Ahkam-ul-Quran - An-Nahl : 71
وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ١ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ١ؕ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ فَضَّلَ : فضیلت دی بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض فِي : میں الرِّزْقِ : رزق فَمَا : پس نہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فُضِّلُوْا : فضیلت دئیے گئے بِرَآدِّيْ : لوٹا دینے والے رِزْقِهِمْ : اپنا رزق عَلٰي : پر۔ کو مَا مَلَكَتْ : جو مالک ہوئے اَيْمَانُهُمْ : ان کے ہاتھ فَهُمْ : پس وہ فِيْهِ : اس میں سَوَآءٌ : برابر اَفَبِنِعْمَةِ : پس۔ کیا۔ نعمت سے اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے ہیں
اور خدا نے رزق (ودولت) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ وہ اپنا رزق اپنے مملوکوں کو تو دے ڈالنے والے ہی نہیں کہ (سب) اس میں برابر ہوجائیں۔ تو کیا یہ لوگ نعمت الہٰی کے منکر ہیں ؟
آقا اور اموال غلام کے بارے میں قول باری ہے (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما کانکت ایمانھم۔ اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔ پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں) حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ لوگ اپنے غلاموں کو اپنے اموال میں شریک نہیں کرتے تاکہ دونوں ان اموال میں برابر کے حصہ دار بن جائیں، اپنی ذات کے لئے تو وہ لوگ یہ بات پسند نہیں کرتے لیکن وہ لوگ میرے بندوں کو میری حکومت اور میرے ملک میں میرا شریک ٹھہراتے ہیں، ایک قول کے مطابق آقا اور غلام سب کے سب اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ میں نے ان سب کو رزق دیا ہے نیز یہ کہ کسی آقا کے لئے اپنے غلام کو رزق دینا ممکن ہی نہیں ہے مگر صرف اس بنا پر کہ میں نے اسے رزق عطا کیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت آقا اور غلام کے درمیان ملکیت کے لحاظ سے مساوات کے انتفاء پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں دو وجوہ سے یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اول تو یہ کہ اگر غلام کے لئے اس چیز کی ملکیت جائز ہوتی جسے اس کا آقا اس کی ملکیت میں دے دیتا تو اس صورت میں آقا کے لئے اپنا مال اس کی ملکیت میں دے دینا جائز ہوتا اور اس طرح غلام اس مال کا مالک بن کر آقا کے ساتھ برابر کا حصہ دار بن جاتا۔ اس صورت میں غلاموں کی ملکیت آقا کی ملکیت کی طرح ہوجاتی بلکہ یہ بات جائز ہوتی کہ ملکیت کے لحاظ سے غلام اپنے آقا سے افضل ہوتا اور اس کی ملکیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا۔ اس بیان میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی خواہ آقا کوئی چیز اس کی ملکیت میں کیوں نہ دے۔ اس لئے کہ آیت ان دونوں کے درمیان ملکیت میں مساوات کی نفی کی مقتضیٰ ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے آقا اور غلام کی اس صورت حال کو مشرکین کی بت پرستی کے لئے بطور مثال بیان فرمایا اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ بت کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے کہ مثال میں غلام اور آزاد کے درمیان شراکت کی نفی کردی گئی ہے جس طرح اللہ اور بتوں کے درمیان اس چیز کی نفی کردی گئی ہے۔
Top