Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 33
لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۠   ۧ
لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَنَافِعُ : جمع نفع (فائدے) اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقرر ثُمَّ : پھر مَحِلُّهَآ : ان کے پہنچنے کا مقام اِلَى : تک الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : بیت قدیم (بیت اللہ)
ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) تک پہنچنا (اور ذبح ہونا) ہے
(22:33) فیھا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع کیا ہے اس کے متعلق مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اس کا مرجع بھیمۃ الانعام (آیہ 28) ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان جانوروں سے تم فائدہ اٹھا سکتے ہو ان کا دودھ پی سکتے ہو، ان پر سواری کرسکتے ہو، ان سے بچے لے سکتے ہو، ان کا گوشت کھا سکتے ہو۔ ان کی اون اور کھال سے نفع اٹھا سکتے ہو لیکن الی اجل مسمی ایک مقررہ وقت تک ۔ یعنی جب تم ان کو حرم شریف میں قربانی دینے کے لئے مقرر کردو تو پھر تم ان سے یہ منافع حاصل نہیں کرسکتے۔ لا یجوز رکوبھا ولا الحمل علیھا ولا شرط لبنھا الابضرورۃ (امام ابوحنیفہ) یعنی قربانی کے جانوروں پر سوار ہونا۔ بوجھ لادنا۔ اور ان کا دودھ پینا ۔ بجز اشد ضرورت کے جائز نہیں۔ (2) اس کا مرجع شعائر اللہ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ شعائر اللہ (آیت 32) سے مراد البدن والھدایا۔ قربانی اور بدی کے جانور ہیں۔ اور منافع سے مراد الرکوب عند الحاجۃ وشرب البانھا عند الضرورۃ ہے اور الی اجل مسمی سے مراد الی تنحر ان کے نحر ہوجانے تک ہے۔ (3) تیسری صورت یہ کہ شعائر اللہ سے مراد جملہ مناسک حج ومشاہد مکہ ہیں اور الی اجل مسمی سے مراد محلھا الی البیت یعنی تمہارے لئے ان مناسک کی ادائیگی کے دوران ثواب واجر ہے ایام حج کے ختم ہونے تک۔ جب بیت اللہ شریف میں طواف زیارت کے بعد تم احرام کھولتے ہو۔ ثم۔ پھر ۔ اس کے بعد (یعنی پہلی چیز کا دوسری چیز سے متاخر ہونا) عام طور پر الترا کی فی الرتبۃ کے لئے بھی بولا جاتا ہے ایسے موقع پر اس کے معنی ہوتے ہیں اس سے بھی بڑھ کر۔ چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :۔ فعار ثم عار ثم عار شقاء المرء من اکل الطعام شرم کی بات ہے بہت ہی شرم کی بات ہے۔ بہت ہی شرم کی بات ہے کہ آدمی کھانا کھا کر بیمار ہوجائے (بہ ترتیب سعودی) محلھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ محل ظرف مکان۔ یا اسم ظرف زمان۔ قربانی کے جانور کی حلال ہونے کی جگہ۔ قربان گاہ ۔ ذبح کرنے کا مقام۔ حدود حرم۔ اس صورت میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع البدن والھدیا (قربانی کے جانور) ہوں گے۔ الخازن لکھتے ہیں :۔ محلھا ای محل الناس من احرامہم یعنی لوگوں کے احرام کھولنے کا موقع۔ الی۔ بمعنی عند۔ نزدیک۔ الی البیت العتیق سے مراد کل حرم ہے یعنی ذبح کی جگہ حدود حرم کے اندر ہے۔ ثم محلھا الی البیت العتیق۔ پھر ان کو ذبح کرنے کا مقام یا وقت بیت العتیق کے قریب ہے۔ اور یہ (ان بھیمۃ الانعام سے) فوائد کا نقطہ عرج ہے الی اجل مسمی تک ان کے دنیوی فوائد تھے۔ یعنی ان پر سواری کرنا۔ ان کا گوشت کھانا۔ ان کا دودھ پینا ان کی اون وغیرہ سے منافع حاصل کرنا۔ اور اب قربان گاہ پر آکر ان کے منافع کی انتہا ہے۔ ان کو قربان کر کے منافع دینی یعنی ثواب اخروی حاصل ہوتا ہے اور یہ دنیوی منافع سے عظیم تر ہے ۔ علامہ عبد اللہ یوسف علی نے ثم کا ترجمہ آخر کار۔ آخر میں۔ کیا ہے۔ یعنی البدن اور الھدایا کی تعظیم ومنفعت بیان کرنے کے بعد اب آخر کار ان کو قربان گاہ لا کر ذبح کر کے تکمیل مناسک کرتا ہے۔
Top