Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) تک پہنچانا (اور ذبح ہونا) ہے
لکم فیہا منافع الی اجل مسمی تمہارے لئے ایک مقررہ وقت تک ان میں منافع (حاصل کرنے جائز) ہیں۔ یعنی قربانی کے نام زد اونٹوں پر بغیر ایذا پہنچائے سوار ہونا ‘ بوجھ لادنا اور ان کا دودھ پینا تمہارے لئے جائز ہے اور ذبح ہونے کے وقت تک یہ عمل جائز ہے۔ عطاء بن رباح امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے آیت کا یہی مطلب بیان کیا ان حضرات کا مسلک ہے کہ قربانی کے نامزد اونٹوں اونٹنیوں پر سوار ہونا ‘ بوجھ لادنا اور ان کا دودھ پینا بشرطیکہ اس عمل سے ان کو ایذا نہ پہنچے جائز ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ (خود پیدل چل رہا تھا اور) قربانی کے اونٹ کو ہنکا کر لئے جارہا تھا ‘ فرمایا اس پر سوار ہوجا ‘ اس شخص نے عرض کیا حضور یہ قربانی کا اونٹ ہے فرمایا سوار ہوجا۔ اس نے پھر کہا یہ قربانی کا اونٹ ہے فرمایا اس پر سوار ہوجا۔ دوسری یا تیسری مرتبہ میں حضور ﷺ نے فرمایا تیرا برا ہو۔ متفق علیہ۔ حضرت انس ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے۔ رواہ البخاری۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کے اونٹ کو ہنکا کرلے جا رہا تھا ‘ فرمایا اس پر سوار ہوجا رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ طریقہ سے زیادہ سیدھے کسی طریقہ پر تو نہیں چل سکتا (یعنی دوسرا طریقہ نہ اختیار کر قربانی کے جانور پر سوار ہونا سنت کے موافق ہے) رواہ الطحاوی۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا بغیر خاص ضرورت کے قربانی کے جانوروں پر نہ سوار ہونا جائز ہے نہ ان پر بوجھ لادنا ان کا دودھ پینا کیونکہ جب ان کو اللہ کے خالص طور پر نامزد کردیا تو وہ سارے کے سارے اللہ کے ہوگئے اپنے فائدے کے لئے ان میں کوئی تصرف کرنا درست نہیں۔ یہ توجیہ ثابت کر رہی ہے کہ ضرورت کی وجہ سے ہو یا بغیر ضرورت کے کسی طور پر قربانی کے جانوروں سے فائدہ اندوزی جائز نہیں۔ صریحی آیت ہے (وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَّقْوَی الْقُلُوْبِ ) سوار ہونا اور بوجھ لادنا تعظیم کے خلاف ہے اور اس سے جانور کی فربہی پر اثر پڑتا ہے لیکن احادیث میں چونکہ قربانی کے جانوروں پر سوار ہونا اور بوجھ لادنا جائز قرار دیا گیا ہے اس لئے ضرورت کے وقت ہم بھی اس کو جائز کہتے ہیں تاکہ عمل بالسنۃ ترک نہ ہو اور احادیث میں جس اجازت کا ذکر ہے اس کو ہم ضرورت پر محمول کرتے ہیں اس کی تائید طحاوی کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو دو سندوں سے بحوالۂ حمید الطویل حضرت انس ؓ کی روایت سے طحاوی نے ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو قربانی کا اونٹ ہنکا کرلے جاتے دیکھا اور وہ شخص خود تھک چکا تھا فرمایا اس پر سوار ہوجا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو قربانی کا اونٹ ہے فرمایا اس پر سوار ہوجا دوسری روایت میں ہے فرمایا اس پر سوار ہوجا اگرچہ قربانی کا اونٹ ہو۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اس شخص سے جو قربانی کے اونٹ کو ہنکا کرلے جا رہا تھا اور خود تھک گیا تھا فرمایا تھا اس پر سوار ہوجا۔ باقی روایت حسب سابق ہے۔ مسلم کا بیان ہے ابوالزبیر نے کہا میں نے سنا کہ حضرت جابر بن عبداللہ سے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کا مسئلہ پوچھا جا رہا تھا حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے جب تو اس کی سواری پر مجبور ہے تو اس پر دستور کے مطابق سوار ہو جاتاوقتی کہ تجھے دوسری سواری نہ ملے ‘ آیت مذکورہ میں ہمارے نزدیک منافع سے مراد مجبور کن ضرورت کے وقت سوار ہونا ہے۔ مَنَافِعُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی کی تفسیر میں مجاہد قتادہ اور ضحاک نے فرمایا تمہارے لئے قربانی کے جانوروں سے فائدہ اندوزی کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک تم ان کو قربانی کے لئے نامزد اور مقرر نہ کر دو اور ان کو ہدی نہ بنا دو ۔ جب نام زد کر کے ہدی بنا دو تو پھر فائدہ اندوزی کا کوئی حق نہیں۔ ثم محلہا الی البیت العتیق پھر ان کے ذبح حلال ہونے کا موقع بیت عتیق کے قریب ہے۔ محل (ظرف مکان) قربانی کی جگہ۔ یا (ظرف زمان) قربانی کا وقت اور مقررہ زمانہ۔ خُمّ کا لفظ تراخی کو چاہتا ہے تراخی سے مراد یا تو تاخیر وقت حقیقتہً ہے فائدہ اندوزی کا وقت بہرحال قربانی سے پہلے ہوتا ہے یا تاخیر ترتیبی مراد ہے ‘ اس وقت منافع سے مراد دنیوی فوائد ہوں گے اور قربانی ثواب آخرت کے لئے کی جاتی ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے قربانی کے جانوروں سے فائدہ اندوزی کا جواز ایک وقت مقرر تک دنیا میں بھی ہے پھر ان کی قربانی کا ثواب آخرت میں ملے گا۔ البیت العتیق سے مراد سارا حرم ہے پورا حرم انسانی ملکیت سے آزاد ہے کوئی شخص حرم کی زمین کو نہ فروخت کرسکتا ہے نہ خرید سکتا ہے گویا تمام حرم بیت اللہ کے حکم میں ہے۔ عرب بولتے ہیں بَلَغْتُ الْبلدَیعنی میں حوالئ شہر تک پہنچ گیا (شہر کے اندر داخل ہونا ضروری نہیں) ۔ بعض کے نزدیک یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ قربانیوں کے ذبح ہونے کا مقام حرم کے کناروں سے بیت عتیق ‘ کعبہ تک ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ سارا حرم قربان گاہ ہے حرم کے اندر ہر جگہ قربانی جائز ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا حاجی صرف منیٰ میں ذبح کرے اور عمرہ کرنے والا صرف مروہ میں ‘ اس کے خلاف ناجائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ ہم کہتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں قربانی کی تو اس سے باقی حرم میں قربانی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی (کہیں تو رسول اللہ ﷺ : قربانی کرتے کسی ایک جگہ قربانی کرنے سے دوسرے مقام پر ذبح کرنے کی ممانعت کیسے مستفاد ہوسکتی ہے) جب کہ کتاب اللہ اور سنت سے حرم کے اندر دوسری جگہ ذبح کرنے کا جواز موجود ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سارا منیٰ قربان گاہ ہے مکہ کے تمام پہاڑی راستے قربان گاہ ہیں کل عرفات اور سارا مزدلفہ موقف ہے (ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے) رواہ ابو داؤد و ابن ماجۃ من حدیث جابر بن عبداللہ ؓ ۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ شعائر اللہ سے مراد ہیں خصوصی دینی نشانات اور ظاہر ہے کہ خاص دینی نشانات کی تعظیم اہل تقویٰ کا ناقابل شک کردار ہے اس تفسیر پر لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ : کا رابطہ آیت (وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَام الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) سے ہوگا اور اَجَلٍ مُّسَمًّیسے مراد ہوگی موت اور محلہا سے مراد ہوگی انتہاء اور البیت سے مراد ہوگا وہ مقام رفیع جہاں تک اعمال کی رسائی ہوتی ہے یا اعمال کا ثواب ہوتا ہے۔ مطلب اس طرح ہوگا چوپایوں میں تمہارے لئے دنیوی منافع ہیں اور وقت موت تک یہ منافع حاصل ہوتے رہتے ہیں پھر ان کی انتہا اور آخری رسائی اس مقام تک ہوتی ہے جہاں تک اعمال پہنچتے ہیں۔ یا اعمال کا ثواب ہوتا ہے۔ بعض کے نزدیک شعآئر سے مراد ہیں حج کے فرائض اور حاضری کے خاص خاص مقامات جہاں دنیوی تجارتی منافع بھی وقت مقررہ یعنی وقت واپسی اور مکہ سے روانگی تک حاصل ہوتے ہیں اور مناسک حج کو ادا کرنے کا ثواب بھی ایام حج ختم ہونے تک حاصل ہوتا ہے ثم محلہا یعنی پھر احرام کھولنا۔ بیت عتیق یعنی کعبہ پر پہنچ کر قربانی کے دن طواف زیارت کرنے کے بعد ہوتا ہے۔
Top