Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: جو لوگ ایمان لائے
اجْتَنِبُوْا
: بچو
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ الظَّنِّ ۡ
: (بد) گمانیوں
اِنَّ بَعْضَ
: بیشک بعض
الظَّنِّ
: بدگمانیاں
اِثْمٌ
: گناہ
وَّلَا
: اور نہ
تَجَسَّسُوْا
: ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی
وَلَا يَغْتَبْ
: اور غیبت نہ کرو
بَّعْضُكُمْ
: تم میں سے (ایک)
بَعْضًا ۭ
: بعض (دوسرے) کی
اَيُحِبُّ
: کیا پسند کرتا ہے
اَحَدُكُمْ
: تم میں سے کوئی
اَنْ يَّاْكُلَ
: کہ وہ کھائے
لَحْمَ اَخِيْهِ
: اپنے بھائی کا گوشت
مَيْتًا
: مردہ کا
فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ
: تو اس سے تم گھن کروگے
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور اللہ سے ڈرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
تَوَّابٌ
: توبہ قبول کرنیوالا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اے ایمان والو ! بچتے رہو بہت تہمتیں کرنے سے مقرر بعضی تہمت گناہ ہے اور بھید نہ ٹٹولو کسی کا اور برا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کا، بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گھن آتا ہے تم کو اس سے اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ معاف کرنیوالا ہے مہربان۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں (اس لئے ظن و گمان کی جتنی قسمیں ہیں ان سب کے اقسام کے احکام کی تحقیق کرلو کہ کون سا گمان جائز ہے کون سا ناجائز، پھر جائز کی حد تک رہو) اور (کسی کے عیب کا) سراغ نہ لگایا کرو اور کوئی کسی کی غیبت بھی نہ کیا کرے (آگے غیبت کی مذمت ہے کہ) کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھالے اس کو تو تم (ضرور) برا سمجھتے ہو (تو سمجھ لو کہ کسی بھائی کی غیبت بھی اسی کے مشابہ ہے) اور اللہ سے ڈرتے رہو (غیبت چھوڑ دو توبہ کرلو) بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
معارف و مسائل
یہ آیت بھی باہمی حقوق اور آداب معاشرت کے متعلق احکام پر مشتمل ہے اس میں بھی تین چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اول ظن جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ دوسرے تجسس یعنی کسی پوشیدہ عیب کا سراغ لگانا، تیسرا غیبت یعنی کسی غیرحاضر آدمی کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا جس کو اگر وہ سنتا تو اس کو ناگوار ہوتی۔ پہلی چیز یعنی ظن کے معنی گمان غالب کے ہیں، اس کے متعلق قرآن کریم نے اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ ”بہت سے گمانوں سے بچا کرو“ پر اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ”بعض گمان گناہ ہوتے ہیں“ جس سے معلوم ہوا کہ ہر گمان گناہ نہیں تو یہ ارشاد سننے والوں پر اس کی تحقیق واجب ہوگئی کہ کون سے گمان گناہ ہیں تاکہ ان سے بچیں اور جب تک کسی گمان کا جائز ہونا معلوم نہ ہوجاوے اس کے پاس نہ جائیں۔ علماء و فقہا نے اس کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ قرطبی نے فرمایا کہ ظن سے مراد اس جگہ تہمت ہے یعنی کسی شخص پر بغیر کسی قوی دلیل کے کوئی الزام عیب یا گناہ کا لگانا، امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں ایک جامع تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ ظن کی چار قسمیں ہیں ایک حرام ہے دوسری ماموربہ اور واجب ہے، تیسری مستحب اور مندوب ہے چوتھی مباح اور جائز ہے، ظن حرام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی رکھے کہ وہ مجھے عذاب ہی دے گا یا مصیبت ہی میں رکھے گا اس طرح کہ اللہ کی مغفرت اور رحمت سے گویا مایوس ہے حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
لا یموتن احد کم الا وھو یحسن اظن باللہ
تم میں سے کسی کو اس کے بغیر موت نہ آنی چاہئے کہ اس کا اللہ کے ساتھ اچھا گمان ہو
اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد آیا ہے کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ انا عند ظن عبدی بی، یعنی اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جیسا وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے اب اس کو اختیار ہے کہ میرے ساتھ جو چاہے گمان رکھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے اور بدگمانی حرام ہے۔ اسی طرح ایسے مسلمان جو ظاہری حالت میں نیک دیکھے جاتے ہیں، ان کے متعلق بلا کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث، یعنی گمان سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہے۔ یہاں ظن سے مراد باتفاق کسی مسلمان کے ساتھ بلا کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا ہے اور جو کام ایسے ہیں کہ ان میں کسی جانب پر عمل کرنا شرعاً ضروری ہے اور اس کے متعلق قرآن و سنت میں کوئی دلیل واضح موجود نہیں، وہاں پر ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے۔ جیسے باہمی منازعات و مقدمات کے فیصلہ میں ثقہ گواہوں کی گواہی کے مطابق فیصلہ دینا کیونکہ حاکم اور قاضی جس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہے اس پر اس کا فیصلہ دنیا واجب و ضروری ہے اور اس خاص معاملے کے لئے کوئی نص قرآن و حدیث میں موجود نہیں تو ثقہ آدمیوں کی گواہی پر عمل کرنا اس کے لئے واجب ہے اگرچہ یہ امکان و احتمال وہاں بھی ہے کہ شاید کسی ثقہ آدمی نے اس وقت جھوٹ بولا ہو اس لئے اس کا سچا ہونا صرف ظن غالب ہے اور اسی پر عمل واجب ہے۔ اسی طرح جہاں سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور کوئی ایسا آدمی بھی نہ ہو جس سے معلوم کی جاسکے وہاں اپنے ظن غالب پر عمل ضروری ہے اسی طرح کسی شخص پر کسی چیز کا ضمان دینا واجب ہوا تو اس ضائع شدہ چیز کی قیمت میں ظن غالب ہی پر عمل کرنا واجب ہے اور ظن مباح ایسا ہے جیسے نماز کی رکعتوں میں شک ہوجاوے کہ تین پڑھی ہیں یا چار تو اپنے ظن غالب پر عمل کرنا جائز ہے اور اگر وہ ظن غالب کو چھوڑ کر امر یقینی پر عمل کرے یعنی تین رکعت قرار دے کر چوتھی پڑھ لے تو یہ بھی جائز ہے اور ظن مستحب و مندوب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ نیک گمان رکھے کہ اس پر ثواب ملتا ہے (جصاص ملخصاً)
قرطبی نے فرمایا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) لولا اذسمعتموہ ظن المومنون و المومنت بانفسہم خیرا، اس میں حسن ظن بالمومنین کی تاکید آئی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ ان من الحزم سوء الظن یعنی احتیاط کی بات یہ ہے کہ ہر شخص سے بدگمانی رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ ایسا کرے جیسے بدگمانی کی صورت میں کیا جاتا ہے کہ بدون قوی اعتماد کے اپنی چیز کسی کے حوالہ نہ کرے نہ یہ کہ اس کو چور سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو چور یا غدار سمجھے بغیر اپنے معاملہ میں احتیاط برتے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے۔
نگہ دار وآں شوخ در کیسہ در
کہ داند ہمہ خلق را کیسبہ بر
دوسری چیز جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے تجسس یعنی کسی کے عیب کی تلاش اور سراغ لگانا ہے۔ اس میں قراتیں دور ہیں ایک لاتجسسوا بالجیم دوسرے لاتحسسوا بالحاء اور حدیث صحیحین میں جو حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے یہ دونوں لفظ آئے ہیں ارشاد ہے لاتجسسوا ولا تحسسوا اور ان دونوں لفظوں کے معنی متقارب ہیں، اخفش نے دونوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ تجسس بالجیم کسی ایسے امر کی جستجو اور تلاش کو کہا جاتا ہے جس کو لوگوں نے آپ سے چھپایا ہو اور تجسس بالحاء مطلق تلاش اور جستجو کے معنی میں آیا ہے۔ سورة یوسف میں (آیت) تحسسوا من یوسف و اخیہ اسی معنی کے لئے آیا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو چیز تمہارے سامنے آجائے اس کو پکڑ سکتے ہو اور کسی مسلمان کا جو عیب ظاہر نہ ہو اس کی جستجو اور تلاش کرنا جائز نہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔
لاتغتابوا المسلمین ولا تتبعوا عوراتھم فان من اتبع عوراتہم یتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ (قرطبی)
مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب کی تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیب کی تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کی تلاش اللہ تعالیٰ کرے اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کردیتا ہے
بیان القرآن میں ہے کہ چھپ کر کسی کی باتیں سننا یا اپنے کو سوتا ہوا بنا کر باتیں سننا بھی تجسس میں داخل ہے البتہ اگر کسی سے مضرت پہنچنے کا احتمال ہو اور اپنی یا دوسرے کسی مسلمان کی حفاظت کی غرض سے مضرت پہنچانے والے کی خفیہ تدبیروں اور ارادوں کا تجسس کرے تو جائز ہے۔ تیسری چیز جس سے اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے وہ کسی کی غیبت کرنا ہے، یعنی اس کی غیر موجودگی میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات کہنا جس کو وہ سنتا تو اس کو ایذا ہوتی اگرچہ وہ سچی بات ہی ہو کیونکہ جو غلط الزام لگائے وہ تمہمت ہے جس کی حرمت الگ قرآن کریم سے ثابت ہے اور غیبت کی تعریف میں اس شخص کی غیر موجودگی کی قید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ موجودگی کی حالت میں ایسی رنجیدہ بات کہنا جائز ہے کیونکہ وہ غیبت تو نہیں مگر لمز میں داخل ہے جس کی حرمت اس سے پہلی آیت میں آ چکی ہے۔
(آیت) اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا، اس آیت نے کسی مسلمان کی آبرو ریزی اور توہین و تحقیر کو اس کا گوشت کھانے کی مثال و مشابہ قرار دیا ہے اگر اس کے وہ شخص سامنے ہو تو ایسا ہے جیسے کسی زندہ انسان کا گوشت نوچ کر کھایا جائے، اس کو قرآن میں بلفظ لمز تعبیر کر کے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی گزرا لا تلمزوا انفسکم اور آگے آئے گا (آیت) ویل لکل ھمزة لمزة اور وہ آدمی غائب ہو اس کے پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہنا جس سے اس کی آبرو میں خلل آئے اور اس کی تحقیر ہو یہ ایسا ہے جیسے کسی مردہ انسان کا گوشت کھایا جائے کہ جیسے مردہ کا گوشت کھانے سے مردے کو کوئی جسمانی اذیت نہیں ہوتی ایسے ہی اس غائب کو جب تک غیبت کی خبر نہیں ہوتی اس کو بھی کوئی اذیت نہیں ہوتی مگر جیسا کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھاناحرام اور بڑی خست و دناءت کا کام ہے اسی طرح غیبت حرام بھی ہے اور خست و دناءت بھی کہ پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہنا کوئی بہادری کا کام نہیں۔
اس آیت میں ظن اور تجسس اور غیبت تین چیزوں کی حرمت کا بیان ہے مگر غیبت کی حرمت کا زیادہ اہتمام فرمایا کہ اس کو کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس کی حرمت اور خست و دنائت کو واضح فرمایا، حکمت اس کی یہ ہے کہ کسی کے سامنے اس کے عیوب ظاہر کرنا بھی اگرچہ ایذا رسانی کی بنا پر حرام ہے مگر اس کی مدافعت وہ آدمی خود بھی کرسکتا ہے اور مدافعت کے خطرہ سے ہر ایک کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور وہ عادةً زیادہ دیر رہ بھی نہیں سکتا بخلاف غیبت کے کہ وہاں کوئی مدافعت کرنے والا نہیں ہر کمتر سے کمتر آدمی بڑے سے بڑے کی غیبت کرسکتا ہے اور چونکہ کوئی مدافعت نہیں ہوتی اس لئے اس کا سلسلہ بھی عموماً طویل ہوتا ہے اور اس میں ابتلاء بھی زیادہ ہے اس لئے غیبت کی حرمت زیادہ موکد کی گئی اور عام مسلمانوں پر لازم کیا گیا کہ جو سنے وہ اپنے غائب بھائی کی طرف سے بشرط قدرت مدافعت کرے اور مدافعت پر قدرت نہ ہو تو کم از کم اس کے سننے پر پرہیز کرے کیونکہ غیبت کا بقصد و اختیار سننا بھی ایسا ہی ہے جیسے خود غیبت کرنا۔
غیبت کے متعلق مسائل
حضرت میمون ؒ نے فرمایا کہ ایک روز خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک زنگی کا مردہ جسم ہے اور کوئی کہنے والا ان کو مخاطب کر کے یہ کہہ رہا ہے کہ اس کو کھاؤ، میں نے کہا کہ اے خدا کے بندے میں اس کو کیوں کھاؤں تو اس شخص نے کہا اس لئے کہ تو نے فلاں شخص کے زنگی غلام کی غیبت کی ہے۔ میں نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے تو اس کے متعلق کوئی اچھی بری بات کی ہی نہیں تو اس شخص نے کہا کہ ہاں، لیکن تو نے اس کی غیبت سنی تو ہے اور تو اس پر راضی رہا، حضرت میمون کا حال اس خواب کے بعد یہ ہوگیا کہ نہ خود کبھی کسی کی غیبت کرتے اور نہ کسی کو اپنی مجلس میں کسی کی غیبت کرنے دیتے تھے۔
