Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: جو لوگ ایمان لائے
اجْتَنِبُوْا
: بچو
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ الظَّنِّ ۡ
: (بد) گمانیوں
اِنَّ بَعْضَ
: بیشک بعض
الظَّنِّ
: بدگمانیاں
اِثْمٌ
: گناہ
وَّلَا
: اور نہ
تَجَسَّسُوْا
: ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی
وَلَا يَغْتَبْ
: اور غیبت نہ کرو
بَّعْضُكُمْ
: تم میں سے (ایک)
بَعْضًا ۭ
: بعض (دوسرے) کی
اَيُحِبُّ
: کیا پسند کرتا ہے
اَحَدُكُمْ
: تم میں سے کوئی
اَنْ يَّاْكُلَ
: کہ وہ کھائے
لَحْمَ اَخِيْهِ
: اپنے بھائی کا گوشت
مَيْتًا
: مردہ کا
فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ
: تو اس سے تم گھن کروگے
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور اللہ سے ڈرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
تَوَّابٌ
: توبہ قبول کرنیوالا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
وہم وگمان سے بچنا چاہیے قول باری ہے (اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم۔ بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) آیت بعض گمانوں سے نہی کی مقتضی ہے۔ تمام گمانوں سے نہیں۔ کیونکہ قول باری (کثیرا من الظن) بعض کا مقتضی ہے اس کے ساتھ ہی ارشاد ہوا۔ (ان بعض الظن اثم) یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام گمانوں سے نہی نہیں کی ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔ بیشک گمان حق کے سلسلے میں کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا) نیز فرمایا (وظننتم ظن الشوء وکنتم قوما بورا۔ اور تم نے برا گمان کیا اور تم لوگ بربادہوکر رہے) ظن کی چار صورتیں ہیں ایک تو وہ ظن جس کی ممانعت ہے۔ ایک وہ ظن جس کا حکم ہے۔ ایک وہ جس کی ترغیب دی گئی ہے اور ایک وہ ظن جو مباح ہے۔ جس گمان کی ممانعت کردی گئی وہ اللہ کی ذات کے ساتھ سوء ظن کی صورت ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں معاذ بن المثنی اور محمد بن محمد بن حیان التمار نے ان دونوں کو محمد بن کثیر نے، انہیں سفیان نے اعمش سے، انہوں نے ابوسفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو آپ کی وفات سے پہلے تین دفعہ یہ فرماتے ہوئے سنا تھا (لا یموتن احدکم الاوھم یحسن الظن باللہ عزوجل تم سے کوئی شخص موت سے ہمکنار نہ ہو مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ عزوجل کی ذات سے حسن ظن رکھتا ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابوسعید یحییٰ بن منصورالہروی نے، انہیں سوید بن نصر نے انہیں ابن المبارک نے ہشاک بن الغازی سے، انہوں نے حیان بن ابی النصر سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن الاسقع ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (یقول اللہ انا عندظن عبدی بی فلیظن بی مشاء۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان پر پورا اتروں گا جو وہ میرے بارے میں رکھے گا اس لئے وہ میرے بارے میں جو گمان چاہے رکھ لے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی، انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں حماد بن سلمہ نے محمد بن واسع سے، انہوں نے شتیر بن نہار سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (حسن الظن من العبادۃ حسن ظن عبادت ہے) یہ حدیث نصربن علی کی روایت میں مرفوع ہے اور موسیٰ بن اسماعیل کی روایت میں غیر مرفوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھنا فرض ہے اور سوء ظن رکھنا ممنوع ہے۔ اسی طرح ان مسلمانوں کے بارے میں سوء ظن رکھنا ممنوع ہے جن کی ظاہر حالت ان کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں سوء ظن کی ممانعت ہے اور اس سے ہمیں روکا گیا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن محمد المروزی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے علی بن الحسین سے اور انہوں نے حضرت صفیہ ؓ سے۔ وہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں رات کے وقت آپ سے ملنے آئی، کچھ دیر تک آپ کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد واپس جانے کے لئے مڑی تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ مجھے واپس لوٹادیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ اس وقت داراسامہ بن زید میں رہتی تھیں، عین اس وقت دو انصاری شخص وہاں سے گزرے، جب انہوں نے حضور ﷺ کو دیکھا تو اپنی رفتار تیز کردی یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ۔ ٹھہرو ! میرے ساتھ یہ خاتون صفیہ بنت حی ہیں۔ “ دونوں نے یہ سن کرکہا۔ سبحان اللہ ! اللہ کے رسول آپ ﷺ یہ کیا کہتے ہیں ؟ “ ان کا مقصد یہ تھا کہ بھلا ہمیں آپ کی ذات کے متعلق کوئی شک ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا (ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم فخشیت ان یقذف فی قلوبکما شیئا اوقال سواء، شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے میں نے تمہیں روک کر یہ بات اس لئے کہی ہے کہ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ تمہارے دل کے اندر میرے بارے میں کوئی خیال پیدا نہ کردے یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ کوئی برا گمان نہ ڈال دے) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے رویت بیان کی، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں عبدالرحمن نے انہیں وہب نے، انہیں ابن طائوس نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہوتی ہے) یہ بھی ظن ممنوع کی ایک صورت ہے یعنی کسی مسلمان کے بارے میں بلاوجہ بدگمانی کرنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح ہر ایسے امر کے بارے میں بھی گمان سے کام لینا ممنوع ہے جس کی معرفت کی راہ موجود ہو اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہو جن کے بارے میں علم حاصل کرنے کی پابندی ہو کیونکہ جب ایک شخص اس امر کا پابند ہوگا تو اس کے بارے میں علم حاصل کرنے کا بھی وہ پابندہوگا اور علم تک رسائی کی خاطر اس کے لئے دلیل بھی قائم کردی گئی ہوگی۔ لیکن اگر وہ اس دلیل کو نظر انداز کرکے اپنے گمان سے کام لے گا تو اس صورت میں وہ اس حکم کا تارک سمجھا جائے گا جو اسے دیا گیا ہے۔ البتہ ایسے امور جن کے علم تک رسائی کے لئے دلیل قائم نہ کی گئی ہو اور دوسری طرف ان امور کے متعلق حکم کے نفاذ کی بھی پابندی ہو، ایسی صورت میں غالب ظن پر اقتصاد کرتے ہوئے ان پر حکم کا اجرواجب ہوگا مثلاً ہم عادل گواہوں کی گواہی قبول کرنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح سمت قبلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس کے متعلق تحری کرنے یعنی اولیٰ صورت کی جستجو کے پابند ہیں۔ نیز استعمال میں آکر ختم ہوجانے والی چیزوں کی قیمتیں لگانے اور ان جنایات یعنی جرائم کی دیتوں اور جرمانوں کی تعیین کے بھی ہم پابند ہیں جن کے بارے میں کوئی توقیف یعنی شرعی دلیل اور رہنمائی موجود نہ ہو۔ ان امور میں نیز ان جیسے دوسرے امور میں ہم غالب ظن کے مطابق حکم کے نفاذ کے پابند ہیں۔ ظن مباح کی صورت وہ ہے جب کسی شخص کو اپنی نماز کی رکعتوں کے بارے میں شک پیدا ہوجائے۔ حضور ﷺ نے ایسے شخص کو تحری کرنے اور اپنے غالب ظن پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے۔ اگر رکعتوں کی تعداد کے متعلق وہ ظن غالب سے کام لے گا تو اس کا یہہ ظن مباح ہوگا لیکن اگر وہ ظن غالب کو چھوڑ کر یقینی امر پر اپنی نماز کی بنیاد رکھے گا تو یہ بھی جائز ہوگا۔ مثلاً اسے ایک رکعت پڑھ لینے کا پکا یقین ہے۔ اگر وہ اس ایک رکعت کی بنیاد پر باقی ماندہ رکعتیں ادا کرلے گا تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے متعلق منقول وہ روایت ہے جس کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ میں نے عالیہ کے مقام میں اپنے کھجور کے درختوں کا بیس وسق کھجور تمہیں ہمبہ کے طور پردے دیا تھا (یہ بات حضرت ابوبکر ؓ نے اس وقت کہی تھی جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے) تم نے وہ کھجور نہیں اتروائے اور ان کو اپنے قبضے میں نہیں لیا اس لئے اب یہ میرے ترکہ میں شمار کیا جائے گا اور اس پر وارثین یعنی تمہارے دو بھائیوں اور دو بہنوں کا حق ہوگا۔ یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے کہا، ابا جان میری ایک ہی بہن اسماء ہے۔ یہ دوسری بہن کہاں سے آئی، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : ” میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ میری حاملہ بیوی کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دل میں پیدا ہونے والے خیال کی بنا پر اپنے اس ظن کو جائز قرار دیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں ہشام بن عمار نے عبدالرحمن بن سعد سے، انہوں نے عبداللہ بن سعید سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا ظننتم فلا تحققوا ۔ جب تم گمان کرو تو اسے حقیقت بنا ہو) یہ وہ گمان ہے جو انسان کے دل میں اپنے بھائی کے متعلق پیدا ہوکر اسے شک وشبہ میں مبتلا کردیتا ہے اس لئے انسان کو اپنے ایسے گمان کی حقیقت کا رنگ نہیں دینا چاہیے۔ جس گمان کی ہمیں ترغیب دی گئی ہے اس سے مراد وہ حسن ظن ہے جو ہم اپنے مسلمان بھائی کے متعلق اپنے دل میں رکھیں۔ اس حسن ظن کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب سوء ظن ممنوع ہے تو پھر حسن ظن واجب ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حسن ظن واجب نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک واسطہ بھی موجود ہے وہ یہ کہ انسان اپنے بھائی کے متعلق کوئی ظن نہ رکھے نہ حسن ظن اور نہ ہی سوء ظن، اس لئے جب وہ اس کے متعلق حسن ظن پیدا کرے گا تو وہ اس فعل پر عمل کرلے گا جس کی اسے ترغیب دی گئی ہے۔ خواہ مخواہ ٹوہ میں نہ پڑنا چاہیے قول باری (ولا تجسسوا اور ٹوہ میں مت لگے رہو) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابوداود نے العنیی سے، انہوں نے مالک سے، انہوں نے ابوالزناد سے، انہوں نے اعرج اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ولا تحسوا ولا تجسو بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے اور گن سن نہ لیا کرو اور نہ ہی ٹوہ میں لگے رہو) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوداود نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے، انہیں ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے زید بن وہب سے کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص کی ڈاڑھی سے شراب کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ “ آپ نے یہ سن کر فرمایا : ” ہمیں کسی کی ٹوہ لگانے سے روکا گیا ہے البتہ اگر ہمارے سامنے اس کی کوئی بات ظاہر ہوجائے گی تو اسے پکڑ لیں گے۔ مجاہد سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو بلکہ اس کی ظاہری حالت کو دیکھو، اور اس کی جس حالت پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال رکھا ہے اسے نظرانداز کردو، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے مسلمان کے بارے میں سوء ظن سے منع فرمادیا ہے جس کی ظاہری حالت اس کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہو اور دوسرے حالات پر پردہ پڑا ہوا ہو۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ جو شخص کسی پر اپنے گمان کی بنا پر تہمت وغیرہ لگائے اس کی تکذیب واجب ہے۔ ارشادباری ہے (لولا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم وقالوا ھذا افک مبین۔ جب تم لوگوں نے یہ افواہ سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا اور (یہ کیوں نہ ) کہہ دیا کہ یہ تو صریح طوفان بندی ہے) ۔ جب قاذف کی تکذیب واجب ہوگئی اور حسن ظن کا حکم دیا گیا تو یہ اس امر کا مقتضی ہوگیا کہ جس شخص کے متعلق سوء ظن کیا جائے اس کی تحقیق وتفتیش اور اس سوء ظن کے اظہار کی بھی ممانعت سے۔ نیز اس کے ٹوہ میں رہنا بھی ممنوع ہے بلکہ اہل معاصی پر اس وقت تک پردہ ڈالے رکھنے کا حکم ہے جب تک وہ ان معاصی پر اصرار نہ کریں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن فارس نے، انہیں الفریابی نے اسرائیل سے انہوں نے الولید سے (ابودائود کہتے ہیں کہ ہمیں زہیر بن حرب نے حسین بن محمد سے انہوں سے اسرائیل سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے الولید کی ولدیت بھی بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اولید بن ابی ہشام) انہوں نے زید بن زائد سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا یبلغنی احد عن احمد شیئا فانی احب ان خراج الیکم و ناسلیم الصدرلکم، کوئی شخص کسی شخص کے متعلق کوئی بات مجھے نہ پہنچائے کیونکہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں جب تم لوگوں کے پاس آئو تو میرا سینہ تمہاری طرف سے بالکل پاک ہو) یعنی تمہارے بارے میں میرے دل میں کوئی بات نہ ہو۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں مسلم بن ابراہیم نے، انہیں عبداللہ بن المبارک نے ابراہیم بن نشیط سے، انہوں نے کعب بن علقمہ سے، انہوں نے ابوالہیثم سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من رای عورۃ فسترھا کان کمن احی موودۃ، جس شخص نے کسی کے پردے کی کوئی بات کی اور اس کی پردہ پوشی کی تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے کسی زندہ دفن ہونے والی لڑکی کو زندہ کردیا) یعنی اسے اس گڑھے سے زندہ باہر نکال لیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں قتیبہ بن سعید نے، انہیں لیث نے عقیل سے ، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ، من کان فی حاجۃ اخیہ فان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ کر بۃ من کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بےیارومددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی ایک تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں قیامت کی تکلیفوں میں سے اس سے ایک تکلیف دور کردے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اوامرونواہی دیے ہیں اس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ کے اندر مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کی درستی اور بہتری پیدا ہوتی ہے اور آپس کے تعلقات کی درستی کی بنیاد پر دین اور دنیا دونوں سنور جاتے ہیں۔ باہمی تعلقات خوشگوار ہونے چاہئیں قول باری ہے (فاتقوا اللہ واصلحواذات بینکم ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات درست رکھو) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن العلاء نے ، انہیں ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے حضرت ام الداردء ؓ سے انہوں نے ابوالدرداء ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصلوٰۃ والصدقۃ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جس کا درجہ روزہ ، نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کر ہے) صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ضروربتا دیجئے۔ اس پر آپ نے فرمایا (اصلاح ذات البین وفساد ذات البینھی الحالقۃ، آپس کے تعلقات کی درستی، آپس کے تعلقات کا بگاڑ تباہی کا موجب ہے) غیبت کی ممانعت قول باری ہے (ولا یغتب بعضکم بعضا۔ اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں عبدالعزیز ترین محمد نے الحلاء سے، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ سے عرض کیا گیا۔ اللہ کے رسول ﷺ ! غیبت کسے کہتے ہیں ؟ “ آپ ﷺ نے جواب نے فرمایا (ذکرک اخاک بما یکرہ غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کی کسی ایسی بات کا ذکر کرو جسے اگر وہ سن لے تو اسے برا لگے) آپ سے عرض کیا گیا ” میں اپنے بھائی کی جس برائی کا ذکررہا ہوں اگر وہ اس کیا ندر موجود ہو تو پھر کیا حکم ہوگا۔ “ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا (ان کان فیہ ماتقول فقدا غتیتہ وان لم یکن فیہ ماتقول فقد بھتہ، اگر تمہارے بھائی کے اندر وہ بات موجود ہو جس کا تم ذکرکر رہے ہو تو یہ غیبت کی صورت ہوگی اور وہ بات سرے سے اس کے اندر موجود نہ ہو تو اس صورت میں تم اس پر بہتان طرازی کے مرتکب قرار پائو گے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابودائود نے، انہیں مسدد نے، انہیں سفیان نے علی بن الاقمر سے، انہوں نے ابو حذیفہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔ آپ کے لئے صفیہ کے فلاں فلاں نقائص کافی ہیں۔ “ مسدد کے سوا دوسرے راویوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی مراد یہ تھی کہ حضرت صفیہ ؓ قصیر القامت ہیں۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا۔” عائشہ ؓ ! تم نے ایسی بات کہی ہے کہ جسے اگر سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس پر غالب آجائے ۔ “ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے سامنے ایک دفعہ کسی شخص کے متعلق کوئی بات نقل کی جسے سن کر حضور ﷺ نے فرمایا ۔ اگر فلاں فلاں چیز کے بدلے کسی انسان کی کوئی بات مجھے نقل کی جائے تو بھی میں اسے پسند نہیں کروں گا۔ “ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں حسن بن علی نے، انہیں عبدالرزاق نے ابن جریج سے انہیں ابوالزبیر نے یہ بتایا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے چچا زاد بھائی عبدالرحمن بن الصامت نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ الا سلمی حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور اپنی ذات کے خلاف گواہی دیتے ہوئے چار دفعہ اقرار کیا کہ انہوں نے ایک عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے سلسلہ وحدیث کا ذکر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پھر حضور ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں ۔ اسلمی نے جواب دیا۔” میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں۔ “ چناچہ آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا اور نہیں رجم کردیا گیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے دوآدمیوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ اس شخص کو ذرا دیکھو، اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا لیکن اس نے اپنی جان خود گنوائی اور کتے کی طرح سنگسار ہوا۔ آپ یہ سن کر خاموش رہے پھر گھڑی بھر کے لئے اٹھ کر چل پڑے۔ آپکا گزرا ایک مردہ گدھے کے پاس سے ہوا جس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” فلاں فلاں شخص کہا ہیں ؟ “۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ ہم یہاں موجود ہیں، آپ نے فرمایا : ” نیچے اترو اور اس مردہ گدھے کا گوشت کھائو۔ “ انہوں نے حیران ہوکر عرض کیا :” اللہ کے نبی ﷺ ؟ اس کا گوشت کون کھا سکتا ہے ؟ “ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : ابھی تم نے اپنے بھائی کی عزت وابرو کو جو ٹھیس پہنچائی ہے وہ اس مردہ گدھے کا گوشت کھانے سے بھی بدتر ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمہارا بھائی اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لے لے کر نہا رہا ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے، انہیں یزید بن مرہ نے 213 ھ میں، انہیں ابن عون نے کہ کچھ لوگ ابن سیرین کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اگر ہم کوئی ایسی بات کہیں جس سے آپ کی عزت وآبرو کو ٹھیس پہنچے تو آپ ہمارے لیے اس کی حلت کردیجئے۔ ابن سیرین نے یہ سن کر کہا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے میں اسے حلال نہیں کرسکتا۔ الربیع بن صبیح نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حسن بصری سے کہا۔” ابوسعید ! میں ایک بڑی ناپسندیدہ بات دیکھ رہا ہوں۔ “ انہوں نے کہا ” کون سی بات “۔ وہ شخص کہنے لگا کہ ” میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ آپ کی مجلس میں آتے ہیں اور آپ کی گری پڑی باتیں یاد کرلیتے ہیں، پھر آپ کی نقل اتارتے ہیں اور آپ کی عیب جوئی کرتے ہیں۔ زبان خلق سے بچنا محال ہے حضرت حسن بصری یہ سن کر فرمانے لگے :” بھتیجے ! اس بات کا تم زیادہ اثر قبول نہ کرو، آئو میں تمہیں اس سے بڑھ کر عجیب بات سنائوں۔ “ اس شخص نے عرض کیا : ” چچا جان ! وہ کون سی بات ہے ؟ “ حسن بصری نے جواب دیا :” میں نے اپنے نفس کو اللہ کی ذات کے جوار ، جنت کے دخول ، جہنم کی آگ سے نجات اور انبیاء کرام کی صحبت اور رفاقت کی توقع تو دلائی ہے لیکن میں نے اسے لوگوں سے محفوظ رہنے کی کبھی توقع نہیں دلائی ہے۔ اس لئے کہ اگر لوگوں سے کوئی شخص محفوظ رہ سکتا تو یقینا ان کا خالق بھی ان سے محفوظ رہتا جس نے انہیں پیدا کیا۔ جب خالق محفوظ نہیں مخلوق بطریق اولیٰ محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں الحارث بن ابی اسامہ نے، انہیں دائود بن المجبر نے انہیں عنبسہ بن عبدالرحمن نے، انہیں خالد بن یزید الیمامی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (کفارۃ الاغتیاب ان تستغفرلمن اغتبتسہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم نے جس کی غیبت کی ہے اس کی بخشش کی دعامانگو۔ ) قول باری ہے (ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ۔ کیا تم میں سے کوئی یہ گوارا کرلے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، اس سے ضرور تمہیں کراہت آتی ہے) اس میں کئی وجوہ سے غیبت کی قباحت کی تاکید اور اس سے باز رہنے کی تلقین ہے۔ اول یہ کہ انسان کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اسی طرح غیبت بھی حرام ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان فطری طور پر انسان کا گوشت کھانے سے نفرت کرتا ہے اس لئے لوگوں کے نزدیک غیبت کی بھی یہی حیثیت ہونی چاہیے اور عقلی جہت سے غیبت سے پرہیز لازم ہونا چاہیے۔ کیونکہ عقلی اسباب کی پیروی طبعی اسباب کی پیروی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف مردہ انسان کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے بھائی قرار دیا اس میں غیبت کی قباحت اجاگر کرنے اور اس سے باز رہنے کی تلقین کے انداز بیان میں زیادہ بلاغت موجود ہے یہ سب کچھ اس مسلمان کی غیبت کرنے کے بارے میں ہے جس کی ظاہری حالت اس کی عدالت اور سلامت روی کی نشاندہی کرتی ہو اور ا س سے کوئی ایسی بات ظاہر نہ ہوئی ہو جو اس کی تفسیق کی موجب بنتی ہو۔ ایسے مسلمان کے قاذف کی تکذیب بھی ہم پر واجب ہے۔ لیکن مقذوف اگر فاسق اور عیب زدہ ہو تو اس صورت میں اس کے قبیح افعال کا ذکر ممنوع نہیں ہے اور سننے والے پر قائل کی نکیر بھی واجب نہیں ہے۔ فاسق اور عیب زدہ انسان کا ایسے انداز میں تذکرہ جو اسے پسند نہ ہو دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کے قبیح افعال کا ذکر کیا جائے دوسرے یہ کہ اس کی شکل وشباہت کے بھدے پن کا جو جسمانی طور پر اس کے اندر موجود ہو تذکرہ کیا جائے۔ اور اس کے ذریعے اس کی کمینگی اور پستی کا اظہار مقصود ہو۔ اس کی مذمت اور اس کے صانع یعنی اللہ تعالیٰ پر نکتہ چینی مقصود نہ ہو جیسا کہ ہم نے حسن بصری کے وہ الفاظ نقل کیے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے حجاج کی بدصورتی اور اس کے جسمانی نقائص کا ذکر کیا تھا۔ اگر کسی قوم اور برادری کے بعض نقائص اور عیوب کی اجمالی انداز میں نشاندہی کی جائے تو اس کا جواز ہوتا ہے ۔ لیکن متعین شخص کے بارے میں یہ نشاندہی غیبت کے ذیل میں آتی ہے جس کی ممانعت ہے۔ اگر صورت حال کی وضاحت کے لئے کسی عیب یا نقص کی عمومی انداز میں نشاندہی کی جائے تو یہ غیبت کے ذیل میں نہیں آئے گی۔ جس طرح ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے اس عورت کو دیکھ بھی لیا ہے کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ یعنی ان کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کے یہ الفاظ غیبت کے ذیل میں نہیں آتے کیونکہ اس میں صورت حال کی وضاحت مقصود تھی اس کے برعکس حضرت عائشہ ؓ نے جب ایک شخص کے قد کی پستی کا ذکر کیا جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک روایت میں ذکر کر آئے ہیں تو حضور ﷺ نے اسے غیبت شمار کیا کیونکہ یہ بات اس کے ایک عیب کی نشاندہی کے طور پر کی گئی تھی۔ تعریف یعنی صورت حال کی وضاحت کے طور پر کہی گئی بات غیبت میں داخل نہیں ہوتی جیسا کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تمہاری جنگ ایک ایسی قوم سے نہ ہوجائے جن کے چہرے چوڑے ، کان چھوٹے اور ناک چپٹی ہوگی۔ چہرے ایسے ہوں گے گویا کہ زمین پر پڑی ہوئی ڈھالیں ہیں۔ “ حضور ﷺ کے یہ الفاظ غیبت میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کے ذریعے صحابہ کے سامنے ایک قوم کی ساخت اور ان کی کیفیت کی وضاحت کی گئی ہے۔
Top