ اس ارشاد میں وعید کو مطلق فرمایا اور کفارہ کا ذکر نہیں فرمایا (
2
) (ایضا) اور جو حضرت سعد سے ذکر کیا گیا ہے وہ ان کا مخصوص مذہب ہے۔ کیونکہ صحیح میں ان سے مروی ہے کہ وہ اپنے محل کی طرف سوار ہو کر عقیق میں گئے تو انہوں نے ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے پایا۔ آپ نے اس سے سامان چھین لیا۔ جب حضرت سعد واپس آئے تو غلام کے مالک ان کے پاس آئے اور غلام کا سامان واپس کرنے کے لیے بات چیت کی۔ حضرت معاذنے کہا : معاذاللہ ! میں وہ چیز واپس کردوں جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی ہے آپ نے انہیں سامان واپس کرنے سے انکار کردیا (
3
) (ایضا) ۔ پس اس قول کا (نفلنیہ) اس کا ظاہر خصوص ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
10
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ومن قتلہ منکم متعمدا اللہ تعالیٰ نے متعمداجان بوجھ کر قتل کرنے والاکا لفظ ذکر فرمایا ہے۔ خطا اور بھول کر کرنے والے کا ذکر نہیں کیا۔ یہاں متعمدا سے مراد وہ ہوتا ہے جو احرام کے علم کے ہوتے ہوئے کسی چیز کا قصد کرتا ہے۔ مخطی وہ ہوتا ہے جو کسی چیز کا قصد کرتا ہے پھر وہ شکار پا لیتا ہے اور بھولنے والا وہ ہے جو جان بوجھ کر شکار کا قصد کرتا ہے اور اسے احرام یاد نہیں ہوتا۔ اس کے متعلق علماء کے پانچ اقوال ہیں : (
1
) دارقطنی نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : تکفیر جان بوجھ کر قتل کرنے میں ہے۔ انہوں نے خطا میں بھی کفارہ میں سختی کی تاکہ لوگ آئندہ ایسا نہ کریں۔ (
2
) متعمدا کا قول غالب طور پر ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ ن اور کا لاحق کیا گیا جیسا کہ اصول شریعت میں ہیں۔ (
3
) خطا اور بھول کر ایسا کرنے والے پر کچھ نہیں۔ یہی قول طبری کا ہے اور امام احمد بن حنبل کی بھی ایک روایت یہی ہے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے یہی طائو وس اور ابو ثور کا قول ہے یہی دائود کا قول ہے۔ امام احمد نے کہا : کہ جب اللہ تعالیٰ نے متعمدا کا خاص ذکر کیا ہے تو یہ دلیل ہے کہ اس کے علاوہ کا حکم اس کے خلاف ہے اور مزید یہ کہا کہ اصل ذمہ کی برأت ہے جس نے ذمہ کی مشغولیت کا دعوی کیا اس پر دلیل ہے (
4
) اس پر عمد، خطا اور نسیان کی صورت میں حکم لگایا جائے گا یہ حضرت ابن عباس ؓ عنہکا قول ہے۔ عمر، طائو وس، حسن، ابراہیم اور زہری سے مروی ہے یہی قول امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔ زہری نے کہا : عمدا میں جزا کا وجوب قرآن سے ہے اور خطا اور نسیان کی صورت میں جزاکاوجوب سنت ہے۔ ابن عربی نے کہا : اگر سنت سے مراد وہ آثار ہیں جو حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عمر سے مروی ہیں تو یہ بہتر ہیں اور یہ کتنااچھا اسوۃ ہے (
5
) متعمدا وہ اسے قتل کرتا ہے، کیونکہ اس نے اسے احرام کو بھول کر قتل کیا ہے۔ یہ مجاہد کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ومن عاد فینتقم اللہ منہ فرمایا : اگر وہ احرام کو یاد رکھتے ہوئے کرتا تو اس پر پہلی مرتبہ بھی سزا ہوتی فرمایا : یہ دلیل ہے کہ اس کو متعمدا قتل کا ارادہ کرے جب کہ وہ احرام کو بھولاہوا تھا۔ مجاہدنے کہا : اگر اسے احرام یاد ہو تو وہ احرام سے فارغ ہوگیا اور اس نے احرام کا ممنوع کام کیا اس لیے اس کا حج بھی نہیں ہے پس وہ اس پر باطل ہوگیا جیسا کہ کوئی نماز میں گفتگو کرتا ہے یا نماز میں حدث لاحق ہوتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔ فرمایا : جس نے خطا کی پس اس پر جزا ہے۔ ہماری دلیل مجاہد کے خلاف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جزا کو واجب کیا اور فساد کا ذکر نہیں کیا پس احرام یاد ہو یا یاد نہ ہو کوئی فرق نہیں ہے اور نماز پر حج کا قیاس صحیح نہیں، کیونکہ یہ دونوں مختلف ہیں۔ مجاہد سے مروی ہے کہ قتل عمد میں بھی اس پر حکم نہیں ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اس کا حج مکمل ہے یہی ابن زید کا قول ہے۔ ہماری دلیل دائود کے خلاف یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ سے بجو کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :” یہ شکار ہے “ ، جب محرم بجو کو قتل کرے تو اس کے لیے ایک مینڈھابطور جزا مقرر فرمایا (