حدیث میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ شب معراج کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لیجایا گیا تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور بدن کا گوشت نوچ رہے ہیں، میں نے جبرئیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت کرتے اور ان کی آبرو ریزی کرتے تھے (رواہ البغوی، مظہری) اور حضرت ابوسعید اور جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، الغیبتہ اشدمن الزنا، یعنی غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ کیسے، تو آپ نے فرمایا کہ ایک شخص زنا کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے اور غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کی غیبت کی گئی ہے (رواہ الترمذی و ابوداؤد، از مظہری)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس میں حق اللہ کی بھی مخالفت ہے اور حق العبد بھی ضائع ہوتا ہے اس لئے جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معاف کرانا ضروری ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ غیبت کی خبر جب تک صاحب غیبت کو نہ پہنچے اس وقت تک وہ حق العبد نہیں ہوتی اس لئے اس سے معافی کی ضرورت نہیں (نقلہ فی الروح عن الحسن و الخیاطی و ابن الصباغ و النووی و ابن الصلاح و الزرکشی و ابن عبدالبر عن ابن المبارک) مگر بیان القرآن میں اس کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس صورت میں گو اس شخص سے معافی مانگنا ضروری نہیں مگر جس شخص کے سامنے یہ غیبت کی تھی اس کے سامنے اپنی تکذیب کرنا یا اپنے گناہوں کا اقرار کرنا ضروری ہے اور اگر وہ شخص مر گیا ہے یا اس کا پتہ نہیں تو اس کا کفارہ حضرت انس کی حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان من کفارة الغیبة ان یستغفر لن اغتابہ تقول اللھم اغفرلنا ولہ (رواہ البیہقی، مظہری) یعنی کفارہ غیبت کا یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرے اور یوں کہے کہ یا اللہ ہمارے اس کے گناہوں کو معاف فرما۔
مسئلہبچے اور مجنون اور کافر ذمی کی غیبت بھی حرام ہے کیونکہ اس کی ایذا بھی حرام ہے اور جو کافر حربی ہیں اگرچہ ان کی ایذا حرام نہیں مگر اپنا وقت ضائع کرنے کی وجہ سے پھر بھی غیبت مکروہ ہے۔
مسئلہغیبت جیسے قول اور کلام سے ہوتی ہے ایسے ہی فعل یا اشارہ سے بھی ہوتی ہے جیسے کسی لنگڑے کی چال بنا کر چلنا جس سے اس کی تحقیر ہو۔
مسئلہبعض روایات سے ثابت ہے کہ آیت میں جو غیبت کی عام حرمت کا حکم ہے یہ مخصوص البعض ہے یعنی بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوئی ہے مثلاً کسی شخص کی برائی کسی ضرورت یا مصلحت سے کرنا پڑے تو وہ غیبت میں داخل نہیں بشرطیکہ وہ ضرورت و مصلحت شرعاً معتبر ہو جیسے کسی ظالم کی شکایت کسی ایسے شخص کے سامنے کرنا جو ظلم کو دفع کرسکے، یا کسی کی اولاد و بیوی کی شکایت اس کے باپ اور شوہر سے کرنا جو ان کی اصلاح کرسکے، یا کسی واقعہ کے متعلق فتویٰ حاصل کرنے کے لئے صورت واقعہ کا اظہار یا مسلمانوں کو کسی شخص کے دینی یا دنیوی شر سے بچانے کے لئے کسی کا حال بتلانا، یا کسی معاملے کے متعلق مشورہ لینے کے لئے اس کا حال ذکر کرنا، یا جو شخص سب کے سامنے کھلم کھلا گناہ کرتا ہے اور اپنے فسق کو خود ظاہر کرتا پھرتا ہے اس کے اعمال بد کا ذکر بھی غیبت میں داخل نہیں مگر بلا ضرورت اپنے اوقات ضائع کرنے کی بنا پر مکروہ ہے (یہ سب مسائل بیان القرآن میں بحوالہ روح المعانی بیان کئے گئے ہیں) اور ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ کسی کی برائی اور عیب ذکر کرنے سے مقصود اس کی تحقیر نہ ہو بلکہ کسی ضرورت و مجبوری سے ذکر کیا گیا ہو۔
Top