Anwar-ul-Bayan - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اجْتَنِبُوْا : بچو كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ الظَّنِّ ۡ : (بد) گمانیوں اِنَّ بَعْضَ : بیشک بعض الظَّنِّ : بدگمانیاں اِثْمٌ : گناہ وَّلَا : اور نہ تَجَسَّسُوْا : ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی وَلَا يَغْتَبْ : اور غیبت نہ کرو بَّعْضُكُمْ : تم میں سے (ایک) بَعْضًا ۭ : بعض (دوسرے) کی اَيُحِبُّ : کیا پسند کرتا ہے اَحَدُكُمْ : تم میں سے کوئی اَنْ يَّاْكُلَ : کہ وہ کھائے لَحْمَ اَخِيْهِ : اپنے بھائی کا گوشت مَيْتًا : مردہ کا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ : تو اس سے تم گھن کروگے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمٌ : مہربان
اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو، بلاشبہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور تجسس نہ کرو، اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کریں، کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو تم اس کو برا سمجھتے ہو، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے۔
پانچویں نصیحت : پھر فرمایا ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ﴾ (اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچو) ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ (بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) بات یہ ہے کہ بد گمانی بہت سے گناہوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے بہت سے لوگوں میں وہ بات ہوتی ہی نہیں جسے محض اٹکل و گمان سے طے کرلیا جاتا ہے اور پھر اپنے گمان کے مطابق تہمتیں لگاتے ہیں اور غیبتیں کرتے ہیں بد گمانی کی بنیاد پر جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ آگے بڑھتی ہیں اس سے آپس میں فتنہ فساد پیدا ہوتا ہے حالانکہ گمان اپنا ایک ذاتی خیال ہوتا ہے خیال کا صحیح ہونا ضروری نہیں اسی لیے سورة النجم میں فرمایا ہے ﴿ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا ﴾ (گمان حق کے بارے میں کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا) مومنین سے اچھا گمان رکھیں اور بدگمانی سے پرہیز کریں ایک حدیث میں ارشاد ہے : اِیَّاكمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَكذَبُ الْحَدِیْثِ (یعنی گمان سے بچو کیونکہ گمان سب باتوں سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح 427) یاد رہے کہ اگر کسی شخص سے کچھ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس سے میل جول میں احتیاط کرنا اور اس کے شر سے بچنے کے لیے یہ خیال کرنا کہ ممکن ہے کہ یہ مجھے کوئی تکلیف پہنچا دے یہ اس گمان میں نہیں آتا جو گناہ ہے اپنی احتیاط کرلے غیبت نہ کرے اور گمان کو یقین کا درجہ بھی نہ دے۔ آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ بعض گمان گناہ نہیں ہوتے بلکہ محمود اور مستحسن بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھے کہ وہ بخش دے گا معاف فرما دے گا اور ساتھ ہی گناہوں سے بھی پرہیز کرتا رہے نیز مسلمانوں کے ساتھ خاص کر جو مومنین صالحین ہوں اچھا گمان رکھا جائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ (کہ حسن ظن عبادت کی ایک صورت ہے) (مشکوٰۃ المصابیح 479 از احمد و ابو داؤد) البتہ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ایسے احوال اور ایسے مواقع سے بچیں جن کی وجہ سے دیکھنے والوں کو اور ساتھ رہنے والوں کو بدگمانی ہوسکتی ہے اپنے اعمال و احوال، چال ڈھال اوراقوال میں ایسا انداز اختیار نہ کرے جس سے لوگوں کی بدگمانی کا شکار ہوجائے کیونکہ لوگوں کی نظروں میں برا بن کر رہنا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ چھٹی نصیحت : یوں فرمائی ﴿ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا ﴾ (اور تم تجسس نہ کرو) یعنی لوگوں کے عیوب کا سراغ نہ لگاؤ اور اس تلاش میں نہ رہو کہ فلاں شخص میں کیا عیب ہے اور تنہائی میں کیا عمل کرتا ہے یہ تجسس کا مرض بھی بہت برا ہے بہت سے لوگ اس میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ اس کا وبال بہت بڑا ہے دنیا اور آخرت میں اس کی سزا مل جاتی ہے اور تجسس کرنے والا ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے، بہت سی مرتبہ تجسس میں بد گمانی کو استعمال کرنا پڑتا ہے جس کی ممانعت ابھی معلوم ہوئی، مومن کا کام یہ ہے کہ اگر اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب دیکھے تو اسے چھپائے نہ یہ کہ کسی کے عیب کے پیچھے پڑے اور ٹوہ لگائے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی کی کوئی ایسی چیز دیکھ لی جس کے ظاہرہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تو پھر اس کو چھپالیا تو اس کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ جیسے کسی نے زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کو زندہ کردیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 434) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لے گئے اور بلند آواز سے پکار کر فرمایا کہ اے وہ لوگو جو زبانی طور پر مسلمان ہوگئے اور ان کے دلوں میں ایمان نہیں پہنچا مسلمانوں کو تکلیف نہ دو اور انہیں عیب نہ لگاؤ ان کے چھپے ہوئے حالات کی تلاش میں نہ لگو کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پوشیدہ عیب کے ظاہر ہونے کے پیچھے پڑتا ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ اس کے چھپے ہوئے عیب کا پیچھا کرتا ہے یہاں تک کہ اسے رسوا کرتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو۔ (رواہ الترمذی) یاد رہے کہ جس طرح سے کسی کے عیب یا گناہ یا بدحالی کا پتہ چلایا جائے یہ سب تجسس میں داخل ہے چھپ کر باتیں سننا یا اپنے کو سوتا ہوا ظاہر کرکے کسی کی باتیں معلوم کرلینا یہ سب تجسس ہے جو ممنوع ہے۔ ساتویں نصیحت : یہ فرمائی ﴿ وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ﴾ (کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو) مزید فرمایا ﴿اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠﴾ (کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تم ناگوار سمجھتے ہو) یعنی غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے جیسے تمہیں مردہ بھائی کا گوشت کھانا گوارا نہیں اسی طرح غیبت کرنا بھی ناگوار ہونا لازم ہے، بات یہ ہے کہ غیبت بہت بری بلا ہے نمازی اور تقویٰ کے دعویدار اور اپنی بزرگی کا گمان رکھنے والے تک اس میں مبتلا ہوتے ہیں دنیا میں کچھ محسوس نہیں ہوتا قیامت کے دن جب اتنی چھوٹی سی زبان کی کھیتیاں کاٹنی پڑیں گی اس وقت احساس ہوگا کہ ہائے ہم نے کیا کیا لیکن اس وقت کا پچھتانا کچھ کام نہ دے گا اب اس بات کو سمجھیں کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے سوال فرمایا کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا (ذِكرُك أَخَاک بِمَا یَكرَہُ ) کہ تمہارا اپنے بھائی کو اس طرح یاد کرنا کہ اسے برا لگے یہ غیبت ہے ایک شخص نے عرض کیا کہ جو بات میں بیان کر رہا ہوں اگر وہ میرے بھائی کے اندر موجود ہو تو اسے بیان کرنے کے بارے میں کیسا ارشاد ہے ؟ فرمایا اگر تیرے بھائی میں وہ عیب کی بات موجود ہے جسے تو بیان کر رہا ہے تب ہی تو غیبت ہوئی اور اگر تو نے کوئی بات بیان کی جو اس کے اندر نہیں ہے تب تو تو نے اس پر بہتان باندھا۔ (رواہ مسلم ص 323، ج 2) حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ کسی کا واقعی عیب یا گناہ بیان کرنا ہی غیبت ہے اگر جھوٹی بات کسی کے ذمہ لگا دی تو وہ تہمت دھرنا اور اس میں دو گنا گناہ ہے ایک گناہ تہمت دھرنے کا دوسرا غیبت کرنے کا رسول اللہ ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ اپنے بھائی کو ایسے طریقہ پر یاد کرنا جس سے اسے ناگواری ہو اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ سامنے کہنا بھی غیبت ہے اور تہمت دھرنا بھی غیبت میں شامل ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں سننے والے کو ناگوار ہوتی ہیں، غیبت کی بنیاد یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں کچھ کہا جا رہا ہے وہ اسے برا لگے سامنے ہو یا پیچھے غیبتیں کرتے ہیں پھر یوں کہہ دیتے ہیں کہ میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں میں اس کے منہ پر کہہ سکتا ہوں حدیث بالا سے ان کی جرات بےجا کا پتہ چلا، ایسے لوگ نفس اور شیطان کے دھوکے میں ہیں، گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں جس کا عذاب اور وبال بہت بڑا ہے اور سمجھتے یوں ہیں کہ ہم گناہ سے بری ہیں اللہ تعالیٰ شانہٗ سمجھ دے۔ غیبت کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے بھی ہے اس اعتبار سے غیبت سے بچنے کا اہتمام کرنا بہت زیادہ ضروری ہے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شخص زنا کرلیتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے اور اگر کوئی شخص غیبت کرلے تو اس وقت تک اس کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 415) بات یہ ہے کہ غیبت کرنے میں حق اللہ اور حق العبد دونوں کا ضائع کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے چونکہ غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اس لیے غیبت کرنا حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور چونکہ بندہ کی بھی بےآبروئی کی ہے اس لیے اس کا حق بھی ضائع کیا اس کا نام احترام سے لیا جاتا ہے کم از کم اس کی برائی نہ کی جاتی جب غیبت کرلے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگ لے البتہ بعض اکابر نے یہ فرمایا ہے کہ اگر اسے اطلاع پہنچ گئی ہو تو معافی مانگ لے اور اگر اطلاع نہ پہنچی ہو تو اس کے لیے اتنی بار مغفرت کی دعا کرے کہ دل یہ گواہی دے دے کہ غیبت کی تلافی ہوگئی، ایک حدیث میں ہے کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تو اس کے لیے استغفار کرے جس کی غیبت کی ہے اور یوں دعا کرے ﴿اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہٗ﴾ اے اللہ ہماری اور اس کی مغفرت فرما دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 415) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات کو مجھے معراج کرائی گئی ایسے لوگوں پر میرا گزر ہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی بےآبروئی کرتے تھے۔ (رواہ ابو داؤد 313 ج 2) غیبت کرنے والے آیت کریمہ اور احادیث شریف کے مضامین پر اور اس سلسلہ کی وعیدوں پر غور کریں۔ جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کر رہا ہو تو سننے والے پر لازم ہے کہ اس کا کاٹ کرے اور جس کی غیبت ہو رہی ہے اس کی طرف سے دفاع کرے۔ حضرت اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی مسلمان اپنے بھائی کی آبرو کی طرف سے دفاع کرے اللہ تعالیٰ شانہٗ کے ذمہ ہوگا کہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ کو اس سے دور رکھے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ ﴿ وَ كَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ 0047﴾ تلاوت فرمائی۔ (ذكر ھما صاحب المشکوٰۃ 424) اور حضرت معاذ بن انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی منافق کی باتوں سے کسی مومن کا دفاع کیا اللہ تعالیٰ شانہٗ قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کے گوشت کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا اور جس کسی شخص نے مسلمان میں کوئی عیب ظاہر کیا اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کے پل پر روک دے گا جب تک اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل جائے یعنی معافی مانگ کر اسے راضی نہ کرلے جس کو عیب دار بتایا تھا۔ (رواہ ابو داؤد 313 ج 2) اور حضرت جابر اور ابو طلحہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی مسلمان کی کسی جگہ بےحرمتی کی جا رہی ہو اور اس کی آبرو گھٹائی جا رہی ہو اور وہاں جو شخص موجود ہو اس کی مدد نہ کرے (یعنی برائی کرنے والے کو اس کے عمل سے نہ روکے) اللہ تعالیٰ ایسی جگہ میں اسے بغیر مدد کے چھوڑ دے گا جہاں وہ اپنی مدد کا خواہش مند ہوگا اور جس کسی نے مسلمان کی ایسی جگہ مدد کی جہاں اس کی آبرو گھٹائی جا رہی ہو اور بےحرمتی کی جا رہی ہو اللہ تعالیٰ اس شخص کی ایسی جگہ میں مدد فرمائے گا جہاں وہ اپنی مدد کا خواہش مند ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 424) ان روایات سے معلوم ہوا کہ غیبت کرنا بھی حرام ہے اور غیبت سننا بھی حرام ہے اگر کسی کے سامنے کوئی شخص کسی کی غیبت کرنے لگے تو اس کا دفاع کرے۔ یہ جو ارشاد فرمایا ﴿ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠﴾ اس بارے میں حدیث شریف میں ایک واقعہ مروی ہے اور وہ یہ کہ ایک صحابی نے زنا کرلیا تھا جن کا نام ماعز ؓ تھا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے ایسا کیا ہے پھر ان کو سنگسار کردیا گیا ایک شخص نے اپنے ساتھی سے راہ چلتے ہوئے کہا دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی لیکن اس سے رہا نہ گیا یہاں تک کہ کتے کی طرح اس کی رجم کی گئی یعنی پتھروں سے مارا گیا، رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن لی اور خاموشی اختیار فرمائی پھر کچھ دور آگے بڑھے تو ایک مردہ گدھے پر گذر ہوا جو اوپر کو ٹانگ اٹھائے ہوئے تھا آپ نے فرمایا فلاں فلاں کہاں ہیں (ایک بات کہنے والا دوسرا سننے والا) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم حاضر ہیں، فرمایا تم دونوں اترو اور اس مردار گدھے کی نعش سے کھاؤ انہوں نے عرض کیا رسول اللہ اس میں سے کون کھا سکتا ہے آپ نے فرمایا وہ جو ابھی ابھی تم نے اپنے بھائی کی بےآبروئی کی ہے وہ اس گدھے کی نعش کھانے سے زیادہ سخت ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے بیشک وہ اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔ (رواہ ابو داؤد ص 252 ج 2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردہ شخص کی غیبت کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ زندہ کی غیبت کرنا حرام ہے۔ فائدہ : یہ ضروری نہیں کہ زبان سے جو غیبت کی جائے وہی غیبت ہو آنکھ کے اشارہ سے ہاتھ کے اشارہ سے نقل اتارنے سے بھی غیبت ہوتی ہے کسی کی اولاد میں عیب نکالے کسی کی بیوی کا کوئی عیب بیان کردے اس میں ڈبل غیبت ہے باپ کی بھی اور اولاد کی بھی اور بیوی کی بھی اور شوہر کی بھی، بہت سے لوگوں کو غیبت کا ذوق ہوتا ہے جس سے ملتے ہیں جہاں ملتے ہیں کسی نہ کسی کا برائی سے تذکرہ کردیتے ہیں اور آخرت کے عذاب سے بچنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ آٹھویں نصیحت : پھر فرمایا ﴿وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ (اور اللہ سے ڈرو) اس میں سب گناہوں سے بچنے کا حکم فرما دیا اور ساتھ ہی ﴿اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ0012﴾ بھی فرمایا کہ بلاشبہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے۔ جس کسی سے جو گناہ ہوگیا ہو اس سے توبہ کرے اور کسی بندہ کا کوئی حق مار لیا ہو غیبت کی ہو بےآبروئی کی ہو اس سے بھی معاف کرالے اللہ تعالیٰ مہربانی فرمائے گا معاف فرما دے گا۔
Top