Ahkam-ul-Quran - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) تک پہنچنا (اور ذبح ہونا) ہے
قربانی کے اونٹ کی سواری کا بیان قول باری ہے (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی تمہیں ایک وقت مقرر تک ان (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے) حضرت ابن عباس، ابن عمر مجاہد اور قتادہ کا قول ہے ۔ تمہیں ان جانوروں کے دودھ ا ن کی اون اور ان کی سواری سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے یہاں تک کہ انہیں قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔ “ محمد بن کعب القرظی سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ۔ عطاء کا قول ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کی قربانی کردی جائے۔ عروہ بن الزبیر کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم مسلک حضرات اس پر متفق ہیں کہ قول باری (الی اجل مسمی ) سے مراد یہ ہے کہ ان جانوروں کو قربانی کے لئے مقرر کرلیا جائے۔” اجل مسمی کا ان حضرات کے نزدیک یہی مفوہم ہے۔ اس کے بعد ان کی سواری کو ان حضرات نے پسند کیا ہے۔ عطاء بن ابی رباح اور ان کے ہم مسلک حضرت ا کہنا ہے کہ بدنہ یعنی قربانی کے لئے متعین ہونے کے بعد ان کی سواری ہوسکتی ہے۔ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ اس پر سواری کرے گا لیکن اسے گرانبار نہیں بنائے گا۔ اس کے بچے سے جو دودھ بچے گا اسے دودھ لے گا۔ اس سلسلے میں حضور ﷺ سے ایسی روایات منقول ہیں جن سے وہ حضرات استدلال کرتے ہیں جو ایسے جانوروں کی سواری کی اباحت کے قائل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو بدنہ یعنی قربانی کا اونٹ ہنکا کرلے جاتے ہوئے دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا ” بھلے آدمی ! اس پر سوار ہو جائو۔ “ اس نے جواب دیا۔” یہ بدنہ ہے۔ “ آپ نے پھر فرمایا ” بھلے آدمی ! اس پر سوار ہو جائو۔ “ شعبہ نے قتادہ سے، انہوںں نے حضرت انس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت اس پر محمول ہے کہ آپ نے ضرورت کی بنا پر اس پر سوار ہونے کی اباحت کردی تھی۔ آپ کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ اس شخص کو اس کی سواری کی ضرورت ہے۔ یہ بات دوسری بہت سی روایات میں بیان کردی گئی ہے۔ ان میں سے ایک روایت وہ ہے جس کے راوی اسماعیل بن جعفر ہیں، انہوں نے حمید سے اور انہوںں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا گذر ایک شخص پر ہوا جو اپنے ساتھ بدنہ لئے جا رہا تھا لیکن خود پیدل چل رہا تھا، اس پر تھکن کے آثار واضح تھے آپ نے اس سے سوار ہونے کے لئے فرمایا۔ اس نے جواب میں عرض کیا کہ یہ بدنہ ہے۔ لیکن آپ نے پھر فرمایا ” اس پر سوار ہو جائو۔ “ حضرت جابر سے قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :” میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہیں اس پر سوار ہونے کی مجبوری پیش آ جائے تو اس وقت تک معروف طریقے سے اس کی سواری کرو جب تک تمہیں کوئی اور سواری نہ مل جائے۔ “ ابن جریج نے ابوالزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” میں نے ہدی کی سواری کے بارے میں حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پیش آ جائے تو دوسری سواری ملنے تک اس پر معروف طریقے سے سوار رہو۔ “ ان روایات میں یہ بیان کردیا گیا کہ قربانی کے جانور پر سوار ہونے کی اباحت بشرط ضرورت ہے۔ وہ اس کے منافع کا مالک نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وہ اسے سواری کی خاطر کرائے پردے نہیں سکتا۔ اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس کے منافع کا مالک ہوتا تو اسے کرائے پر دینے کے لئے عقد اجارہ کا بھی مالک ہوتا جس طرح وہ اپنی دوسری تمام مملوکہ اشیاء کے منافع کا مالک ہوتا ہے۔ ہدی کے قربان ہونے کی جگہ کا بیان قول باری ہے (واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم) تاقول باری (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق ) یہ بات تو واضح ہے کہ آیت میں مراد وہ جانور ہیں جو بطور ہدی یا بدنہ متعین ہوجائیں یا وہ جانور مراد ہیں جنہیں اپنے ذمہ عائد شدہ واجب کی ادائیگی کے لئے ہدی بنایا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ایسے جانور جن کے یہ اوصاف ہوں ان کے قربان ہونے کی جگہ قدیم گھر کے پاس ہے۔ بیت سے یہاں سارا حرم مراد ہے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ قربانی کے جانور نہ تو بیت اللہ کے پاس اور نہ ہی مسجد حرام کے اندر ذبح کئے جاتے ہیں، جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ سارا حرم مراد ہے اور بیت اللہ کے ذکر سے پورے حرم کی تعبیر مراد ہے۔ اس لئے کہ پورے حرم کی حرمت کا تعلق بیت اللہ کے وجود کے ساتھ ہے۔ اسامہ بن زید نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (عرفۃ کلھا موقف، وضی کلھا منحروکل فجاج مکۃ طریق و منحر، سارا عرفات جائے وقوف ہے، سارا منی بائے ذبح ہے۔ مکہ کے تمام درے (پہاڑی راستے) جائے ذبح اور راہیں ہیں۔ آیت کا عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کی قربانی کی جگہ حرم ہو اور حرم سے باہر ذبح کی صورت میں اس کی ادائیگی نہ ہو۔ اس لئے کہ آیت نے ان ہدایا کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ احصار کی بنا پر بھیجے جانے والے قربانی کے جانور کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کے قربان ہونے کی جگہ بھی حرم ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ولا تحلقوا رئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ اور تم اپنے سر نہ مونڈو جب تک ہدی اپنے قربان ہونے کی جگہ پر نہ پہنچ جائے) اس آیت میں قربان ہونے کی جگہ مجمل تھی یکن جب یہ ارشاد ہوا (ثم محلھا الی البیت الغیق) تو پہلی آیت کے اجمال کی اس آیت میں تفصیل بیان ہوگئی ۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ احصار کی بناء پر بھیجے جانے والے جانور کی قربانی بھی حرم میں ہو۔ ان تمام ہدایا کے متعلق فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے جن کا وجوب احرام کی وجہ سے ہتا ہے۔ مثلاً شکار کرنے کا جرمانہ، سر کی تکلیف پر لازم ہونے والا فدیہ اور دم تمتع وغیرہ، سب کے نزدیک ان ہدایا کے قربان ہونے کی جگہ حرم ہے۔ اس لئے احصار کی بنا پر بھیجے جانے والے ہدی کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے اس لئے کہ اس کے وجوب کا تعلق بھی احرام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے بھی حرم کے اندر ہی قربان ہونا چاہیے۔
Top