1
) (سنن ابن ماجہ، باب جزاء الصید یصیبہ المحرم، حدیث نمبر
3075
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور عمدأاور خطأ کا ذکر نہیں فرمایا۔ ہمارے علماء میں سے ابن بکیر نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشادمتعمدا اس سے مراد خطا سے تجاوز نہیں، بلکہ متعمدا سے یہ مراد لیا کہ وہ بیان کرے کہ یہ اس ابن آدم کی طرح نہیں جس کے قتل عمد میں کفارہ نہیں اور شکار میں کفارہ ہے اس سے مراد قتل خطا میں جزا کو ساقط کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
11
۔ جو شخص حالت احرام میں جتنی مرتبہ جانور قتل کرے گا اس پر ہر مرتبہ فیصلہ ہوگا یہ امام مالک، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ وغیرہم کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوالاتقتلوا الصید وانتم حرم الایۃ۔ پس نہی ہمیشہ کے لیے ہے اور مستمر ہے جب تک کہ وہ محرم ہے جب وہ قتل کرے گا اس کی وجہ سے اس پر جزا لازم ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : اسلام میں اس پر دو مرتبہ حکم نہیں لگایاجائے گا اس پر صرف ایک مرتبہ حکم لگایاجائے گا اگر وہ دوبارہ جرم کرے گا تو اس پر حکم نہیں لگایاجائے گا اسے کہا جائے گا : اللہ تعالیٰ تجھ سے انتقام لے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ومن عاد فینتقم اللہ منہ۔ یہ قول حسن، ابراہیم، مجاہد اور شریح کا ہے ان کے خلاف ہماری دلیل یہ ہے جو ہم نے اس کے بارے میں ذکر کی جو احرام میں تحریم کی طرف بڑھتا ہے دین اسلام میں اس پر خطاب متوجہ ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر
12
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فجزاء مثل ماقتل من النعم اس میں چار قراءتیں ہیں : فجزاء مثل جزا کے رفع اور تنوین کے ساتھ اور مثل صفت کی بنا پر ہے اور خبر مضمر ہے تقدیر اس طرح ہوگی فعلیہ جزاء مماثل واجب او لازم من النعم۔ یہ قراءت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مثل بعینہ جزا ہے اور جزا پر رفع بغیر تنوین کے اور مثل اضافت کے ساتھ یعنی فعلیہ جزاء مثل ماقتل اور مثل کا لفظ مقحم ہے جیسا کہ تیرا قول ہے : انااکرم مثلک اس سے تیری مراد یہ ہے کہ انااکرمک میں تیری عزت کرتا ہوں۔ اس کی مثال یہ ارشاد بھی ہے : (آیت) اومن کان میتا فاحیینہ وجعلنالہ نوارا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمات (الانعام :
122
) اس کی تقدیر یہ ہے (آیت) کمن ھو فی الظلمت اور اس کی یہ بھی نظیر ہے (آیت) لیس کمثلہ شیء (الشوری :
11
) یعنی لیس کھو شی یہ تقدیر تقاضا کرتی ہے جزا مثل کے علاوہ ہے، کیونکہ کوئی چیز اپنی ذات کی طرف مضاف نہیں ہوتی۔ ابو علی نے کہا : اس پر مقتول کی جزا ہے نہ کہ مقتول کی مثل کی جزا ہے اضافت مثل کی جزا کا موجب ہے نہ کہ مقتول کی جزا کا۔ یہ امام شافعی کا قول ہے جیسا کہ آگے آئے گا اور قولہ من النعم دونوں قرأتوں پر جزا کی صفت ہے۔ حسن نے من النعم پڑھا ہے یعنی عین کے سکون کے ساتھ یہ بھی ایک لغت ہے۔ عبد الرحمن نے فجزاء رفع اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اور مثل کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو الفتح نے کہا : مثل، نفس جزا کے ساتھ منصوب ہے معنی یہ ہے : ان یجزی مثل ماقتل۔ اور حضرت ابن مسعود اور اعمش فجزاءہ مثل، پڑھا ہے یعنی ھا کو ظاہر کرنے کے ساتھ۔ یہ احتمال ہے کہ وہ شکار کی طرف ضمیر لوٹے یا شکاری قاتل کی طرف۔ مسئلہ نمبر
13
۔ جزا شکار کو قتل کرنے کے ساتھ ہوتی ہے صرف پکڑنے سے نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” مدونۃ “ میں ہے جس نے کوئی پرندہ شکار کیا پھر اس کے پر اکھیڑ دیے پھر اسے قید کردیا حتی کہ اس کے نئے پر اگ آئے اور وہ اڑ گیا تو فرمایا : اس پر کوئی جزا نہیں۔ فرمایا : اسی طرح اگر شکار کا ہاتھ یا پائوں یا کوئی اور عضو کاٹ دیا اور اس کا نفس صحیح و سلامت ہے وہ شکار کے ساتھ لاحق ہوگیا تو اس پر کوئی جزا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا ؓ : اس پر اتنی مقدار میں جزا ہے جو اس نے اس میں کمی کی اگر وہ چلا گیا اور معلوم نہ ہو اس نے کیا کیا تو اس پر جزا ہے، اگر وہ اپاہج بن گیا اور شکار کے ساتھ لاحق نہ ہوا یا اس نے اسے گھرا ہوا چھوڑدیاتو اس پر کامل جز ا ہے۔ مسئلہ نمبر
