Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
تمہیں ایک وقتِ مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں)سے فائدہ اُٹھانے کا حق ہے، 62 پھر اُن (کے قربان کرنے)کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔ 63
سورة الْحَجّ 62 پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھہرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں، جیسا کہ اہل عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ والْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ ، " اور ان بدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے " اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ بدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سواری کرنا، یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چناچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کو تَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف نہیں ہے۔ یہی بات ان احادیث سے معلوم ہوتی ہے جو اس مسئلے میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت اَنَس سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جارہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا یہ ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا " ارے سوار ہوجا "۔ مفسرین میں سے ابن عباس، قتادہ، مجاہد، ضحاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ایک وقت مقرر تک " سے مراد " جب تک کہ جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کردیا جائے " ہے۔ اس تفسیر کی رو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہدی کے نام سے موسوم نہ کر دے۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کرلے، پھر اسے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اول تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی بےمعنی ہے۔ کیونکہ " ہدی " کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر " شعائر اللہ " کا اطلاق ہو، اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے۔ دوسرے مفسرین، مثلاً عروہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ " وقت مقرر سے مراد " قربانی کا وقت " ہے۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں، ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں اور ان کا اون، صوف، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں۔ امام شافعی ؒ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ حنیفہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں، لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرط ضرورت استفادہ جائز ہے۔ سورة الْحَجّ 63 جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ھَدْیاً بَالِغَ الْکَعْبَۃِ (المائدہ۔ آیت 95) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر، یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے، بلکہ حرم کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ، یا بیت اللہ، یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرم مکہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت۔
Top