Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 9
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَاهِدِ الْكُفَّارَ : جہاد کیجئے کافروں سے وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقوں سے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ : اور سختی کیجئے ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم ہے وَبِئْسَ : اور بدترین الْمَصِيْرُ : ٹھکانہ ہے
اے نبی کریم ﷺ کافروں اور منافقوں سے جہاد باللسان کیجئے اور ان پر سختی بھی کیجئے (اگر باز نہ آئیں تو) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیسا برا ٹھکانہ ہے
اے پیغمبر اسلام ﷺ ! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھو اور ان پر سختی کرو 9 ؎” اے نبی کریم ﷺ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے “ جہاد کی مکمل وضاحت ہم عروۃ الوثقیٰ جلد ششم سورة الحج کی آیت 87 میں بیان کرچکے ہیں اور اس کی مکمل وضاحت کردی گئی ہے اور جہاد کی ساری صورتیں بھی وہاں بیان کردی گئی ہیں اس جگہ اتنا بیان کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری ہاں جہاد بالسیف ہی کو جہاد سمجھا جاتا ہے پھر اس کا جو طریقہ اس وقت رائج ہے اس پر جہاد کا لفظ نہیں بلکہ تخریب کاری زیادہ موزوں نظر آتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس کو محض اپنے پیٹ کی خاطر روا سمجھتی ہیں اور حکومت پاکستان یہ سمجھتی ہے کہ باہر کے تخریب کاروں کا جواب ہم مفت میں دے رے ہیں اور اس طرح سے جو کچھ ہمارا حصہ بنتا ہے وہ ہم کو بھی مل رہا ہے اس لیے یہ دہرا فائدہ اور پھر مفت کا فائدہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر مذہبی رہنما مال کھا رہے ہیں تو کیا ہے ہم بھی تو بہت کچھ کھا رہے ہیں جس پر انہوں نے محض اس لیے پردہ ڈال رکھا ہے کہ وہ بھی جہاں تک اس حلال و طیب مال میں شریک ہو سکتے ہیں ہو رہے ہیں اور اس کا کیا جاتا ہے کہ من ترا حاجی بکو یم تو مرا حاجی بکو ۔ نتیجہ اس کا سب کے سامنے ہے اور امریکہ کو جو افغانستان کی جنگ نے پہنچایا ہے اور اس کے بعد یا اس کے ساتھ ساتھ جنگ عراق نے وہ اس کو کبھی نہیں بھول سکتا اور نہ ہی وہ کبھی بھولے گا ۔ وہ اسی طرح کا جہاد ایک بار پھر چاہتا ہے کہ یا تو پاکستان اور ہندوستان میں ہوجائے یا کسی دوسرے دو مسلمان ملکوں میں ۔ نشانہ اس کا کون بنتا ہے ؟ پاکستان اور ہندوستان یا کوئی دوسرا مسلمان ملک اور اس سے جو وہ فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس طرح کے فوائد سوچ رہا ہے جس طرح کے پہلے اس نے حاصل کیے ہیں لیکن یہ سنت اللہ کے بالکل خلاف ہے کہ اتنی مدت تک ایک ہی طاقت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا رہے اور اس طرح کی وہ تخریب کاریاں کرنے کے باوجود دوسروں کو تخریب کار سمجھتی اور کہتی رہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ اس نے جو خفت ویت نام میں اٹھائی تھی وہ اس کا بدلہ دوبارہ حاصل کرچکا ہے اور اب تیسری بار اس کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ وہ سراسر نقصان میں رہے گا بلکہ اپنے پہلے اٹھائے ہوئے فائدوں پر بھی وہ خود لکیر پھیر دے گا اور دنیا دیکھے گی کہ اس کا نشہ کس طرح ہرن ہر تا ہے۔ بلا شبہ اس کی چالیس بہت گہری ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ اس وقت وہ جنگ صرف دو ملکوں کی جنگ رکھنے میں کامیاب نہ ہو بلکہ جنگ ساری دنیا میں دما دم مست قلندر کرا دے بادل بن رہے ہیں اور مشرق وسطی کے ممالک اس کی زد میں آئیں یا ہندوستان اور پاکستان کو وہ اندھا بنا دے۔ ویسے بھی بیسویں صدی ختم ہونے میں صرف 2 سال کا عرصہ با قی رہ گیا ہے اور کوئی قوم مسلسل سو سال سے اس طرح کی چالیں چلتی رہے اور پھر بیل اس کو اس طرح کی چالوں کے لیے چھوڑ دیا جائے عقل اس کی تسلیم نہیں کرتی ۔ ہاں ! اگر امریکہ نے کچھ مزید وقت نکالنا ہے تو اس کو اپنا یہ نظریہ بدلنا ہوگا اگر اس نے نظریہ نہ بدلا تو یقینا اس کی حالت بدل کر رہ جائے گی ۔ ہم کو معلوم ہے کہ وہ اس میں جلدی کیوں کر رہا ہے اور اتنی جلدی وہ ایک تیسرا کھیل کیوں کھیلنا چاہتا ہے اس کے زعم میں ہے کہ ہم نے روسیوں کو میدان سے بھگا دیا ہے اور وہ اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر ہماری باری ہوگی اس لیے رگڑنے پر رگڑا دھر رگڑا ہی اس کے لیے مفید ہوگا ۔ لیکن یہ بات آپ کو معلوم ہوگی کہ جیتے ہوئے کو جب ہارنا ہوتا ہے تو اس کے ذہن کی سوچ یہی ہوتی ہے جو امریکہ کا ذہن اس وقت سوچ رہا ہے۔ بہر حال یہ باتیں ضمناً اس میں آگئی ہیں کہ جب اس طرح کی بات ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم بات کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ سنت اللہ میں جو ہوتا آیا ہے اس کی روشنی میں بات کو چھپا دینا ہمارے بس میں نہیں رہتا ۔ زیر نظر آیت میں جو حکم دیا جا رہا ہے وہ براہ راست نبی کریم ﷺ کو بھی دیا جا رہا ہے اور آپ کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی کہ کافروں اور منافقوں کے ساتھ جنگ کرو اور ان پر سختی بھی کرو کیونکہ یہ جنگ نیزہ کی نوک کی بجائے قلم اور قوت بیان سے جنگ کرنے کا وقت ہے کہ جہاد بالسیف سے جو طاقتیں اور قوتیں دب جاتی ہیں ان کو مزید دبان کے لیے جہادبالسیف سے زیادہ جہاد بالقلم ہی کام کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم جہاد بالسیف سے انکار کر رہے ہیں ۔ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قوتیں جو جہاد بالسیف سے مرعوب ہوجاتی ہیں ان کے ساتھ جب جہاد بالقلم جاری نہ کیا جائے اور ان کے سامنے حق اور ناحق کا فرق واضح کر کے نہ رکھ دیا جائے تو ان کے سامنے آنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اس کی انتظار میں زیادہ سے زیادہ دو ایک نسل تک ہوتی ہے اور اگر اس کے بعد جہاد بالقلم جاری کردیا جائے تو جہاد بالسیف کئی صدیوں تک مؤخر کیا جاسکتا ہے اور یہ بات عین حکمت الٰہی کے مطابق ہے اور اگر ہر قوم جہاد بالسیف کی طاقت کو کھو نہ بیٹھے تو اس کے اندر کی موت مزید چڑھا جاتی ہے ورنہ کسی دوسری قوم کو موقع دے دیا جاتا ہے۔ زیر نظر آیت میں منافقوں کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور یہ بات ہم پوچھتے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم کو بتایا جائے کہ کونسی جنگ منافقوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑی گئی ہے ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ کو کنگھال جایئے احادیث کا گہرا مطالعہ کر دیکھئے اور قرآن کریم میں جتنے واقعات آئے ہیں ایک ایک پر نظر ڈال لیجئے آپ کو منافقوں کے ساتھ جہاد بالسیف کی ایک مثال بھی میسر نہیں آئے گی خصوصاً جب قرآن کریم کے تخاطب انداز کو آپ پیش نظر رکھیں گے تو بات مزید واضح ہوجائے گی کیونکہ اس خطاب کے مخاطب خود نبی کریم ﷺ ہیں اور آپ ﷺ کی موجودگی میں بلا ریب منافقین بھی موجود تھے اگرچہ وہ کتنے ہی کم تھے اور پھر ان کی کمی کے پیش نظر جنگ تو مزید لڑنا آسان تھا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کی مثال میسر نہیں آئے گی کہ آپ ﷺ نے منافقین مکہ کے خلاف کبھی تلوار اٹھائی ہو اور یہ بات پہلے ہی واضح ہے کہ منافق تو پہلے تلوار کبھی اٹھانے کی ہمت ہی نہیں رکھتا اگر وہ ایسا کرسکتا تو وہ آخر منافق ہی کیوں ہوتا وہ کافر ہی کیوں نہ ہوتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نہایت نازک ترین حالات میں بھی منافقوں پر تلوار نہیں اٹھائی تھی جب کہ ان کی ریشہ دوانیوں سے عالم اسلام میں پریشانیاں لا حق ہوجاتی تھیں ۔ لاریب اس سے منافقوں کا احتساب ہی مراد ہو سکتا ہے اور احتساب اور جہاد بالسیف میں جو فرق ہوتا ہے اس سے تو بچہ بچہ آگاہ ہے بلکہ بعض اوقات کسی ایک منافق کی گردن مارنے کی آپ سے اجازت طلب کی گئی تو بھی آپ نے اجازت نہیں دی حالانکہ اس طرح اجازت کافروں کے مارنے کی آپ نے ایک سے زیادہ بار دی ہے مثال کے طور پر کعب بن اشرف کا قتل ، ابی ابن خلف کا قتل ، سلام بن ابی الحقیق کا قتل ، محمد بن مسلمہ کا قتل ، ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں کا قتل وغیرہ وغیرہ اور ہارون کا دوزخ رسید ہوجانا اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ منافق ہوں یا کافر وہ طبعی موت مریں یا مارے جائیں ہر حال میں دوزخ کا ایندھن تو ان کا بنناہی ہے بلکہ دوزخ کا ایندھن بننے میں کافر سے بہت نیچے درجے میں ان منافقوں کو چلایا جانے والا ہے اس سے آخر کس کو انکار ہے۔ گزشتہ آیات میں دو جماعتوں کا برابر برابر ذکر چلتا آ رہا ہے کبھی ایمان والوں کو مخاطب کر کے بات کی جاتی ہے اور کبھی کافروں کو اور اللہ تعالیٰ چونکہ دونوں ہی کا رب ہے اس لیے اس نے ایمان لانے والوں کو بھی واضح کردیا ہے کہ صرف زبانی دعویٰ ایمان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ عمل صالح نہ لگایا جائے اور کافروں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ کفر سے باز آ جائو اگر تم باز نہ آئے تو تم سے جو پہلے کافر گزرے ہیں ان کی تاریخ سے آگاہ رہنا کہ انجام کیا ہوتا ہے اس لیے کہ جو انجام ان کا ہوا وہی تمہارا بھی ہوگا اور ایک آدھی بار اس سورت میں کافروں اور مسلمانوں دونوں کی تفہیم کے لیے مثال پیش کی جا رہی ہے اور اسی مضمون پر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔
Top