14
۔ جن جانوروں کی جزادی جاتی ہے وہ دو قسم کے ہیں : ایک چوپائے اور دوسرے پرندے۔ چوپائوں کی جزا ان کی مثل کے ساتھ دی جاتی ہے جو خلقت اور صورت میں ان کی مثل ہوتے ہیں مثلا شتر مرغ کی جزا اونٹ کے ساتھ۔ وحشی گدھے اور گائے کی جزا گائے کے ساتھ۔ ہرن کی جزا بکری کے ساتھ۔ یہی امام شافعی کا قول ہے اور امام مالک کے نزدیک کم ازکم جزا میسر ہدی ہے وہ قربانی کا جانور ہے جیسے بھیڑ میں سے جذع (جو چھ ماہ سے زائد ہو) اور باقی جانوروں سے ثنی (دندہ) ہو اور جس کی جزا ہدی تک نہ پہنچے تو اس میں کھاناکھلانایا روزے رکھنا ہے، تمام قسم کے کبوتروں میں ان کی قیمت ہے سوائے مکہ کے کبوتر کے۔ مکہ کے کبوتر میں بکری ہے، اس میں سلف کی پیروی نہیں ہے۔ چڑیا، فاختہ، قمری اور تمام طوق والے پرندے کبوتر کے حکم میں ہیں۔ ابن عبد الحکم نے امام مالک سے حکایت کیا ہے کہ مکہ کے کبوتر میں اور ان کے بچوں میں ایک بکری ہے فرمایا : اسی طرح حرم کے کبوتروں کا حکم ہے فرمایا : حل کے کبوتروں میں دو آدمیوں کا فیصلہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : مثل کا اعتبار قیمت میں ہوگا نہ کہ خلقت میں، شکار کی قیمت دراہم میں اس جگہ کے مطابق لگائی جائے گی جہاں اس نے قتل کیا ہے یا قریبی جگہ کا اعتبار ہوگا اگر ایسی جگہ قتل کیا ہو جہاں وہ شکار نہ بیچا جاتا ہو پھر اس قیمت سے چاہے تو ہدی خرید لے یا اس کے ساتھ کھانا خریدے اور مساکین کو کھلائے، ہر مسکین کو نصف صاع گندم دے یا ایک صاع جو دے یا ایک صاع کھجور دے (
1
) (احکام القرآن للجصاص ) ۔ اور امام شافعی جانوروں میں سے مثل کا نظریہ رکھتے ہیں، پھر وہ مثل کی قیمت لگاتے ہیں جس طرح تلف کی گئی چیزوں میں مثل کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ مثل کی قیمت لی جائے گی جیسے کسی شی کی قیمت ہوتی ہے، کیونکہ وجوب میں مثل ہی اصل ہے۔ یہ واضح ہے اس پر اضافت کی قراءت ظاہر ہوتی ہے فجزاء مثل۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر خلقت کے طریق سے شبہ معتبر ہوتا، شتر مرغ میں اونٹ ہوگا، جنگلی گدھے میں گائے ہوگی، ہرن میں بکری ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس کو دو عادل شخصوں پر موقوف نہ کیا جو اس کا فیصلہ کریں گے، کیونکہ یہ معلوم ہے اور اس میں غورو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، عدل اور غورو فکر کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب حالت مشکل ہو اور اس پر نظر مضطرب ہو اور اس پر ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فجزاء من مثل ماقتل من النعم پس مثل ظاہر مثل خلقی صوری کا تقاضا کرتی ہے نہ کہ معنی کا، پھر فرمایا : من النعم المثل کی جنس کو بیان کیا، پھر فرمایا : (آیت) یحکم بہ ذوا عدل منکم یہ ضمیر مثل من النعم کی طرف راجع ہے، کیونکہ اس کے سوا کسی چیز کا ذکر نہیں پس ضمیر اس کی طرف راجع ہے، پھر فرمایا : (آیت) ھدیابلغ الکعبۃ جس میں ہدی متصور ہوتی ہے جو مقتول جانور کی مثل ہو۔ رہی قیمت تو اس کا ہدی ہونا متصور نہیں ہوتا اور نفس آیت میں اس کے لیے ذکر بھی نہیں ہے، پس جو ہم نے ذکر کیا وہ صحیح ہے۔ والحمد للہ۔ اور ان کا قول اگر شبہ معتبر ہوتا تو دو عادل شخصوں پر موقوف نہ کیا ہوتا اس کا جواب یہ ہے کہ دو عادل آدمیوں کا اعتبار شکار کے چھوٹا اور بڑا ہونے میں غورو فکر کے لیے واجب ہے اور جس کی جنس نہیں ہے اس کا فیصلہ اسی چیز سے ہے جس کی جنس ہے اور جس پر نص واقع نہیں ہے اس کو اس کے ساتھ لاحق کرنا ہے جس میں نص واقع ہے (دو شخصوں کا فیصلہ اس کے بارے میں ہے) مسئلہ نمبر
15
