Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
تمہارے لیے ان میں ایک مقررہ وقت تک منافع ہیں پھر ان کا پہنچنا بیت عتیق تک۔
(لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی) (ان جانوروں میں تمہارے لیے ایک وقت مقرر تک منافع ہیں) یعنی جن جانوروں کو حج یا عمرہ میں ذبح کرنے کے لیے متعین فرما دیا تو اب ان سے نفع حاصل نہ کیا جائے اس سے پہلے ان کا دودھ پینے اور اس پر سواری کرنا اور ان کا اون کاٹ کر کام میں لانا جائز تھا جب اس کے لیے جہت تقرب معین کردی کہ وہ حج یا عمرہ میں ذبح کیے جائیں گے تو اب اس سے نفع حاصل نہ کیا جائے۔ زمانہ قدیم میں ھدی کے جانور ساتھ لے جایا کرتے تھے اور انہیں مکہ مکرمہ میں یا منیٰ میں ذبح کیا کرتے تھے حج تمتع والا شخص جو جانور ساتھ لے جاتا تھا کتب فقہ میں اسے متمتع سائق الھدی کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور اس کا حکم بعض امور میں متمتع غیر سائق الھدی سے مختلف ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر بڑی تعداد میں ہدی کے جانور پہلے سے ایک صحابہ (ناحیہ اسلمی ؓ کی نگرانی میں بھیج دیئے تھے اور بہت سے جانور حضرت علی ؓ یمن سے لے کر آئے تھے یہ سو اونٹ ہوگئے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اور حضرت علی ؓ نے منیٰ میں نحر فرمایا، تمتع اور قرآن والے پر اگرچہ ایک ہی دم واجب ہے لیکن جتنے بھی زیادہ جانور اللہ کی راہ میں ذبح کردیئے جائیں افضل ہے، حج افراد والے پر حج کی قربانی واجب نہیں لیکن اس کے لیے بھی مستحب ہے کہ قربانی کرے، صرف عمرہ کیا جائے تو اس میں قربانی واجب نہیں لیکن جتنے بھی زیادہ جانور اللہ کی راہ میں ذبح کردیے جائیں افضل ہے اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ عمرۃ الحدیبیہ کے موقع پر ہدی کے جانور لے گئے تھے جنہیں احصار ہوجانے پر وہیں ذبح فرما دیا۔ جب کسی جانور کو ہدی کے لیے متعین کردیا تو اب نہ اس کا دودھ نکالے نہ اون کاٹے اور نہ اس پر سواری کرے، ہاں اگر مجبوری ہوجائے کہ سواری کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا تو دوسری سواری ملنے تک اس پر سوار ہوسکتا ہے، ہدی کے جانور کے تھنوں میں اگر دودھ آجائے تو تھنوں پر ٹھنڈا پانی چھڑک دے تاکہ اوپر دودھ اترنا بند ہوجائے اور جس جانور کو ہدی کے لیے متعین کردیا ذبح کے بعد اس کی جھول اور باگ سب کو صدقہ کر دے اور گوشت کاٹنے والے کی اجرت بھی اس میں سے نہ دے بلکہ اپنے پاس سے ادا کرے یہی حکم عام قربانی کے جانور کا ہے۔ (ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ) (پھر ان جانوروں کے ذبح کرنے کی جگہ البیت العتیق کے نزدیک ہے) البیت العتیق سے پورا حرم مراد ہے، حرم میں جس جگہ بھی حج یا عمرہ سے متعلق جانور ذبح کر دے اس کی ادائیگی ہوجائے گی خارج حرم ان جانوروں کا ذبح کرنا درست نہیں ہے، دم احصار کے بارے میں (وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ ) فرمایا ہے اور احرام میں شکار کرنے پر جو جانور شکار کے عوض ذبح کیا جائے اس کے بارے میں (ھَدْیًام بالِغَ الْکَعْبَۃِ ) فرمایا ہے اور یہاں بھی عام ھدایا کی بارے میں (ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ) فرمایا ہے۔ مسئلہ : اگر ہدی نفلی ہو اور وہ راستہ میں ہلاک ہونے لگے تو اسے وہیں ذبح کر دے اور اسے نشان لگا کر فقراء کے لیے چھوڑ دے نہ خود کھائے نہ کوئی دوسرا صاحب نصاب کھائے اور نشانی کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی چپل لے اور اسے خون میں بھر کر جانور کی گردن پر مار دے تاکہ خون پھیل جائے اور جم جائے اور لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے اور اگر ہدی کا وہ جانور راستہ میں ہلاک ہونے لگے جو واجب تھا یا اس میں عیب پیدا ہوجائے جو ادائیگی واجب سے مانع ہو تو دوسرا جانور اس کے قائم مقام کر دے اور اس پہلے والے جانور کا جو چاہے کرے۔
Top