Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 23
وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ١ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ١ؕ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ فَضَّلَ : فضیلت دی بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض فِي : میں الرِّزْقِ : رزق فَمَا : پس نہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فُضِّلُوْا : فضیلت دئیے گئے بِرَآدِّيْ : لوٹا دینے والے رِزْقِهِمْ : اپنا رزق عَلٰي : پر۔ کو مَا مَلَكَتْ : جو مالک ہوئے اَيْمَانُهُمْ : ان کے ہاتھ فَهُمْ : پس وہ فِيْهِ : اس میں سَوَآءٌ : برابر اَفَبِنِعْمَةِ : پس۔ کیا۔ نعمت سے اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے ہیں
اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بہ اعتبار روزی کے برتری دی ہے پھر ایسا نہیں ہوتا کہ جس کسی کو زیادہ روزی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے زیردستوں کو لوٹا دے حالانکہ سب اس میں برابر کے حقدار ہیں پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں سے صریح منکر ہو رہے ہیں ؟
اللہ نے تمہارے بعض کو بعض پر مالی فضیلت دی ہے جو تمہاری آزمائش ہے : 81۔ زیر نظر آیت اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتی ہے دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کی کوششیں کی گئیں ہیں کہ بعض کو بعض پر جو مالی فضیلت دی گئی ہے اس کا کوئی حل تلاش کیا جائے کہ یہ فضیلت باقی نہ رہے جن لوگوں نے اس معاملہ میں جتنے بڑے دعوے کئے وہ اتنے ہی برے طریقے سے ناکام ونامراد ہوئے غیروں نے تو جو کچھ کیا سو کیا لیکن خود مسلمانوں نے اس سلسلہ میں بہت بڑی ٹھوکریں کھائیں اور اب تک کھا رہے ہیں ۔ کاش کہ قرآن کریم کی اس آیت اور اس مفہوم کی دوسری آیات جن میں کمانے اور خرچ کرنے کے طریقے سکھائے گئے تھے ان سے کما حقہ فائدہ اٹھایا گیا ہوتا ؟ نزول قرآن کے وقت جو طریقہ اختیار کیا گیا اس کو وسعت دی جاتی تو بہت حد تک مسئلہ سلجھ سکتا تھا لیکن اس کی طرف بہت کم دھیان دیا گیا ، ہم تفصیل میں گئے بغیر مختصر عرض کریں گے کیونکہ تفصیلات اس کی اتنی بڑی اور لمبی ہیں کہ ان کو اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان تفصیلات کا یہ مقام متحمل ہے ۔ دنیا میں انسانی معیشت کا کارخانہ اس طرح چل رہا ہے کہ ہر طرح کے فوائد ووسائل کے حصول کا دروازہ ہر انسان اور ہر گروہ پر کھول دیا گیا ہے مگر کوئی چیز کسی کو خود نہیں مل جاتی ۔ اس کو ملتی ہے جو اس کے لئے جدوجہد کرے اور وہ تمام طریقے کام میں لائے جو حصول مقصد کے لئے ضروری ہیں اور یہ فطری بات ہے کیونکہ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہین اس لئے ہر انسان کو اس کے عمل ہی کے موافق ملنا چاہئے لہذا اگر اعتدال کے ساتھ یہ نظام چلتا رہے تو یہی اصل اور حقیقی نظام ہوگا ۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر انسان کی ذہنی وجسمانی استعداد یکساں نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو سکتی ہے اور چونکہ یہ حالت یکساں نہیں ہوتی اس لئے وسائل معیشت کے حصول کے اعتبار سے بھی سب کی حالت یکساں نہیں ہوئی ، کسی نے وسائل معیشت پر زیادہ قابو پالیا کسی نے کم ۔ کسی کو کمانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوئے کسی کو بہت تھوڑے ، پہلے جسمانی قوت و طاقت میں مقابلہ ہوا اور طاقتور نے کمزور کو مغلوب کرلیا پھر ذہن وجسم کا مقابلہ ہوا اور ذہنی قوت نے جسمانی قوت کو مقہور کرلیا ۔ زیر نظر آیت ان آیتوں میں سے ہے جن سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن کریم کی تعلیم کا رخ کس طرف ہے ؟ چناچہ یہ آیت ہم کو بتاتی ہے کہ قرآن کریم اس صورت حال سے تو تعرض نہیں کرتا کہ معیشت کے اعتبار سے تمام انسانوں کی حالت یکساں نہیں کسی کے پاس زیادہ سامان معیشت ہے کسی کے پاس کم لیکن وہ یہ صورت حال برداشت نہیں کرتا کہ حصول رزق کے اعتبار سے لوگوں کی حالت یکساں نہ ہو کسی کو ملے کسی کو نہ ملے ، وہ کہتا ہے کہ ہر انسان جو دنیا میں پیدا ہوا دنیا کے سامان ورزق سے حصہ پانے کا یکساں طور پر حق دار ہے اور کسی فرد اور گروہ کو یہ حق نہیں کہ اس سے اس کو محروم کر دے خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور ‘ تندرست ہو یا بیمار ‘ قابل ہو یا ناقابل ‘ دولت مندوں کے گھر پیدا ہو یا فقیروں کے لیکن اگر انسان ہے تو ماں کے پیٹ سے وہ یہ حق لے کر آیا ہے کہ زندہ رہے اور زندگی کا سروسامان پائے ۔ ہاں ! اب غور طلب بات یہ ہے کہ ہر فرد زندگی کا سروسامان کیونکر پاسکتا ہے ؟ جو کمزور ہے یا جو ایسے حالات میں پڑگیا ہے کہ کمانے کا موقعہ نہیں پاتا جو معذور اور لاچار ہوگیا ہے وہ سروسامان معیشت کہاں سے پائے گا ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ اس طرح جن لوگوں کو کمائی کا زیادہ موقع ملا ہے ان کے ذمے خرچ کرنے کا فرض بھی زیادہ عائد ہوگیا ہے وہ اپنی کمائی کا ایک خاص حصہ کمزوروں کو لوٹا دیں ہاں ! ” لوٹا دیں “ کیونکہ فی الحقیقت کمائی کی یہ زیادہ مقدار ان افراد کے لئے تھی جو کمزوری کی وجہ سے حاصل نہ کرسکے چونکہ وہ اب طاقتور افراد کے پاس چلی گئی ہے اس لئے چاہئے کہ وہ حق داروں کی طرف لوٹا دی جائے یعنی جو ان کا حق ہے وہ ان کو مال جائے اور اسلامی حکومت اس کی مجاز ہے کہ وہ اس حق کو واپس دلوائے ، وہ کہتا ہے یہ بات کہ تمہیں سامان معیشت کے زیادہ کمانے کا موقع مل گیا تمہیں اس بات کا حق دار نہیں بنا دیتی کہ اپنی ساری کمائی صرف اپنی انفرادی زندگی ہی کے لئے روک لو کیونکہ دنیا کے وسائل زندگی کسی خاص انسان کی حقیقی ملکیت نہیں ہو سکتے یہاں جو کچھ ہے تمام نوع کے لئے ہے پس اگر ایک فرد نے زیادہ کما لیا ہے تو کما سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ساری کمائی اس کی ہوگئی جو کچھ اس نے کمایا ہے دراصل نوع انسانی کی ایک امانت ہے جو اس کے قبضہ میں آگئی ہے وہ اس پر قابض رہ سکتا ہے لیکن وہ اس کو صرف اپنے ہی لئے خاص نہیں کرسکتا اس کا فرض ہے کہ خود بھی کھائے اور کمزوروں کو بھی کھلائے جو حصول معیشت سے محروم رہ گئے ہیں ۔ قرآن کریم کی اس تعلیم کی تہ میں یہ اصل کام کر رہی ہے کہ وہ نوع انسانی کے مختلف افراد اور جماعتوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ اور منقطع تسلیم نہیں کرتا بلکہ سب کو ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد قرار دیتا ہے ایسے افراد جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے شریک حال ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے ہیں جیسے مختلف اعضاء کے مجموعہ کا نام انسان ہے بالکل اسی طرح مختلف افراد کے مل جانے کا نام معاشرہ ہے ، بلاشبہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق جدوجہد معیشت میں لگا ہوا ہے اور کوئی زیادہ کامیاب ہوتا ہے کوئی کم ۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک فرد دوسرے فرد کی حالت سے بےپروا ہوجائے ۔ جو زیادہ کماتا ہے وہ اپنی کمائی دوسرے کو اٹھا کر نہیں دے دیتا لیکن ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ دوسرے کی یک قلم محرومی برداشت کرلے اور اس کے لئے اپنے کو ذمہ دار ہی نہ سمجھے جو زیادہ کماتا ہے اس کے پاس زیادہ کمائی رہتی ہے جو کم کماتا ہے اس کے پاس کم رہتی ہے لیکن کھاتے پیتے سب ہیں بھوکا کوئی نہیں رہ سکتا ‘ کمائی میں سب الگ الگ جدوجہد کریں گے لیکن کھانے میں سب ایک دوسرے کے شریک ہوں گے زیادہ کمائی والا سونا اور چاندی نہیں کھائے گا بلکہ وہی رزق کھائے گا جو انسان کے لئے بنایا گیا ہے ۔ دنیا میں نسل وتوارث کے قریبی رشتوں نے خاندانوں کی بنیاد ڈال دی ہے یہ خاندانی زندگی ٹھیک ٹھیک اسی زندگی کا ایک نمونہ ہے جو قرآن کریم چاہتا ہے کہ تمام نوع انسانی کی ہوجائے ، ایک خاندان میں مختلف افراد ہوتے ہیں اور استعداد کار کے لحاظ سے تمام افراد کی حالت یکساں نہیں ہوتی کوئی شخص زیادہ کماؤ ہوتا ہے کوئی کم ، کوئی ایسا نہیں کرتا کہ اٹھا کر دوسروں کو دے دے لیکن باہم رشتہ داری نے باہمی فرائض و تعاون کا جو فرض عائد کردیا ہے اسے خاندان کا کوئی فرد نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ خاندان کا ایک فرد کود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے لیکن دوسروں کو فقر وفاقہ کی حالت میں ہلاک ہونے کے لئے چھوڑ دے۔ کمانے میں سب کی راہیں الگ الگ ہیں اور نتائج بھی سب کو ایک طرح کے پیش نہیں آتے لیکن کھانے میں سب ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی فکر سے غافل نہیں ہو سکتے ۔ اگر خاندان کا ایک فرد زیادہ کماتا ہے تو وہ محسوس کرے کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی اسی پر زیادہ عائد ہوتی ہے اور دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ کماتا ہے تو اسے ہماری خبر گیری بھی دوسروں سے زیادہ کرنی چاہئے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد ہوتے ہیں مگر باہمی تعاون و اشتراک کا فرض بھلا دیتے ہیں ، ایک بھائی لاکھوں کماتا ہے دوسرا بھائی بھوکا مرتا ہے لیکن دنیا ایسے آدمی کو ملامت کرے گی وہ کہے گی کہ یہ ننگ خاندان ہے اس نے یہ بات کیسے گوارا کرلی کہ خود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے اور اس کا بھائی ایک ایک دانہ کو تر سے ۔ قرآن کریم چاہتا ہے کہ ایسا اعتقاد نوع انسانی کے تمام افراد میں پیدا ہوجائے وہ کہتا ہے تمام افراد و انسان دراصل ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد ہیں ۔ انسانیت ان کی نسل ہے اور کرہ ارض ان کا وطن ۔ بلاشبہ ان کا ہر فرد حق رکھتا ہے کہ اپنی اپنی حالت اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے وسائل حاصل کرے لیکن ان کا حق نہیں رکھتا کہ اپنی کمائی کو صرف اپنے ہی لئے سمجھ لے اور اپنے کمزور بھائی کے لئے کچھ نہ نکالے ، کمانے میں سب کی راہیں الگ الگ ہوں گی قبضہ و تصرف میں بھی سب الگ الگ رہیں گے لیکن کھانے میں الگ نہیں رہ سکتے یہ خدا کے اس عالمگیر گھرانے کے ہر فرد کا قدرتی حق ہے وہ کما سکے یا نہ کما سکے لیکن اسے زندہ رہنے کا سامان ملنا چاہئے ۔ وہ کہتا ہے کہ کمائی کا حق کا دامن انفاق کی ذمہ داری سے بندھا ہوا ہے ، یہ دونوں لازم وملزوم ہیں تم انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ، یہاں کمائی کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جائے ، اگر تم کچھ نہیں کما سکتے تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ جونہی تم کمانے لگے ‘ تم پر ذمہ داری عائد ہوگئی ۔ اب یہ جتنی بڑھتی جائے گی انفاق کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑھتی جائے گی ۔ ہر پیشہ جو تمہاری جیب میں آئے گا انفاق کی ایک تازہ ذمہ داری اپنے ساتھ لائے گا ، تمہاری کمائی کی راہ میں کوئی روک نہیں ۔ تم جس قدر کما سکتے ہو کماؤ بلکہ چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ کماؤ لیکن یہ نہ بھولو کہ زیادہ سے زیادہ کمانا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ افراد کے ہاتھ کمائی کے لئے ہیں لیکن حکومت کا حق خرچ کرنے کا ہے ، افراد جتنا کما سکتے ہیں کمائیں لیکن ڈھیر لگانے کے لئے نہیں خرچ کرنے کے لئے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ” اکتناز “ کو روکنا چاہتا ہے یعنی چاندی سونے کے ڈھیر لگانے کو اور کہتا ہے کہ ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے جو ڈھیر لگاتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے ۔ (آیت) ” والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ “۔ (التوبہ 9 : 24) ” جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے ۔ “ (آیت) ” فبشرھم بعذاب الیم “۔ ” ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو “۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ جہاں تک نظام معیشت کا تعلق ہے قرآن کریم نے اکتساب مال کا معاملہ انفاق مال کے ساتھ وابستہ کردیا ہے وہ فرد کے حق اکتساب سے تعرض نہیں کرتا لیکن اس حق کو انفاق کی ذمہ داری کے ساتھ باندھ دیتا ہے ۔ جس قدر کما سکتے ہو کماؤ لیکن کوئی کمائی جائز تسلیم نہیں کی جاسکتی اگر وہ انفاق سے انکار کرتی ہو ہر وہ کمائی جو محض ” اکتناز “ کے لئے ہو اور انفاق کے لئے دروازہ کھلا نہ رکھے قرآن کریم کے نزدیک ناجائز وناپاک اور مستحق عقوبت ہے ، زیر نظر آیت میں فرمایا کہ (آیت) ” واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق “۔ سروسامان رزق کے اعتبار سے سب کی حالت یکساں نہ ہوئی کسی کے پاس زیادہ ہے کیونکہ اس کا کام زیادہ ہے کسی کے پاس کم ہے ۔ کوئی بالکل محروم ہے ۔ (آیت) ” فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم “۔ پھر جن لوگوں کو رزق میں برتری دی گئی ہے وہ ایسا کرنے والے نہیں کہ اپنے کمائے ہوئے رزق اپنے غلاموں اور زیردستوں کو دے دیں “۔ (فھم فیہ سوآء) حالانکہ جو رزق انہوں نے کمایا ہے وہ کچھ ان کا خلق کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اس لئے رزق کے حق دار ہونے میں وہ سب کے سب برابر ہیں خواہ کوئی زیردست ہو کر محروم ہوگیا ہو خواہ کوئی زبردست ہو کر خوش حال ہوگیا ہو ۔ (آیت) ” افبنعمۃ اللہ یجحدون ؟ “۔ پھر کیا یہ اللہ کی نعمت کے منکر ہیں ؟ اللہ کی نعمت نہیں اور اگر وہ ایک فرد کے قبضہ میں آگئی ہے تو یہ ایک اللہ کا فضل ہے پس چاہئے کہ اس کی شکر گزاری بجا لائی جائے نہ یہ کہ کفران نعمت کیا جائے ، اس کی شکر گزاری کیا ہے ؟ ان افراد پر خرچ کرنا ہے جو اس کے حصوں سے محروم ہیں ۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ سروسامان معیشت سب کے پاس یکساں نہیں اور یہ اختلاف حال قدرتی ہے انسانوں کی آزمائش کے لئے اس لئے اسے اللہ نے براہ راست اپنی طرف منسوب کیا ہے دوسری یہ کہ رزق کے حقدار ہونے میں سب برابر ہیں خواہ کوئی آقا ہو ‘ کوئی مملوک ہو ‘ کوئی طاقتور ہو ‘ کوئی زیردست ہو چناچہ یہ دونوں باتیں یک جا ہو کر اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں کہ نظام معیشت کے معاملہ میں قرآن کی ہدایت کس طرف ہے اس لئے ضروری تھا کہ مندرجہ صدر تشریحات اس محل میں کردی جائیں ۔ اس آیت میں (آیت) ” فھم فیہ سوآء “۔ کا مطلب قرار دیتے ہوئے اکثر مفسرین نے اسے عدم تساوی مال پر محمول کیا ہے اور تقدیر عبارت اس طرح قرار دی ہے ۔ (آیت) ” افھم فیہ سوآء “۔ اور بعض نے (فھم) کی فاء کو حتی کے معنوں میں لیا ہے لیکن اس جملہ کا صاف صاف مطلب وہی ہے جو ہم نے قرار دیا ہے یعنی یہ صریح تساوی مال کی خبر ہے نہ کہ اس کی نفی اور جب مطلب ٹھیک ٹھیک بیٹھ رہا ہے تو پھر کونسی وجہ ہے کہ اصل جگہ سے ہٹنے کے لئے مضطرب ہوں ۔ بہرحال فی زماننا ‘ اس معاملہ میں حکومت اسلامی کے کرنے کے بہت کام ہیں جس کی طرف آج تک جب سے یہ ملک عزیز معرض وجود میں آیا اس سلسلہ میں صحیح رخ پر کسی نے کام کرنے کی کوشش نہیں کی اور مذہبی ٹھیکہ دار بھی اس قدر نظام معیشت کے سامنے مبہوت ہوچکے ہیں کہ وہ عوام کو اصل حقیقت سے روشناس نہیں کرا سکے یا نہیں کرانا چاہتے کہ ان کو خود اس میں کئی طرح کے خدشات نظر آتے ہوں گے اور دیانت وامانت کا جنازہ ویسے ہی نکل چکا ہے اور ہر حکومت اتنی غلط پالیسیاں بناتی ہے کہ اعتدال کی راہ سے ہم بہت دور جا چکے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ایک خاندان یا افراد جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے جن میں بہت بڑے زمیندار اور بہت بڑے سرمایہ دار ایسے ہیں کہ اس پورے ملک کی دولت سمٹ کر ان ہاتھوں میں چلی گئی اور ان میں سے ایک ایک اتنا امیر ہے کہ یہ پورا ملک خریدنا چاہے تو بےدھڑک خرید سکتا ہے لیکن حکومت کا خزانہ اس طرح خالی ہے جس طرح ڈھول اندر سے خالی ہوتا ہے اور جو حکومت بنتی ہے چونکہ وہ اس دولت کے بل پر معرض وجود میں آتی ہے اور سوچ پہلے ہی ان لوگوں کو اپنی نہیں اس لئے اصل حکمران جو اس ملک کے نہیں بلکہ وہ ملک سے باہر کے لوگ ہیں وہ جن مہروں کو سمجھتے ہیں کہ ان پر ہمارا مکمل ھولڈ ہے ان کو آگے بڑھاتے ہیں باقی کو تربیت کے لئے اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور اس طرح یہ ایک کھیل ہے جو برصیغر کے ان ملکوں میں کھیلا جا رہا ہے جن کو آزاد ہوئے ابھی پچاس ساٹھ سال ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب آزادی بھی انہی کی مرہون منت ہے اور ابھی تک وہ اس احسان کا بدلہ چکوا رہے ہیں ۔ قرآن کریم کا دیا ہوا نظام معیشت وہ ہے جس سے دولت افراد کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ قوم کے خزانہ میں جمع ہوتی ہے اور وہاں سے تقسیم ہو کر بقدر ضرورت سب لوگوں میں تقسیم ہوتی ہے خواہ وہ اپاہج ہوں یا لولے لنگڑے ہوں یا غریب ونادار لوگ جن کے ہاں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔
Top