۔ جس نے مکہ سے احرام باندھا اور کبوتروں کے بچوں پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردیا پھر وہ مرگئے تو اس پر ہر بچے میں ایک بکری ہے۔ امام مالک نے فرمایا : چھوٹے شکار میں بھی وہی ہے جو بڑے شکار میں ہے۔ یہ عطا کا قول ہے۔ امام مالک کے نزدیک بکری کے چھوٹے بچے کے ساتھ کسی چیز کا فدیہ نہیں دیا جائے گا۔ امام مالک نے فرمایا : دیت کی طرح اس میں چھوٹا اور بڑا برابر ہیں۔ امام مالک کے نزدیک گوہ میں اور جنگلی چوہے میں ان کی قیمت کا کھانا ہے۔ اہل مدینہ میں سے کچھ چھوٹے شکار میں امام مالک کی مخالفت کرتے ہیں اور جذع اور ثنی (دندہ) میں بھی مخالفت کرتے ہیں اور وہ حضرت ابن عمر کے قول کے مطابق کہتے ہیں۔ خرگوش میں بکری کا بچہ ہے چوہے میں جفرہ (بکری کا چرنے والا بچہ) ہے امام مالک نے اسے موقوف روایت کیا ہے۔ ابو زبیر نے حضرت جابر سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا :” جب مجرم بجو کو قتل کرے تو اس میں مینڈھا ہے اور ہرن میں بکری ہے اور خرگوش میں بکری کا بچہ ہے اور جنگلی چوہے میں جفرہ ہے “۔ فرمایا : جفرہ اس بکری کے بچے کو کہتے ہیں جو چرتا ہو، اور دوسرے طریق میں ہے میں نے ابو زبیر سے پوچھا جفرہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : جس کا دودھ چھڑایا گیا ہو اور وہ چرتا ہو اس کو دارقطنی نے نقل کیا ہے (
2
) (سنن دارقطنی، حدیث نمبر
2546
،
2549
) امام شافعی نے فرمایا : شتر مرغ میں اونٹ ہے اور اس کے بچے میں اونٹ کا بچہ ہے اور وحشی گدھے میں گائے ہے اور وحشی گدھے کے بچے میں میمنہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خلقت میں مثلیت کا فیصلہ فرمایا ہے چھوٹا اور بڑا متفاوت ہوتے ہیں پس اس میں چھوٹے اور بڑے کا اعتبار واجب ہے جیسا کہ دوسری ضائع کی جانے والی چیزوں میں ہوتا ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ صحیح ہے اور یہ ہمارے علماء کا مختار ہے۔ علماء نے کہا : اگر شکار کا نا ہو یالنگڑاہویا اس کا کوئی عضو ٹوٹا ہو اہوتو مثل بھی اسی صفت پر ہوگا تاکہ مثلیت متحقق ہو، پس جو مثل دیا جا رہا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو جو اس نے ضائع کیا ہے ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) فجزاء مثل ماقتل من النعم صغیر اور کبیر کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھدیا یہ تقاضا کرتا ہے کہ اطلاق کے حق کی وجہ سے ہدی کا اسم اس کے شامل ہو اور یہ مکمل ہدی کا تقاضا کرتا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
16
۔ شتر مرغ کے انڈے میں اونٹ کے ثمن کا دسواں حصہ ہے یہ امام مالک کے نزدیک ہے اور امام مالک کے نزدیک مکی کبوتری کے انڈے میں بچہ ہو یا نہ ہو جب تک کہ انڈہ ٹوٹنے کے بعد وہ بچہ بولانہ ہو، اگر بچہ بولاہوتو اس پر مکمل جزا ہوگی جس طرح اس پرندے کے بڑیک کی جزا ہوتی ہے۔ ابن مواز نے کہا : دو عادل آدمیوں کے فیصلہ پر ہوگا۔ اکثر علماء کا خیال ہے کہ ہر پرندے کے انڈے میں اس کی قیمت ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے حضرت کعب بن عجرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے شتر مرغ کے انڈے میں اس کی ثمن کی مقدار فیصلہ فرمایا جس کو محرم نے توڑا تھا اس کو دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” شتر مرغ کے ہر انڈے میں ایک دن کا روزہ ہے یا ایک مسکین کو کھاناکھلانا ہے “۔ (
1
) (سنن دارقطنی، عن ابی ہریرہ ؓ ، حدیث نمبر
2557
) مسئلہ نمبر
17
۔ وہ جانور جن کی کوئی مثل نہیں مثلا چڑیا اور ہاتھی تو اس کی گوشت کی قیمت ہوگی یا اس کے برابر کھانا ہوگا نہ وہ جو اس سے اغراض مراد لی جاتی ہیں، کیونکہ وہ جانور جن میں کوئی مثل ہوتی ہے اس کی مثل واجب ہوتی ہے۔ اگر مثل معدوم ہو تو قیمت اس کے قائم مقام ہوگی جیسے غصب وغیرہ۔ علماء کے دو مذاہب ہیں : (
1
) تمام شکاروں میں قیمت کا اعتبار ہے (
2
) اور ان جانوروں میں قیمت کا اعتبار ہوگا جن کا جانوروں میں سے مثل نہیں ہے۔ یہ اجماع اپنے ضمن میں قیمت کا اعتبار لیے ہوئے ہے جن کا مثل موجود نہیں، رہا ہاتھی تو اس میں بعض علماء نے فرمایا : اس میں بڑے اونٹ ہیں جن کی دو کہانیں ہیں یہ خراسانی سفید اونٹ ہیں جب ان اونٹوں میں سے کوئی چیز نہ ہو تو پھر اس کی قیمت کو کھانے کے اعتبار سے دیکھا جائے گا، پس کھانا اس پر ہوگا اس میں عمل اس طرح ہوگا کہ ہاتھی کو مرکب (قافلہ) میں رکھا جائے گا حتی کہ وہ اس حد پر اترے جہاں وہ نازل ہوا تھا جب کہ اس میں ہاتھی تھا یہ کھانے میں سے اس کے برابر ہے، رہا اس کی قیمت کو دیکھناتو اس کی بہت بڑی رقم بنے گی، کیونکہ اس کی ہڈیاں اور انیاب ہیں پس کھانا بہت زیادہ ہوگا اور یہ ضرر ہے۔ مسئلہ نمبر
18
