Tafseer-e-Saadi - Az-Zukhruf : 66
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر ناگہاں آموجود ہو اور ان کو خبر تک نہ ہو
آیت 66 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : یہ تکذیب کرنے والے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ؟ اور کیا وہ توقع رکھتے ہیں ” قیامت ان پر اچانک آموجود ہو اور ان کو خبر بھی نہ ہو ؟ “ یعنی جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو ان لوگوں کے احوال کے بارے میں مت پوچھو جنہوں نے قیامت کی تکذیب کی، اس کا اور اس کے بارے میں آگاہ کرنے والے کا مذاق اڑایا۔ (الاخل آپ یومئذ) یعنی کفر، تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ایک دوسرے کے ساتھ دوستی رکھنے والے قیامت کے دن (بعضھم لبعض عدو) ” ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ “ کیونکہ دنیا میں ان کی دوستی اور محبت غیر اللہ کی خاطر تھی تو قیامت کے دن یہ دوستی، دشمنی میں بدل جائے گی۔ (الا المتقین) سوائے ان لوگوں کی دوستی کے جو شرک اور معاصی سے بچتے رہے۔ پس ان کی محبت دائمی اور متصل ہوگی کیونکہ جس ہستی کی خاطر انہوں نے محبت کی اس کو دوام ہے جنت میں ان کا دوام اور خلو وجود جنت کی نعمتوں کے دوام، ان میں اضافے اور عدم انقطاع کو متضمن ہے۔ (وتلک الجنۃ) وہ جنت جو کامل ترین اوصاف سے موصوف ہے (آیت) ” جس کے تم مالک بنا دیئے گئے وہ تمہارے اعمال کا صلہ ہے۔ “ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہایر اعمال کے بدلے میں عطا کی ہے، اپنے فضل و کرم سے اس کو اعمال کی جزا قرار دیا اور اس نے اپنی رحمت سے اس میں ہر چیز عاط کردی۔ (لکم فیھا فاکھۃ کثیرۃ) ” وہاں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں۔ “ جیسا کہ ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا : (فیھما من کل فاکھۃ زوجن) (الرحمٰن :52/55) ” ان جنتوں میں تمام پھل دو دو اقسام کے ہوں گے۔ “ (منھا تاکلون) یعنی تم ان مزے دار میوؤں اور لذیذ پھلوں کو چن چن کر کھاؤ گے۔ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا۔
Top