Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 71
وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ١ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ١ؕ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ فَضَّلَ : فضیلت دی بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض فِي : میں الرِّزْقِ : رزق فَمَا : پس نہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فُضِّلُوْا : فضیلت دئیے گئے بِرَآدِّيْ : لوٹا دینے والے رِزْقِهِمْ : اپنا رزق عَلٰي : پر۔ کو مَا مَلَكَتْ : جو مالک ہوئے اَيْمَانُهُمْ : ان کے ہاتھ فَهُمْ : پس وہ فِيْهِ : اس میں سَوَآءٌ : برابر اَفَبِنِعْمَةِ : پس۔ کیا۔ نعمت سے اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے ہیں
اور اللہ نے فضیلت بخشی ہے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی کے معاملے میں پس نہیں ہیں وہ لوگ جن کو فضیلت بخشی گئی ہے ، لوٹانے والے اپنی روزی کو ان پر جن کے مالک ہیں ان کے دائیں ہاتھ تاکہ وہ اس میں برابر ہوجائیں ، تو کیا اللہ کی نعمت کا یہ انکار کرتے ہیں ۔
(ربط آیات) اللہ نے اپنی قدرت کی وہ نشانیاں بیان کیں جو اس نے انسان کے اندر اور بیرونی دنیا میں پیدا فرمائی ہیں پھر اسی مضمون کو شرک کی تردید میں بطور دلیل پیش کیا ، گذشتہ آیات میں بھی اللہ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کیا تھا اور آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں ، اللہ نے مشرکین کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اس کے انعامات کی ناقدری کرتے ہیں حالانکہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا ، انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے ۔ (رزق میں تفاوت) اب اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ احسان بھی یاد دلایا ہے (آیت) ” واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق “۔ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے فضیلت بخشی ہے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی کے معاملہ میں ، اللہ نے تمام مخلوق کے لیے روزی کے یکساں دروازے کشادہ نہیں کیے بلکہ بعض کو زیادہ روزی دی ہے اور بعض کو کم ، اس کمی بیشی کی حکمت اور مصلحت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو خود روزی رساں ہے اور یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ، دوسری جگہ تصریح موجود ہے (آیت) ” ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر مایشآء “۔ (الشوری) اگر اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے لیے روزی کے یکساں دروازے کشادہ کردیتا تو وہ زمین میں بغاوت کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق روزی نازل فرماتا ہے کسی کو زیادہ مال دے دیا اور کسی کو کم ، کسی کو افسر بنا دیا ، اور کسی کو ماتحت ، حدیث شریف میں آدم (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کی تمام روحوں کو متمثل کرکے ان کے سامنے پیش کیا تو ان میں تفاوت نظر آتا تھا ، آدم (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا ، پروردگار ! لولا سویت بین عبادک “ تو نے اپنے بندوں کے درمیان برابری کیوں نہیں رکھی ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں سب کو یکساں کردیتا تو کوئی شخص میرا شکریہ ادا نہ کرتا ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ذہنی قوی اور جسمانی ، ظاہری اور باطنی طاقتیں ایک جیسی نہیں رکھیں ، اس لیے ان کے علم وعمل میں بھی فرق ہے اور پھر ان کی روزی کا سلسلہ بھی کم وبیش رکھا ہے کوئی امیر اور امیر تر ہے اور اسی طرح کوئی غریب اور غریب تر ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب اپنے سے زیادہ نعمت والے کا خیال آئے تو اس کی طرف نہ دیکھو بلکہ اپنے کم تر کی طرف دیکھو (آیت) ” الاتزدروا نعمۃ اللہ “ تاکہ تم اللہ کی عطا کردہ نعمت کو حقیر نہ سمجھو ، اللہ نے تمہیں بھی بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ، تم مال اور اولاد میں ان سے بہتر ہو ، گویا تم سے کمترلوگ بھی موجود ہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور خدا کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو اللہ نے انسانوں کے درمیان جو تفاوت رکھا ہے وہ بالکل فطری ہے جس طرح استعداد اور محنت میں فرق ہے اسی طرح روزی بھی برابر نہیں ۔ (حقوق کی ادائیگی) یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے روزی زیادہ بخشی ہے اس کے ذمے حقوق بھی زیادہ ہیں ، چناچہ ہم سورة الروم میں پڑھتے ہیں فات ذالقربی حقہ والمسکین وابن السبیل “۔ قرابتداروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو ، اگر اللہ نے مال دیا ہے تو پھر یہ حقوق بھی پورے کرو ، ورنہ ماخوذ ہوگے ، مال میں مختلف قسم کے حقوق میں ، کوئی فرض ، کوئی واجب اور کوئی نفل ، اگر کسی مالدار کے اقربا محتاج ہیں تو اس کے ذمے واجب ہے کہ وہ ان کی اعانت کرے ، تاکہ وہ بھوکے ننگے نہ رہیں عام انسانی سوسائٹی کا بھی یہی قانون ہے ، اگر دولت مند نادار کی مدد نہیں کرے گا تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہوگا ، بہرحال جو صاحب حیثیت ہے اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے اور اسے اپنے مال کا حساب دنیا ہوگا کہ اس نے یہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ (مختلف نظام ہائے معیشت) آج کل غیرفطری مساوات کا نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ سب برابر ہیں ، اس معاملہ میں استرا کی ممالک پیش پیش ہیں ، حالانکہ تفاوت کی مٹانا غیر فطری بات ہے ، گذشتہ پچاس سال کے تجربہ اشتراکی نظام کو بھی ناکام ثابت کردیا ہے وہاں بھی تشدد کے سوا کچھ نہیں ، سرمایہ دارانہ نظام معیشت بھی ایک لعنت سے کم نہیں ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی تعلیم سے دوری کی وجہ سے ہو رہا ہے اللہ نے مال کے حصول اور خرچ دونوں کے لیے قانون مقرر کیے ہیں ، حلال و حرام کا امتیاز روا رکھا اور کسب اور خرچ پر بعض پابندیاں عاید کی ہیں ، کسی کو من مانے طریقے سے کمائی کرنے کی اجازت نہیں بلکہ فرمایا (1) (کنز العمال ص 12 ، 13 ، 14 ، ج 4) فاتقوا اللہ واجملوا فی الطلب “۔ اللہ سے ڈرو اور حلال روزی تلاش کرو فرمایا ” اطلبوا الرزق فی خیآئل الارض “ ، زمین کے کونے کونے میں جہاں بھی ممکن ہو روزی تلاش کرو ، زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ، پہاڑوں ، دریاؤں اور سمندر میں رزق حلال کی تلاش کے لیے نکل جاؤ ، زمین اور پہاڑوں سے مع دنیات نکلتی ہیں دریاؤں اور سمندروں سے مچھلی کا شکارا اور قیمتی ہوتی حاصل ہوتے ہیں ، زمین کے اوپر کھیتی باڑی ، صنعت وحرفت اور طرح طرح کے کاروبار ہوتے ہیں یہ سب روزی کے ذریعے ہیں ، حلال رزق میں حرام کی ملاوٹ نہ کرو ، اور پھر عیاشی ، فحاشی ، اسراف ، بلڈنگ سازی کی بجائے معاشرے کے کمزور لوگوں کا سہارا بنو ، اللہ نے انسان کو مکلف بنایا ہے ، اس پر پابندیاں عاید کی ہیں ، اگر اپنے تمام معاملات دائرہ قانون کے اندر رہ کر نپٹاؤ گے تو کامیاب ہوجاؤ گے ، حظیرۃ القدس کے ممبر بن جاؤ گے ۔ (فطری اور غیر فطری مساوات) اللہ نے فرمایا ، جن لوگوں کو ہم نے زیادہ روزی دی ہے ، مال وزر کی فراوانی ہے ، ان کا معاملہ ایسا ہے (آیت) ” فما الذین فضلوا “ پس وہ لوگ جن کو دوسروں پر فضیلت دی گئی ہے ۔ (آیت) ” برآدی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم فھم فیہ سوآئ “۔ وہ نہیں چاہتے کہ اپنا مال اپنے غلاموں میں تقسیم کردیں تاکہ وہ بھی ان کے برابر ہوجائیں ، مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی نہیں چاہتا کہ اس کے غریب خدام بھی اس کے برابر حیثیت کے مالدار ہوجائیں ، کوئی کارخانہ دار اپنے مزدور کو اپنا ہم پلہ نہیں دیکھنا چاہتا ، کوئی زمیندار اور جاگیردار اپنے مزارع کو اپنے برابر بیٹھا نہیں دیکھ سکتا اور نہ کوئی حاکم برادشت کرتا ہے کہ اس کے سارے ماتحت اس کی حیثیت میں برابر ہوجائیں ، ظاہر ہے کہ ہر کس وناکس ایک جیسے ہوجائیں ، تو ایک دوسرے کے کام کون کریگا اور دنیا کا نظام کیسے چل سکے گا۔ ؟ گویا اس طرح کی تقسیم غیر فطری ہوگی ، اللہ نے اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق ہر شخص کی استعداد ، قوت اور علم میں تفاوت رکھا ہے تاکہ نبی نوع انسان ایک دوسرے کے کام آسکیں ، فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تفاوت قائم کر کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے (آیت) ” افبنعمۃ اللہ یجحدون “ تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ، ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس کی مہربانی سے اسے نعمت حاصل ہوگئی ہے پھر اگلی آیت میں اللہ نے اس چیز کو شرک کے خلاف دلیل بنایا ہے کہ انسان تو اپنے ہم جنس انسانوں کو بھی اپنے برابر آتا نہیں دیکھ سکتے ، چہ جائیکہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر شریک ٹھہرایا جائے ۔ فرمایا اللہ کی عطا کردہ نعمت کی قدر دانی کرو ، اس نے یہ حکم نہیں دیا کہ تم اپنا سارا مال تقسیم کرکے اپنے سے کم تر لوگوں کے برابر ہوجاؤ بلکہ فرمایا ہے کہ اپنے مال میں سے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حقوق ادا کرو اور بیشک اپنا تفاوت قائم رکھو ، یہ تم پر اللہ کا انعام ہے نظام سرمایہ داری میں یہی قباحت ہے کہ وہ مالی حقوق ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے انسانی سوسائٹی مصائب کا شکار ہو رہی ہے غریب اور کمزور لوگ مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ، مذہب سے بیزاری اور اشتراکیت کی طرف رغبت اسی چیز کا نتیجہ ہے ، اگر ہر شخص کو اس کا جائز حق مل جائے تو اسے بغاوت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ آج حالت یہ ہے کہ غریب کے لیے حفظان صحت کا کوئی انتظام نہیں ، انہیں روزگار کی ضرورت ہے وہ بھی عزت نفس چاہتے ہیں مگر جب وہ ان چیزوں سے محروم رہتے ہیں تو کبھی اشتراکیت کے سائے میں پناہ تلاش کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں دین کا اصول تو یہ ہے کہ خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں کو اپنے دین کرنے کی کوشش کرو مگر یہاں اپنے بھی دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں ، ساری مصیبت حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے تمام سوسائٹی بگڑ چکی ہے ، کمزوروں کو سہارا دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ، اشتراکی مساوات بالکل غیر فطری ہے جبکہ حقیقی مساوات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیم میں ہے ۔ (نوعی اور شخصی بقائ) اللہ تعالیٰ نے انسان کی نوعی اور شخصی بقاء کا انتظام کرکے انسان پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا “۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے کہ جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں بنائی ہیں (آیت) ” وجعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ “۔ اور پھر ان بیویوں میں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا فرمائے ، اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی بقا کا یہ انتظام فرما دیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور پھر ان میں سے ان کی اولادوں کو پیدا کیا ہے ، اس طرح نسل انسانی قیامت تک چلتی رہی گی ’ حفد کا معنی خادم غلام یا سسرال والے بھی ہوتا ہے ، تاہم عام مفسرین نے اس کا معنی پوتے کیا ہے کہ نسل انسانی کی بقاء کی یہی صورت ہے ہر فرد فانی ہے اور اپنی مقررہ عمر پوری کرکے مر جاتا ہے تاہم اگر اس کی اولاد ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں ہوں گا تو اس دنیا میں میری اولاد تو موجود ہوگی اس کی تسلی کے لیے یہی بات کافی ہوتی ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر ہوتا رہیگا ، نیک اولاد اپنے آباؤ اجداد کے لیے دعائیں بھی کرتی ہے اور یہ بھی اس کی بقا کی ایک صورت ہوتی ہے اسی لیے اولاد کی خواہش کو برا نہیں کہا گیا ، بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی نیک اولاد کے لیے دعائیں کرتے رہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” رب ھب لی من الصلحین “۔ (صفت) یا اللہ ! مجھے نیک اولاد عطا فرما ، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بھی خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی (آیت) ” رب لا تذرنی فردا وانت خیرالوارثین “۔ (الانبیائ) بہرحال نیک اولاد بات دادا کے نام کو زندہ رکھتی ہے ، یہ تو نوعی بقاء کا سلسلہ تھا اب آگے فرمایا (آیت) ” ورزقکم من الطیب “۔ اور تمہیں پاک چیزوں کی روزی عطا فرمائی ، ہر انسان خوراک کا محتاج ہے ، اللہ تعالیٰ نے اناج اور پھل پیدا کر کے انسان کی شخصی بقا کا انتظام بھی کردیا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، خوراک ایک ایسی چیز ہے جس پر انسانی اور حیوانی زندگی کا دارومدار ہے ، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے پاک نبی بھی اس سے مستثنی نہیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما جعلنھم جسدا لا یاکلون الطعام “۔ (الانبیائ) ہم نے انبیاء کے جسم ایسے نہیں بنائے کہ انہیں کھانے پینے کی ضرورت نہ ہو ، غرضیکہ ایک زمانے تک انسان کی شخصی بقا کا انحصار رزق پر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے ، فرمایا جب اللہ نے انسان پر اتنے احسانات کیے ہیں (آیت) ” افبالباطل یؤمنون “ تو اس کے باوجود یہ لوگ باطل پر یقین رکھتے ہیں (آیت) ” وبنعمت اللہ ھم یکفرون “ اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ کتنے افسوس کا مقام ہے ۔ (شرک کی تردید) فرمایا نسل انسانی کی شخصی اور نوعی بقا کا انتظام تو میں نے فرمایا ہے مگر ان لوگوں کی حالت یہ ہے (آیت) ” ویعبدون من دون اللہ مالایملک لھم رزقا من السموت والارض شیئا “۔ وہ اللہ کے سوا ان کی پوجا کرتے ہیں جو ان کے لیے زمین وآسمان سے کسی روزی کے مالک نہیں ہیں روزی رساں تو اللہ تعالیٰ ہے ، مگر یہ لوگ لات ، مناۃ ، عزی ، جن ، فرشتہ حجر ، شجر اور قبر کی پرستش کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی روزی کا سامان ہے اور نہ یہ کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ اپنی مشکلات ان کے سامنے پیش کرتے ہیں ، مافوق الاسباب انہیں کو پکارتے ہیں اور انہی کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ، فرمایا (آیت) ” ولا یستطیعون “۔ ان کے پاس نہ اختیار ہے اور نہ طاقت ، نہ یہ بارش برسا سکتے ہیں ، نہ زمین میں روئیدگی پید کرسکتے ہیں کہ اناج ، پھل اور سبزیاں پیدا ہوں ، نہ ان کا زمین میں تصرف ہے اور فضا میں کوئی دخل ہے ، یہ کسی چیز کے مالک بھی نہیں نافع اور ضار بھی نہیں تو پھر کتنے ظلم کی بات ہے کہ ان کی خدا کا شریک ٹھہرا کر ان کی عبادت کی جائے ، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی کہا تھا (آیت) ” ان الذین تعبدون من دون اللہ لا یملکون لکم رزقا فابتغوا عند اللہ الرزق “۔ (العنکبوت) اے لوگو ! تم اللہ کے سوا جن دوسروں کی عبادت کرتے ہو ان کا رزق پر کوئی اختیار نہیں ہے ، لہذا اللہ ہی کے پاس رزق تلاش کرو ، تمام اسباب رزق اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ، لہذا ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کیا کرو ، اس نے اپنے اختیارات کسی مخلوق کو تقسیم نہیں کیے جب کہ مشرکین عرب کا دعوی یہ تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض ہستیوں کو اختیارات تفویض کرکے انہیں اپنا شریک بنا لیا ہے چناچہ وہ حج کے دوران تلبیہ میں ” لبیک لا شریک لک “ کے بعد یہ اضافہ کرتے تھے ” الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک “ (صحیح مسلم) کہتے تھے اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے کے کہ جسے تو نے خود اختیارات دے کر اپنا شریک بنا لیا ہے ، بعض مشرک غیر اللہ کی عبادت کا یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی ، چونکہ یہ اللہ کے مقبول بندے ہیں ، اس لیے ان کی عبادت کے ساتھ مل کر ہماری عبادت بھی قبول ہوجاتی ہے بعض یہ بھی کہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی ذات بڑی بلند وبالا ہے ۔ ہماری وہاں تک رسائی نہیں ہو سکتی ، لہذا ہم ان کے واسطہ سے خدا تک رسائی حاصل کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام باطل عقائد کی تردید فرمائی ہے ۔ ّ (اللہ سے براہ راست تعلق) اللہ اور بندوں کے درمیان براہ راست تعلق کے متعلق شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت کا نام تدلی ہے جب ماں کے پیٹ میں انسانی ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے تو پھر اس میں روح الہی داخل کی جاتی ہے اور اس طرح ہر انسان کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلی اعظم کا عکس پڑنے لگتا ہے اللہ اور بندے کے درمیان یہی براہ راست تعلق ہے زندگی میں تو انسان کو اس کا شعور نہیں ہوتا ، مگر جب انسان مر جاتا ہے ، اس کی روح اور نسمہ جسم سے باہر نکل آتا ہے تو اس وقت تجلی اعظم کی کشش انسان کو عالم بالا کی طرف کھینچتی ہے جب کہ اس کے برے اعمال اسے نیچے کی طرف کھینچتے ہیں اور پھر انسان کو سخت تکلیف ہوتی ہے ، اس وقت انسان کو خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق کا احساس ہوتا ہے ۔ غرضیکہ بندے کا بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق قائم ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی مرضی اور ارادے سے جو چاہے کرتا ہے ، وہاں کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہے ، بعض اوقات اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام فرشتوں کے ذریعے کراتا ہے ، لہذا براہ راست تعلق تو ثابت نہ ہوا ، اس ضمن میں عرض ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے کوئی اختیار نہیں دیا بلکہ وہ تو اس کے حکم سے ہر کام کرتے ہیں کیونکہ وہ مامور من اللہ ہوتے ہیں پیچھے گزر چکا ہے ، (آیت) ” ویفعلون مایؤمرون “۔ وہ تو وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ، انہیں از خود کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی ، بارش برسانے یا پھل اگانے کا کوئی اختیار نہیں ، لہذا جو کوئی اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو مافوق الاسباب پکارلے گا اور اس سے امید وابستہ کرے گا ، وہ مشرک ٹھہرے گا ، فرمایا ، تم ایسی مثالیں بیان کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے کسی حاکم پر قیاس کرکے کہتے ہو کہ جس طرح بادشاہ تک اس کے وزیر ، مشیر یا مصاحب کے بغیر رسائی نہیں ہوتی ، اسی طرح اللہ تک بھی اس کے مقرب کے بغیر پہنچ ممکن نہیں ، تو یہ تمہاری خام خیالی ہے ، (آیت) ” فلا تضربوا اللہ الامثال “۔ اللہ کے لیے ایسی مثالیں مت بیان کرو ، کیونکہ اس کا فرمان تو ہے ” (آیت) ” امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوئ “ (النحل) مصیبت زدہ کی پکار کو کون سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو کون رفع کرتا ہے ؟ (آیت) ” ء الہ مع اللہ “ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ، نہیں بلکہ وہی براہ راست پکار کو سنتا ہے ، اور تکلیف کو رفع بھی وہی کرتا ہے ، کوئی نبی ، ولی ، جن فرشتہ اللہ کے درمیان واسطہ نہیں ہے ، نہ اس نے کسی کو کوئی اختیار دے رکھا ہے ، لہذا اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے لیے ایسی مشرکانہ مثالیں مت بیان کرو ، (آیت) ” ان اللہ یعلم وانتم لا تعلمون “۔ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ، لہذا اس کی حکمت میں دخل اندازی کی کوشش مت کرو۔
Top