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یحکم بہ ذوا عدل منکم امام مالک نے عبدالملک بن قریب سے انہوں نے محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا : میں نے اور میرے ایک ساتھی نے دو گھوڑے دوڑائے، ہم گھاٹی کے دہانے پر پہنچے تو ہم نے ایک ہرن پکڑا جب کہ ہم محرم تھے اس کا آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ حضرت عمر نے قریب بیٹھے ایک شخص کو کہا : آئو میں اور تو فیصلہ کریں، دونوں نے اس پر بکری کا فیصلہ کیا۔ وہ شخص واپس گیا تو کہہ رہا تھا : یہ امیرالمومنین ہے جو ایک ہرن کا فیصلہ نہیں کرسکتا حتی کہ اس نے ایک آدمی کو بلایاجو اس کے ساتھ فیصلہ کرے۔ حضرت عمر نے اس شخص کی بات سن لی اسے بلایا اور پوچھا : کیا تو سورة مائدہ پڑھتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ فرمایا : کیا تو اسے جانتا ہے جس نے میرے ساتھ فیصلہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ؟ حضرت عمر نے کہا : اگر تو مجھے بتاتا کہ تو سورة مائدہ پڑھتا ہے تو میں تجھے سزا دیتا، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے : (آیت) یحکم بہ ذوا عدل منکم ھدیا بلغ الکعبۃ۔ یہ حضرت عبد الرحمن بن عوف تھے۔ مسئلہ نمبر
19
۔ جب فیصلہ کرنے والے دونوں اتفاق کرلیں تو فیصلہ لازم ہوگا یہی حسن اور امام شافعی کا قول ہے جب وہ مختلف ہوجائیں تو ان کے علاوہ کو دیکھاجائے گا۔ محمد بن المواز نے کہا : وہ ان کے قول سے زیادہ کو نہ لے، کیونکہ یہ تو بغیر تحکیم کے عمل ہوگا اسی طرح مثل خلقی سے طعام کی طرف منتقل نہ ہوگا جب وہ اس کا فیصلہ کریں، کیونکہ یہ امر لازم ہے یہ ابن شعبان کا قول ہے۔ ابن القاسم نے کہا : ان کا حکم یہ تھا کہ وہ مثل جزا کا فیصلہ کریں پس انہوں نے وہ کیا پھر اس نے طعام کی طرف منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو جائز ہوگا۔ ابن وہب (رح) نے ” العتبیۃ “ میں کہا : سنت یہ ہے کہ دونوں فیصلہ کرنے والے اسے اختیار دیں جس نے کوئی شکار کیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ ہدی دے جو کعبہ تک پہنچنے والی ہو یا کفارہ دے جو مساکین کا کھانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھے۔ اگر وہ ہدی اختیار کرے تو دوعادل شخص فیصلہ کریں پھر اسے کھانا کھلانے کا اختیار دیا جائے گا یا ہر مد کے مقابلہ میں روزہ رکھے گا اسی طرح امام مالک نے ” المدونہ “ میں کہا۔ مسئلہ نمبر
20
۔ ہر اس چیز کے شکار میں نئے سرے سے فیصلہ کیا جائے گا خواہ اس میں پہلے فیصلہ ہو چکاہو یا نہ ہوچکاہو۔ اگر صحابہ کے فیصلہ جیسا کوئی فیصلہ کرے اس چیز میں جس کا صحابہ نے فیصلہ کیا تھا تو بہتر ہے۔ امام مالک سے مکہ کی کبوتری، جنگلی گدھے، ہرن، شتر مرغ کے علاوہ میں فیصلہ مروی ہے۔ ان چار چیزوں میں سلف صالحین کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر
21
۔ یہ جائز نہیں کہ محرم فیصلہ کرنے والوں میں سے ایک ہویہی امام ابوحنیفہ کا قول اور امام شافعی کا ایک قول ہے مجرم دو فیصلہ کرنے والوں میں سے ایک ہوگا۔ یہ ان کا تسامح ہے، کیونکہ آیت کا ظاہر ایک جنایت کرنے والے اور دو فیصلہ کرنے والوں کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض عدد کو حذف کرنا ظاہر کو ساقط کرنا ہے اور معنی کا فساد ہے، کیونکہ آدمی کا اپنے بارے میں فیصلہ کرنا جائز نہیں اگر یہ جائز ہوتا تو اپنی ذات کی وجہ سے دوسرے سے مستعفی ہوتا، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان فیصلہ ہے دوسرے شخص کی زیادتی دوآدمیوں کے ساتھ حکم کے استیناف پر دلیل ہے۔ (
1
) (احکام القرآن لابن عربی ) مسئلہ نمبر
22
۔ جب ایک جماعت احرام باندھنے والوں کی ایک شکار کو قتل کرنے میں شریک ہو تو امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے فرمایا : ہر ایک پر مکمل جزا ہوگی۔ امام شافعی نے فرمایا : ان تمام پر ایک کفارہ ہوگا، کیونکہ حضرت عمر اور حضرت عبد الرحمن نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ دارقطنی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن زبیر کے موالی نے احرم باندھا ہوا تھا جب ان کے پاس سے بجو گزرا تو انہوں نے اپنی لاٹھیوں سے اسے ماردیا پھر ان کے دلوں میں خیال پیدا ہوا (کہ ہم نے ٹھیک نہیں کیا) وہ حضرت عمر کے پاس آئے انہوں نے مسئلہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک پر ایک ایک مینڈھا ہے (
