Al-Quran-al-Kareem - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
تمہارے لیے ان میں ایک مقرر وقت تک کئی فائدے ہیں، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ اس قدیم گھر کی طرف ہے۔
لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى : فائدوں سے مراد ان کی سواری کرنا، ان کا دودھ پینا، ان سے نسل اور اون حاصل کرنا ہے، اسی طرح ان کے گوبر وغیرہ کو ایندھن یا کھاد کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ مشرکین جس طرح قربانی کا گوشت نہیں کھاتے تھے اسی طرح قربانی کے جانوروں سے اون، دودھ یا سواری وغیرہ کا فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں سے اس وقت تک فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک انھیں قربانی کے لیے نامزد نہ کیا جائے، اس کے بعد سواری یا دودھ یا اون کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ”شعائر اللہ“ سے فائدہ اٹھانا بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ قربانی کے لیے نامزد ہونے کے بعد ہی جانور ”شعائر اللہ“ میں شامل ہوتے ہیں۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے : (أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً یَسُوْقُ بَدَنَۃً فَقَالَ ارْکَبْھَا فَقَالَ إِنَّھَا بَدَنَۃٌ فَقَالَ ارْکَبْھَا قَالَ إِنَّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ ارْکَبْھَا وَیْلَکَ) [ بخاري، الحج، باب رکوب البدن : 1689۔ مسلم، : 1323 ] ”رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ایک بدنہ (قربانی کے لیے مکہ جانے والا اونٹ) ہانک کرلے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ”اس پر سوار ہوجاؤ۔“ اس نے کہا : ”یہ بدنہ ہے۔“ فرمایا : ”اس پر سوار ہوجاؤ۔“ اس نے کہا : ”یہ بدنہ ہے۔“ فرمایا : ”اس پر سوار ہوجاؤ، افسوس ہو تم پر۔“ جابر ؓ کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (اِرْکَبْھَا بالْمَعْرُوْفِ إِذَا أُلْجِءْتَ إِلَیْھَا حَتّٰی تَجِدَ ظَھْرًا) [ مسلم، الحج، باب جواز رکوب البدنۃ۔۔ : 1324 ] ”اس پر اس طرح سوار ہوجاؤ کہ اسے تکلیف نہ دو ، جب تمہیں اس کی ضرورت پڑجائے، یہاں تک کہ تمہیں کوئی اور سواری مل جائے۔“ ابن کثیر نے شعبہ عن زہیر بن ابی ثابت الاعمی عن مغیرہ بن حذف کی سند سے علی ؓ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو بدنہ ہانک کرلے جاتے ہوئے دیکھا، جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، فرمایا : ”اس کا دودھ صرف اتنا پیو جو اس کے بچے سے زائد ہو اور جب یوم النحرہو تو اسے اور اس کے بچے کو ذبح کر دو۔“ یہ علی ؓ کا قول ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، مجھے مغیرہ بن حذف کے حالات نہیں ملے اور متن میں بچے کو ذبح کرنے کی بات غریب (انوکھی) ہے۔ ثُمَّ مَحِلُّهَآ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : ”مَحِلُّهَآ“ اترنے کی جگہ۔ حلال ہونے کی جگہ سے مراد یہ ہے کہ جہاں آخر قربانی کے جانوروں کو پہنچنا ہے اور نحر یا ذبح ہونا ہے وہ بیت عتیق (کعبہ) ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : (هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ) [ المائدۃ : 95 ] یعنی قربانی کا ایسا جانور جو کعبہ تک پہنچنے والا ہو۔ ان دونوں آیتوں میں کعبہ سے مراد حرم کعبہ ہے، کیونکہ عین کعبہ میں تو قربانی نہیں کی جاتی، قربانی تو اس کے باہر کی جاتی ہے، چناچہ پورے مکہ یا منیٰ میں جہاں بھی قربانی کی جائے درست ہے۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کُلُّ عَرَفَۃَ مَوْقِفٌ وَکُلٌّ مِنًی مَنْحَرٌ وَکُلُّ الْمُزْدَلِفَۃِ مَوْقِفٌ وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ طَرِیْقٌ وَ مَنْحَرٌ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب الصلاۃ بجمع : 1937 ] ”عرفہ پورا وقوف کی جگہ ہے، منیٰ پورا نحر کی جگہ ہے اور مزدلفہ پورا وقوف کی جگہ ہے اور مکہ کی تمام سڑکیں راستہ ہیں اور نحر کی جگہ ہیں۔“ ہمارے استاذ محمد عبدہ ؓ لکھتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ ”مَحِلُّهَآ“ میں ”ھَا“ ضمیر سے مراد سارے شعائر ہوں، تو مطلب یہ ہوگا کہ آخر ان تمام مناسک کا خاتمہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ معنی زیادہ مناسب ہے، ورنہ خصوصیت کے ساتھ ”بیت عتیق“ کہنے کا فائدہ واضح نہیں رہے گا۔ (قرطبی)
Top