Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ
: امید ہے آپ کا رب
اِنْ طَلَّقَكُنَّ
: اگر وہ طلاق دے تم کو
اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ
: کہ وہ بدل کردے اس کو
اَزْوَاجًا
: بیویاں
خَيْرًا مِّنْكُنَّ
: بہتر تم عورتوں سے
مُسْلِمٰتٍ
: جو مسلمان ہوں
مُّؤْمِنٰتٍ
: مومن ہوں
قٰنِتٰتٍ
: اطاعت گزار
تٰٓئِبٰتٍ
: توبہ گزار
عٰبِدٰتٍ
: عبادت گزار
سٰٓئِحٰتٍ
: روزہ دار
ثَيِّبٰتٍ
: شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں
وَّاَبْكَارًا
: اور کنواری ہوں
اگر (نبی ﷺ آپ کو طلاق دے دے تو عجب نہیں کہ اس کا رب اس کو تمہارے عوض اور بیویاں عطا فرمائے جو تم سے بہتر ہوں ، مسلمان ، ایمان والیاں ، فرمانبردار ، توبہ کرنے والیاں ، بیوہ اور کنواریاں
تمہارے مطالبات نہ مانتے ہوئے اگر رسول اللہ ﷺ نے تم کو طلاق دے دی تو تمہارا کیا بنے گا ؟ 5 ؎ ہاں ! تم ایک بار پھر غور سے سن لو کہ اگر ہمارے رسول ﷺ نے تمہارے مطالبات کے پیش نظر تم سب کی سب کو بھی طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں دے دے گا جو تم سے ہر حال میں بہتر ہوں گی ۔ وہ رسول کی فرمانبردار ہوں گی ۔ وہ سچے دل سے ایمان والیاں ہوں گی ۔ اطاعت شعار ہوں گی ۔ توبہ کرنے والیاں ہوں گی ۔ عبادت گزار ہوں گی ، روزہ رکھنے والیاں ہوں گی ، ان میں ثیبات بھی ہوں گی اور کنواریاں بھی ۔ حقیقت اس کی صرف اور صرف یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو سارے مہاجرین کی حالت جو تھی وہ سب کو معلوم ہے اور یہی حالت خود رسول اللہ ﷺ کی بھی تھی ۔ مدینہ آنے کے بعد بدر میں اور احد میں اگرچہ نقصان بھی ہوا لیکن ساتویں ہجری تک حالات کافی حد تک بدل گئے اور بحمد اللہ جہاد سے مال غنیمت وافر مقدار میں مل جانے کے باعث اور مہاجرین کی تجارت کے باعث مال تجارت سے بہت نفع اہل اسلام کو ہو اور ماشاء اللہ ہر گھر میں ریل پیل ہوگئی اور اس زمانہ تک نبی کریم ﷺ نے بعض حکمت کے تحت 8 ، 9 شادیاں کرلی تھیں ۔ ایک دوسرے کے دیکھا یدکھی جو صورت حال پیدا ہوتی ہے سب کو معلوم ہے۔ جب مال و دولت کی فروانی ہوئی اور عورتوں نے بھی اپنا بنائو سنگھار شروع کردیا اور اسلام نے بھی ایک حد تک عورتوں کے لیے رعایت رکھی تھی جو مسلمان مردوں کے لیے نہیں رکھی گئی تھی اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں بھی کچھ مطالبات شروع ہوگئے بلا شبہ ان کے کچھ وجوہ بھی تھے کہ بعض عورتیں جو رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آئی تھیں کافی مال اپنے ساتھ لائی تھیں اور ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے ما بعد آنے والی عورتوں کے ساتھ یہ سہولت نہیں تھی اس طرح پہلے آنے والیوں کو بعد میں آنے والیوں پر رشک بھی تھا کہ ہم حبالہ عقد میں آ کر اس حالت سے وقت گزار رہی ہیں اور بعد میں آنے والیاں اس طرح حالانکہ آپ کی طرف سے بعد میں آنے والیوں کے ساتھ کوئی خصوصی رعایت روا نہیں رکھی گئی تھی اس طرح سے بہت سے عوارضات اکٹھے ہوگئے اور آپ کی ازواج مطہرات نے آپ سے مطالبات شروع کردیئے ۔ اس جگہ ان ساری باتوں کی تفصیل کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہم نے سارے واقعات سورة الاحزاب کی آیات 28 تا 35 کی تفسیر میں جمع کردیئے ہیں اس لیے قارئین سے ہم عرض کریں گے کہ وہ عروۃ الوثقیٰ جلد ہفتم میں سورة الاحزاب کی آیات محولہ کی طرف رجوع کریں ان کی تفصیل اس جگہ مل جائے گی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو جواب ان کو دیا ہے اس کا تفصیلی ذکر بھی وہاں موجود ہے۔ زیر نظر سورت بھی تقریباً اس زمانہ کی ہے اس لیے اس میں اس طرح کے حالات بیان کیے گئے ہیں اور زیر نظر آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان عورتوں کو مخاطب کرلیا گیا ہے اور وہاں بھی بتایا گیا ہے اور یہاں بھی کہ بات کو شروع کرنے والی یا دو تھیں لیکن جب سب بیویاں رسول اللہ ﷺ ہی کی تھیں تو جو مطالبہ ایک نے پیش کیا تھا اور دوسری نے اس کی تصدیق کی تھی اور باقی بھی کوئی پیچھے نہیں تھی اس لیے کہ آخر وہ بھی عورتیں تھیں اور آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ میں نے جو سلوک ایک سے کرنا ہے وہی سب کے ساتھ کرنا ہے کیونکہ کسی بی بی کے پاس کتنا ہی مال کیوں نہ ہو نان و نفقہ کی ذمہ داری تو بہر حال مرد پر ہوتی ہے اور اسلام کی یہی تعلیم ہے اس لیے جو لباس ایک کو ملے گا وہ سب کو ملے گا ، جو سلوک ایک سے ہوگا وہ سب سے ہوگا اور سب کا مطالبہ ایک ہی جیسا ہوگا ۔ ان حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے مطالبات اسی طرح جاری رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو طلاق دے دیں گے تو ہم تم سے ہر حال میں ان کو اچھی عورتیں مہیا کردیں گے جو اس طرح کے مطالبات نہیں کریں گی ۔ رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں اگر وہی کچھ زیب وزینت شروع ہوجائے جو عام گھروں میں ہے تو طالب اور مطلوب میں فرق کیا رہ گیا ۔ اور ان عورتوں کے جو اوصاف زیر نظر آیت میں گنوائے گئے یہ اوصاف اگرچہ آنے والی عورتوں کے بتائے گئے ہیں اور دراصل یہ مطالبہ ہے ان بیبیوں سے کہ تم کو ان اوصاف کا مظاہرہ کرنا چاہئے اگر تم کو ان حجروں ہی میں وقت گزارنا ہے تو ضروری ہے کہ جاہلیت کی سی زیب وزینت کی بجائے درس و تدریس کا عمل جاری ہو اور مسلمان عورتوں کی ترتیب کے یہ گھر درسگاہ بنیں اور یہاں سے سادگی کی تعلیم ان کو دی جائے اور خصوصاً خاوندوں کے ساتھ نہایت حسن و سلوک سے رہنا ان کو سکھایا جائے اس لیے کہ ہر جاندار کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اس دھرتی میں جہاں مالداروں کو رہنا ہے وہاں غریبوں کو بھی وقت گزارنا ہے اگر غریب بھی وہی کچھ کھائیں اور اس طرح رہیں جس طرح امراء کھاتے پیتے اور رہتے ہیں تو غریب کو آخر غیب کیسے کہا جائے گا ۔ اسلام کا فلسفہ حیات تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھانے کے لیے روٹی ، پہننے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے مکان مل جائے لیکن یہ بات تو کبھی بھی نہیں ہو سکتی کہ سب کے پاس ایک ہی جیسے گھر ہوں اور ایک ہی جیسا کھانا کھائیں اور ایک ہی طرح کا لباس پہنیں۔ ہاں ! اس سلسلہ میں دنیا میں رہ کر جب عمل ایک جیسا نہیں ہو سکتا تو برابری کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ سب کا کھانا پینا ، رہنا سہنا ایک ہی طرح کا ہو ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ اس بات کی متقاضی نہیں ہیں کہ ان کے گھروں کی زندگی میں اس طرح کی فراوانی آئے کہ غریبوں کو دیکھ کر دکھ ہونے لگے اور وہ اپنی غربت پر کڑھنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوب تلقین کی گئی اور بحمد اللہ کسی ایک عورت نے بھی خواہ وہ کنواری آئی تھی یا ثیب اور خواہ وہ مال دار آئی یا نادار ، وہ کسی غریب خاندان کی تھی یا شاہی خاندان سے اس کا تعلق تھا اس آیت کے آنے کے بعد کسی نے کوئی مطالبہ نہیں کیا وہ بحمد اللہ پہلے بھی مسلمات و مومنات تھیں اور اب ان ہدایات کے آنے کے بعد ان پر مزید بہت گہرا اثر ہوا اور پھر کسی نے کسی طرح کا کوئی مطالبہ آپ ﷺ سے نہیں کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ باوجود اس کے کہ اس وقت کے مدینہ کے بادشاہ تھے اور یہ بھی کہ بحمد اللہ خزانے میں یعنی بیت المال میں مال کی فروانی تھی اور آپ ﷺ ہر طرف لوگوں کو مال تقسیم کرنے میں لگے رہتے تھے چونکہ آرڈر (Order) آپ ﷺ ہی کی طرف سے ہوتا تھا لہٰذا عورتوں کو یہ خیال ہو چلا تھا کہ ہم جب لوگوں کو اس قدر لٹا رہے ہیں تو ہمارا اپنا بھی اس میں بہر حال حق ہے لیکن ان کی یہ تفہیم ہونا باقی تھی کہ یہ قوم کا مال ہے۔ بیت المال میں جمع ہونے والے مال سے آپ ﷺ کی ذات کا کیا تعلق ہے۔ لیکن یہ بات بھی تو آخر آپ ﷺ ہی جانتے تھے ابھی دوسروں کے علم میں یہ بات نہ آئی تھی کہ اس میں آپ ﷺ نے اپنا حق محض قوت لا یموت ٹھہرا دیا ہے۔ اگر وہ بات ہوتی جو دوسرے بادشاہوں کے ہاں ہوتی تو آپ ﷺ میں اور ان میں فرق کیا رہتا ؟ آپ ﷺ اللہ کے رسول تھے اور آپ ﷺ اس وقت کے لوگوں کے لیے اور رہتی دنیا تک کے آنے والوں کے لیے روشنی کا مینار تھے۔ سب نے آپ ﷺ ہی سے روشنی حاصل کرنا تھی اور آپ ﷺ اس دنیا سے فقیر ہو کر جانا چاہتے تھے نہ شہنشاہ ہو کر ۔ آپ ﷺ نے دنیا والوں کو یہ درس دیا تھا کہ جس ملک کے خزانہ میں مال و دولت ہو اس ملک کے بادشاہ کے پاس خواہ چند کوڑیاں بھی نہ ہوں اس ملک کا سکہ دنیا مانتی ہے لیکن جس ملک کے اندر اربوں پتی لوگ ہوں اور سارے کے سارے ہی شہنشاہ بنے بےٹھٓ ہوں ، جن کے ذاتی مالوں سے دنیا کے بینک بھرے پڑے ہوں لیکن اس ملک کے خزانہ میں ایک کوڑی بھی نہ ہو اس ملک کے رہنے والوں کو کوئی بھی گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس کی طاقت کو کوئی بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس ملک کو طاقتور ملک کہا جاسکتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں آپ اس وقت اپنے ملک عزیز کی حالت پر غور کرلیں کہ اس ملک کے اندر رہنے والے لوگ ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ اس ملک کے سارے محکمے فروخت کردیئے جائیں تو وہ اس ملک کے سارے محکمے بیک وقت خریدنے کے لیے تیار ہیں لنک ملک کے خزانے کی یہ حالت ہے کہ وہاں ملازموں کو دینے کے لیے تنخواہ تک موجود نہیں ہے اور سارا گزرارہ اور ملک کا سارا نظام کا سہ گدائی پر چل رہا ہے اور پھر تعجب ہے کہ گدا گر کون ہیں ۔ وہی کھربوں پتی اور وہ جب کشکول ہاتھ میں پکڑ کر غیروں کے دروازے پر جاتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتے ہیں اور ہنس کر رہ جاتے ہیں کہ ان لوگوں کی مکاریوں اور عیاریوں کا کیا حال ہے لیکن پھر ان کو بھی خیال آتا ہے کہ اگر ان کا سارا روپیہ ، ان کی ساری دولت حکومت کے خزانہ میں چلی گئی تو آخر اتنے بڑے بڑے لوگ ہم کو سلام کرنے کیسے آئیں گے اس لیے وہ سمجھ کر چلو کہیں یہ لوگ من حیث القوم اٹھ کھڑے ہی نہ ہوجائیں اس لیے وہ ان کے کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں لیکن جب وہ اپنے ملک واپس آتے ہیں تو کبھی ان کے دورے کے اخر اجات اور ان کا مانگا ہوا مال برابر برابر نکل آتے ہیں اور کبھی چند ٹکے پڑھ جاتے ہیں تو وہ ملک کے لوگوں میں پھولے نہیں سماتے کہ دیکھو ہم نے کیسا جادو کا کھیل کھیلا ہے کہ تمہاری دال روٹی کا انتظام کچھ تو کر لائے ہیں ۔ ہم سے پہلوں نے اتنا بھی نہیں لیا تھا۔ ہم بات کرتے کرتے ذرا دور نکل گئے ہیں لیکن ہیں تو اپنے ملک کے اندر ہی جہاں سے واپس آنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ زیر نظر آیت کے تحت ہمارے مفسرین نے رسول اللہ ﷺ کے ایلاء کرنے کی روایات درج کی ہیں اور ایک مہینہ کی قسم کھا کر ایک حجرہ میں بند ہو کر رہ جانے کی باتیں بنائی ہیں اور ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ حجرہ کن بی بی کا مانا گیا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے ایلاء کرنے الے واقعات کو مدینہ میں کس طرح بیان کیا گیا اور پھر کون کون آپ ﷺ کی خبر گیری کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے جاتے ہی آپ ﷺ سے کیا سوال کیا اور آپ ﷺ نے کیا جواب دیا اور پھر کس طرح 29 دن پورے کرنے کے بعد حجرے سے باہر تشریف لے آئے اور باہر آنے کے بعد کس زو وجہ محترمہ نے کیا کیا اور جبریل (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کی کس طرح رہنمائی فرمائی ۔ امام بخاری (رح) نے کیا کیا روایات کس کس مقام پر اور کس کس صحابی کی زبان سے کن کن ابواب میں بیان کیں اور دوسرے صحاح میں کیا کچھ بیان ہوا ، ہمارے مفسرین نے ان پر کس طرح جرح کی اور پھر کس کس کو پسند اور ناپسند کیا لیکن ہم ان سب کو اس جگہ جگہ دینے سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ قرآن کریم نے اس جگہ کسی ایسی بات کا اشارہ تک نہیں دیا ۔ علاوہ اس کے اس جگہ آیت زیر نظر میں (ان طلقکن) کے الفاظ آئے ہیں اور یہ الفاظ کسی طرح بھی ایلاء کے متحمل نہیں ہیں اور نہ ہی ( ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن) کے الفاظ ایلاء کے متحمل ہیں ۔ ہم روایات احادیث کے متعلق غلط ہونے کا الزام نہیں دے رہے وہ اپنی جگہ صحیح ہوں گی ، ایسے حالات و واقعات ہوئے ہوں گے ، آپ ﷺ نے اسی طرح کی تادیبی کارروائی کی ہوگی وہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست لیکن بحث تو اس جگہ فقط یہ ہے کہ کیا قرآن کریم کی زیر نظر آیت یا اس سے پہلے کی آیت یا ان پانچ آیتوں میں سے کسی ایک آیت میں اس طرح کا کوئی اشارہ پایا جاتا ہے جس کی تفسیر میں ان روایات و احادیث کو اس کی تشریح میں اس جگہ درج کیا جائے۔ ہم کو کوئی اشارہ اس جگہ ایسا معلوم نہیں ہوا۔ اس لیے ان روایات و احادیث کو اس جگہ درج نہیں کر رہے ہیں اور زیر نظر آیت میں جو حکم آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ کو سنایا جا رہا ہے اور جو صفات ان کی گنوائی جا رہی ہیں ان میں سے ایک ایک آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ میں بدرجہ اتم موجود تھیں اور تمام کی تمام امہات المومنین ؓ ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلمت مومنات قنتت تائبات عابدات اور سائحات تھیں اور ان کی ان تمام صفات کا ذکر عروۃ الوثقیٰ جلد ہفتم سورة الاحزاب کی آیت 35 میں گزر چکا ہے اگرچہ وہاں ان صفات کے حامل مردوں کا بھی ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔ ہاں ! اتنی بات ہم مزید کہیں گے کہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب احادیث میں جب سیدنا عمر ؓ کا ذکر آیا ہے کہ آپ کو ایک انصاری بھائی نے اطلاع دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں کو طلاق دی ہے تو جلدی میں اپنی بیٹی کے پاس پہنچے اور پھر رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی ۔ آپ ﷺ ایک بالا خانہ میں تشریف فرما تھے۔ عمر ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فی البدیہ ارشاد فرمایا کہ نہیں ۔ اسوقت آپ ﷺ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا اور کسی ایک جگہ بھی اس طرح کا ارشاد نہیں ملتا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ میں نے طلاق تو نہیں دی البتہ ایلاء کیا ہے۔ ہرگز ہرگز اس طرح کی کوئی بات کسی حدیث میں اشارتا ً بھی بیان نہیں کی گئی ۔ ایلاء کیا ہے ؟ ( یولون ( جمع مذکر غائب مضارع سے ایلاء مصدر ہے بروزن افعال ۔ عورت کے پاس نہ جانے کی قسم کو کہتے ہیں یعنی جب کوئی مرد اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے تو اس کو ایسی قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو زیادہ سے زیادہ چار ماہ اس کا انتظار کیا جائے گا پھر اس سے طلاق کا مطالبہ کیا جائے گا کہ یا وہ قسم کا کفارہ ادا کرے یا بیوی کو طلاق دے۔ اس کی تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد اول اور سورة البقرہ کی آیت 326 میں گزر چکی ہے اور قسم کے کفارہ کا ذکر سورة المائدہ کی آیت 89 میں ہے اور سورة المائدہ عروۃ الوثقیٰ کی تیسری جلد میں ملے گی ۔
Top