1
) (سنن دارقطنی، حدیث
2564
) ۔ لغوی علماء نے کہا : لمعززبکم کا معنی ہے تم پر سختی کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے وہ لوگ جنہوں نے بجو کا مارا ان پر مینڈھا ہے آپس میں اس کے حصے تقسیم کریں گے اور ہر ایک اپنا حصہ نکالے گا اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ومن قتلہ منکم متعمدا فجزاء مثل ماقتل من النعم۔ یہ خطاب ہر قاتل کو ہے اور ہر شکار کو قتل کرنے والا مکمل ایک نفس کو قتل کرنے والا ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے ایک شخص کے بدلے پوری جماعت کو قتل کیا جاتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان پر قصاص واجب ہوتا ہم نے اس کے وجوب کا قول کیا ہے اس پر ہمارا اور ان کے ساتھیوں کا اجماع ہے، پس جو ہم نے کہا : وہ ثابت ہوگیا۔ مسئلہ نمبر
23
۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جب ایک جماعت مل کر حرم میں ایک شکار کو قتل کرے اور تمام غیر محرم تھے تو ان پر ایک جزا ہے بخلاف اس کے محرم لوگ شکار کو حرم اور ؓ عنہحل میں قتل کریں، کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام مالک نے فرمایا : ہر ایک پر کامل جزا ہے اس بنا پر کہ حرم میں داخلہ کے ساتھ انسان محرم ہوجاتا ہے جس طرح احرام کے تلبیہ کے ساتھ محرم ہوجاتا ہے دونوں فعلوں میں سے ہر ایک نے اسے ایسی صفت کا ارتکاب کیا جس کے ساتھ نہی متعلق ہے اور وہ دونوں حالتوں میں اس صفت کی ہتک کرنے والا ہے اور امام ابوحنیفہ کی حجت وہ ہے جو قاضی ابو زید بوسی نے ذکر کیا ہے فرمایا : اس میں راز یہ ہے کہ احرام میں جنایت عبادت پر ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے احرام کے ممنوع عمل کا ارتکاب کیا۔ جب حرم میں غیر محرموں نے شکار کو قتل کیا تو انہوں نے ایسے جانور کو تلف کیا جس کا تلف کرنا حرام تھا یہ اس کے قائم مقام ہے کہ اگر ایک جماعت ایک جانور کو تلف کرتی تو ان میں ہر ایک جانور کو قتل کرنے والا تھا اور وہ قیمت میں شریک ہوں گے۔ ابن عربی نے کہا : امام ابوحنیفہ ہم سے زیادہ قوی ہیں اس دلیل کی وجہ سے ہمارے علماء پر اعتراض کیا جاتا ہے اور ہم سے اس کا جدا ہونا مشکل ہے۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
صفحہ
676
) مسئلہ نمبر
24
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ھدیا بلغ الکعبۃ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ دونوں جب ہدی کا فیصلہ کریں گے تو اس ہدی کے ساتھ وہ تمام معاملات کیے جائیں گے جو ہدی کے ساتھ کیے جاتے ہیں مثلا اشعار کرنا، قلادہ پہنانا اور مقام حل سے مکہ کی طرف بھیجی جائے گی اور مکہ میں اسے صدقہ کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ھدیا بلغ الکعبۃ اس سے مراد کعبہ کا عین نہیں، کیونکہ ہدی اس کی تک نہیں پہنچتی، کیونکہ کعبہ مسجد میں ہے۔ اس سے مراد حرم ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : ہدی کو حل کی طرف بھیجنے کی ضرورت نہیں اس بنا پر کہ چھوٹی ہدی چھوٹے شکار کی وجہ سے واجب ہوتی ہے ہیں پس وہ حرم میں خریدی جائے گی اور وہاں ہی وہ ہدی دی جائے گی۔ مسئلہ نمبر
25
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) او کفارۃ طعام مسکین کفارہ شکار کی طرف سے ہے ہدی کی وجہ سے نہیں۔ ابن وہب نے کہا : امام مالک نے کہا : سب سے بہتر جو میں نے اس شخص کے بارے میں سناجو شکار کو قتل کرتا ہے پھر اس میں اس پر فیصلہ کیا جاتا ہے اس شکار کی قیمت لگائی جائے گی جو اس نے شکار کیا، پھر دیکھا جائے گا کہ کھانے سے اس کی کتنی قیمت بنتی ہے ہر مسکین کو ایک مد کھلایاجائے گا یا ہر مد کی جگہ ایک دن روزہ رکھے گا۔ ابن القاسم نے اس کے متعلق کہا : اگر شکار کی قیمت دراہم سے لگائی جائے پھر اس کی قیمت طعام سے لگائی جائے تو یہ جائز ہے۔ درست پہلا قول ہے۔ عبد اللہ بن عبد الحکم نے اس کی مثل کہا ہے۔ انہوں نے کہا : ان تین چیزوں میں اس کو اختیار ہے جو فعل بھی کرے گا جائز ہوگا وہ شخص خوشحال ہو یا تنگ دست ہو یہی قول عطا اور جمہور فقہاء کا ہے، کیونکہ ” او “ تخییر کے لیے آتا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ہر چیز جو کفارات میں سے کتاب اللہ میں ” او ” کے ساتھ ہے اس میں جرم کرنے والے کو اختیار ہے جو کام سے پسند ہو وہ کرلے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : جب محرم ہرن یا اس جیسی کوئی چیز قتل کرے گا تو اس پر مکہ میں بکری ذبح کرنی ہوگی، اگر وہ بکری نہ پائے پھر چھ مساکین کو کھانا کھلائے، پھر اگر اس کو نہ پائے تو اس پر تین دنوں کے روزے ہیں اگر اس نے اونٹ یا اسی جیسا جانور قتل کیا تو اس پر گائے ہوگی اگر وہ گائے نہ پائے تو اس پر بدنہ ہوگا اگر وہ یہ نہ پائے تو تیس مساکین کو کھاناکھلائے اگر یہ نہ پائے تو تو تیس روزے رکھے۔ اور طعام ایک مد ہوگا مد ان کے سیر ہونے کے لیے ہے۔ یہ ابراہیم نخعی اور حماد بن سلمہ کا قول ہے۔ علماء نے فرمایا : (آیت) او کفارۃ طعام اس صورت میں ہے اگر وہ ہدی نہ پائے۔ طبری نے حضرت ابن عباس ؓ سے حکایت کیا ہے فرمایا : جب محرم شکار کرے اور اس پر جزا کا فیصلہ کیا گیا ہو اگر وہ جزا پائے تو اسے ذبح کرے اور اسے صدقہ کرے اگر اس کے پاس جزا نہ ہو تو اس کی جزا دراہم کے ساتھ لگائی جائے گی، پھر دراہم کا اندازہ گندم سے لگایاجائے گا، پھر یہ نصف صاع کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھے گا۔ فرمایا : طعام سے مراد روزوں کے امر کو واضح کرنا ہے جو طعام کو نہ پائے وہ اس کی جزا پائے گا۔ سدی سے یہی روایت کیا گیا ہے (
1
) (المحررالوجیز، جلد
2
، صفحہ
239
) ۔ ظاہر آیت کے ساتھ اس قول پر اعتراض کیا گیا ہے، کیونکہ یہ اس سے علیحدہ ہے۔ مسئلہ نمبر
26
۔ علماء نے اس وقت میں اختلاف کیا ہے جس میں تلف کی گئی چیز کا اعتبار کیا جائے گا۔ ایک قوم نے کہا : جس دن اس نے تلف کیا ہوگا۔ بعض علماء نے فرمایا : فیصلہ کے دن کا اعتبار ہوگا۔ بعض نے کہا : اتلاف کے دن سے فیصلہ کے دن تک جو قیمت زیادہ ہوگی وہ لازم ہوگی۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے علماء کا بھی ان کے اختلاف کی طرح اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ اتلاف کے دن والی قیمت لازم ہوگی اس پر دلیل یہ ہے کہ وجود حق تھا جب تلف کرنے والے نے اسے ختم کردیا تو اس کی مثل اس کا ایجاد کرنا لازم تھا اور وہ عدم کے وقت میں ہے (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
680
) ۔ مسئلہ نمبر
27
۔ رہی ہدی تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مکہ میں دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھدیا بلغ الکعبۃ رہاکھانا کھلانا تو اس میں امام مالک کا قول مختلف ہے کیا وہ مکہ میں ہوگا جہاں اس نے جرم کیا ہے ؟ وہ مکہ میں ہوگا یہ امام شافعی کا قول ہے۔ عطا نے کہا : جو خون یا کھانے سے ہو وہ مکہ میں ہوگا اور روزہ چاہے جہاں رکھے۔ یہ امام مالک قول روزوں کے متعلق ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ قاضی ابو محمد عبد الوہاب نے کہا : شکار کے جزا میں کسی چیز کو حرم سے نکالنا جائز نہیں، سوائے روزوں کے، حماد اور امام ابوحنیفہ نے کہا : جہاں اس نے شکار کیا وہاں ہی وہ کفارہ دے۔ طبری نے کہا : جہاں چاہے کفارہ دے۔ رہا امام ابوحنیفہ کا قول تو اس کی نہ نظر میں کوئی وجہ اور نہ اس میں کوئی اثر ہے۔ رہا وہ جس نے کہا : جہاں چاہے روزے رکھے کیونکہ روزہ ایک عبادت ہے جو روزہ دار کے ساتھ خاص ہے پس یہ ہر جگہ ہو سکتا ہے جس طرح دوسرے تمام کفارات کے روزے ہیں، رہاوہ قول کہ طعام مکہ میں ہوگا، کیونکہ وہ ہدی کا بدل ہے یا اس کی نظیر ہے اور ہدی مکہ کے مساکین کا حق ہے اسی وجہ سے اس کا بدل بھی مکہ میں ہوگا یا رہا وہ جس نے کہا کہ کھانا بھی ہر جگہ ہوسکتا ہے اس نے ہر طعام اور فدیہ کا اعتبار کیا، کیونکہ وہ ہر جگہ جائز ہوتا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
28
۔ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) او عدل ذلک صیاما، العدل اور العدل، عین کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ دونوں لغتیں ہیں اور دونوں کا معنی مثل ہے یہ کسائی کا قول ہے۔ فراء نے کہا : عدل الشی عین کے کسرہ کے ساتھ اس کا معنی ہے اس کی جنس سے اس کی مثل اور عین کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے اس کی جنس کے علاوہ میں سے اس کی مثل یہ قول کسائی سے بھی روایت ہے تو کہتا ہے : عندی عدل دراھمک من الدراھم وعندی عدل دراھمک من الثیاب۔ کسائی سے صحیح یہ مروی ہے کہ یہ دونوں لغتیں ہیں۔ یہی بصریوں کا قول ہے روزوں کا عدد کے اعتبار سے وجہ اقرب میں طعام کے مما ثل ہونا صحیح نہیں ہے۔ امام مالک نے کہا : ہر مد کی طرف سے ایک دن روزہ رکھے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ نمبر
