Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 26
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا١ۚ لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِعْ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ١٘ وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا
قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا لَبِثُوْا : کتنی مدت وہ ٹھہرے لَهٗ : اسی کو غَيْبُ : غیب السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَبْصِرْ بِهٖ : کیا وہ دیکھتا ہے وَاَسْمِعْ : اور کیا وہ سنتا ہے مَا لَهُمْ : نہیں ہے ان کے لئے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّلِيٍّ : کوئی مددگار وَّلَا يُشْرِكُ : اور شریک نہیں کرتا فِيْ حُكْمِهٖٓ : اپنے حکم میں اَحَدًا : کسی کو
کہہ دو اللہ ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت وہ رہے۔ آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اسی کے علم میں ہے۔ کیا ہی خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا۔ اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور وہ اپنے اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا
قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب دلوایا گیا ہے کہ جس طرح اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق ان کے اندازے بالکل اٹکل پچو ہیں اسی طرح غار میں ان کی مدت قیام کے بارے میں بھی ان کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ ان کو بتا دو کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ لوگ کتنی مدت غار میں رہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، ان لوگوں کے خیال کی نفی کر رہا ہے جو ولبثوا فی کفہم ثلاث مائۃ سنین۔۔۔ الایۃ کو اس معنی میں لیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مدت قیام کی خبر ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے معاً بعد یہ کہنے کا کوئی مناسب محل نہیں تھا کہ اللہ ہی ان کی مدت قیام کا بہتر علم رکھنے والا ہے۔ یہاں زبان کا یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اگر یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر کے مفہوم میں ہوتی تو کلام کا آغاز حرف عطف سے نہ ہوتا بلکہ حرف عطف کے بغیر ہوتا۔ حرف عطف اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہ انہی بےسروپا باتوں کے تحت ہے جو ان لوگوں کی طرف سے اوپر نقل ہوئی ہیں۔ آسمانوں اور زمین کے تمام رازوں کا حقیقی علم اللہ ہی کے پاس ہے : لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ۔ یعنی آسمانوں اور زمین کے تمام رازوں کا حقیقی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ دوسروں کو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا اس نے بتایا ہے باقی سب رطب و یابس کا مجموع ہے۔ اس کی حیثیت یہ نہیں ہوسکتی کہ اس کی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے علم کا مذاق اڑائے آج انسان نے زمین تہوں کو الٹ پلٹ کر معلومات کا جو ذخیر جمع کیا ہے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ قرآن کے بیان کردہ حقئق کے مقابل میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کا محیط کل علم : أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ۔ یہ مبالغہ اور غایت درجہ تعریف کا اسلوب بیان ہے۔ یعنی کیا کہنے ہیں اس کے دیکھنے اور سننے کے ! وہ بہت ہی خوب دیکھنے اور سننے والا ہے ! آسمانوں اور زمین کی کوئی بات اور کوئی چیز بھی اس کے احاطہ سمع و بصر سے باہر نہیں ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب اس علیم وخبیر نے ایک سوال کا جواب دے دیا تو اب اس سے زیادہ جاننے والا کون ہے کہ اس سے رجوع کرنے کی ضرورت باقی رہے۔ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا۔ جب بات اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم تکپہنچ گئی تو یہیں سے اس کے تمام شرکاء و شفعاء کی نفی کے لیے راہ صاف ہوگئی کہ جو خود ہر بات سے سب سے زیادہ آگاہ ہے اس کے مقابل اگر لوگوں نے کچھ کارساز و مددگار سے اپنے لیے فرض کر رکھے ہیں تو وہ ذرہ بھی کام آنے والے نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں کامل اور سب سے مستغنی ہے۔ وہ اپنے اختیار میں کسی کو شریک نہیں بناتا۔
Top