Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 53
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّ١ؕ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا١ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی زور دار قسمیں لَئِنْ : البتہ اگر اَمَرْتَهُمْ : آپ حکم دیں انہں لَيَخْرُجُنَّ : تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے قُلْ : فرما دیں لَّا تُقْسِمُوْا : تم قسمیں نہ کھاؤ طَاعَةٌ : اطاعت مَّعْرُوْفَةٌ : پسندیدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خبر رکھتا ہے بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
ہ (منافق)اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ”آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نِکل کھڑے ہوں۔“ اِن سے کہو”قسمیں نہ کھاوٴ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے 81 ، تمہارے کرتُوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔“ 82
سورة النُّوْر 81 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہل ایمان سے جو اطاعت مطلوب ہے وہ معروف اور معلوم قسم کی اطاعت ہے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو، نہ کہ وہ اطاعت جس کا یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پڑے اور پھر بھی یقین نہ آسکے۔ جو لوگ حقیقت میں مطیع فرمان ہوتے ہیں ان کا رویہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ان کے طرز عمل کو دیکھ کر محسوس کرلیتا ہے کہ یہ اطاعت گزار لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ اسے رفع کرنے کے لیے قسمیں کھانے کی ضرورت پیش آئے۔ سورة النُّوْر 82 یعنی یہ فریب کاریاں مخلوق کے مقابلے میں تو شاید چل بھی جائیں مگر خدا کے مقابلے میں کیسے چل سکتی ہیں جو کھلے اور چھپے سب حالات، بلکہ دلوں کے مخفی ارادے اور خیالات تک سے واقف ہے۔
Top