680
) ، اگرچہ دو یا تین ماہ سے بھی روزے بڑھ جائیں، یہی امام شافعی کا قول ہے۔ یحیی بن عمر مالکی نے کہا : کہا جاتا ہے کہ جتنے افراد اس شکار سے سیر ہو سکتے تھے اس سے عدد معلوم ہوجائے گا، پھر کہا جاتا ہے کتنا کھانا اس تعداد کو سیر کرتا ؟ اگر وہ چاہے تو اس کھانے کو نکالے، اگر چاہے ان کی مدوں کی تعداد کے برابر روزے رکھے۔ یہ بہتر قول ہے اس میں احتیاط ہے، کیونکہ کبھی شکار کی قیمت کھانے سے کم ہوتی ہے اس نظر سے کھانا کھلانا زیادہ ہوگا اور اہل علم میں سے کچھ وہ ہیں جو جزا کے روزوں میں دو ماہ سے تجاوز نہیں کرتے وہ کہتے ہیں : کیونکہ دو ماہ بلند تریں کفارہ ہے۔ ابن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : ہر دو مدوں کے عوض ایک دن کا روزہ رکھے انہوں نے اذیت کے فدیہ کا اعتبار کیا ہے (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
681
) مسئلہ نمبر
29
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) لیذوق وبال امرہ، الذوق یہاں مستعار ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذق انک انت العزیز الکریم (الدخان) اور فرمایا : فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف (النحل :
112
) پس چکھایا انہیں اللہ تعالیٰ نے (یہ عذاب کہ پہنادیا انہیں) بھوک اور خوف کالباس۔ حقیقت میں ذوق زبان کے حاسہ میں ہے ان تمام آیات میں یہ استعارہ استعمال ہوا ہے اسی سے حدیث ہے (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان۔ جلد
1
۔ صفحہ نمبر
47
) ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا اس نے ایمان کا ذائقہ چکھا جو اللہ تعالیٰ کے رب تسلیم کرنے پر راضی ہوا۔ الوبال کا معنی ہے برا انجام مرعی وبیل وہ کھانا جس کو کھانے کے بعدتکلیف ہو اور طعام وبیل جب وہ کھانا بھاری ہو۔ اسی سے ہے عقیلۃ الشیخ کا لوبیل یلندد اس کے ساتھ اپنے تمام حالات کو تعبیر کیا۔ مسئلہ نمبر
30
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : عفا اللہ عما سلف یعنی جو تم نے زمانہ جاہلیت میں شکار کیا وہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا یہ عطابن ابی رباح اور ان کے ساتھ ایک جماعت کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے کفارہ کے نزول سے پہلے جو کچھ شکار کیا وہ معاف کردیا۔ (آیت) ومن عاد یعنی جس نے نہی کے بعد پھر ایسا کیا۔ (آیت) فینتقم اللہ منہ اللہ اس سے کفارہ کے ساتھ بدلہ لے گا۔ بعض نے فرمایا : اس کی معنی ہے آخرت میں اس کا انتقام لے گا اگر وہ اسے حلال سمجھتے ہوئے کرے گا اور ظاہر حکم میں وہ کفارہ دے گا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
240
) ۔ شریح اور سعید بن جبیر نے کہا : اس پر پہلی مرتبہ وہ حکم لگایا جائے گا جب وہ دوبارہ شکار کرے گا تو اس پر حکم نہیں لگایاجائے گا اسے کہا جائے گا : تم جائو اللہ تعالیٰ تجھ سے انتقام لے گا یعنی تیرا گناہ کفارہ دینے سے بڑا ہے جیسا کہ چھوٹی قسم کا اکثر علماء کے نزدیک کفارہ نہیں ہے، کیونکہ اس کا گناہ بہت بڑا ہے اور نیک لوگ کفارہ دینے کے ساتھ عذاب سے بچتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں حتی کہ وہ مر جائے۔ زید ابن ابی المعلی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے شکار کیا جب کہ وہ محرم تھا پس اس نے تجاوز کیا پھر اس نے شکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آگ نازل کی جس نے اس کو جلادیا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
241
) ، یہ امت کے لیے عبرت ہے اور حد سے بڑھنے والوں کو معصیت سے روکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ عزیز ذوانتقام عزیز یعنی اپنی ملک میں محفوظ ہے اسے اس کے ارادہ سے کوئی روکنے والا نہیں۔ ذوانتقام جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ اگر چاہے گا تو انتقام لے گا۔
Top