Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: جو لوگ ایمان لائے
اجْتَنِبُوْا
: بچو
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ الظَّنِّ ۡ
: (بد) گمانیوں
اِنَّ بَعْضَ
: بیشک بعض
الظَّنِّ
: بدگمانیاں
اِثْمٌ
: گناہ
وَّلَا
: اور نہ
تَجَسَّسُوْا
: ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی
وَلَا يَغْتَبْ
: اور غیبت نہ کرو
بَّعْضُكُمْ
: تم میں سے (ایک)
بَعْضًا ۭ
: بعض (دوسرے) کی
اَيُحِبُّ
: کیا پسند کرتا ہے
اَحَدُكُمْ
: تم میں سے کوئی
اَنْ يَّاْكُلَ
: کہ وہ کھائے
لَحْمَ اَخِيْهِ
: اپنے بھائی کا گوشت
مَيْتًا
: مردہ کا
فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ
: تو اس سے تم گھن کروگے
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور اللہ سے ڈرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
تَوَّابٌ
: توبہ قبول کرنیوالا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ کرنے والا اور رحیم ہے۔
یایھا الذین امنوا اجتنبوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اللہ تواب رحیم (49 : 12) “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ کرنے والا اور رحیم ہے ”۔ یہ آیت اس فاضلانہ معاشرہ کی حفاظت کے لئے ایک دوسری باڑ ہے۔ جس میں ایک فرد کی آزادی اور اس کی عزت محفوظ ہوتی ہے ، اسی طرح ان کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے شعور اور اپنے ضمیر کا اظہار کس طرح کریں گے۔ اور دوسروں کے بارے ان کی سوچ آئندہ کیا ہوگی۔ یہ نہایت ہی موثر انداز میں بیان ہوا ہے۔ اس کا آغاز بھی اس پیاری آواز سے ہوتا ہے “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ”۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں بہت زیادہ گمان اور برے گمان کرنے سے باز رہو۔ کسی کے بارے میں اپنے فیصلے شکوک و شبہات پر نہ کرو ۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے۔ ان بعض الظن اثم (49 : 12) “ کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ” ۔ زیادہ زور بعض الظن پر ہے۔ یعنی بعض گمان گناہ ہوتے ہیں یعنی بد گمانی گناہ ہے۔ کیونکہ کوئی یہ معلوم تو نہیں کرسکتا کہ میرا کون سا ظن صحیح اور کون سا غلط ہے لہٰذا کسی پر کوئی بد گمانی نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان ہی رکھنا چاہئے اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے دلوں کو صاف رکھنا چاہئے ۔ اور جس سوسائٹی میں ایک دوسرے کے خلاف شکوک و شبہات نہ ہوں اس میں لوگوں کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوتے ہیں۔ کوئی کسی پر شک ، نہیں کرتا۔ ہر شخص دوسرے سے مطمئن ہوتا ہے اور ایسے معاشرے میں زندگی کس قدر خوشی سے گزرتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اسلام کے روشن معاشرے میں یہ اصول صرف انفرادی تعامل ہی میں مروج نہیں ہے ، بلکہ یہ اجتماعی معاملات میں بھی ایک اہم اصول ہے۔ اور اس سے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسلام کے پاکیزہ معاشرے میں کسی کو محض شک اور شب ہے کی بنیاد پر نہیں پکڑا جاتا ، نہ شبہات کی بنیاد پر مقدمے قائم کئے جاتے ہیں۔ شک کی بنا پر لوگوں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسا جاتا۔ بلکہ شک کی بنیاد پر کسی کو دائرہ تفتیش میں لانا بھی جرم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ اگر تم نے بدگمانی شروع کردی تو پھر کوئی تفتیش نہیں ہے ”۔ (طبرانی) یعنی اگر کوئی تفتیش بھی کرتا ہے تو لوگوں کو بےگناہ سمجھ کر تفتیش شروع کرو ، ان کی آزادی بحال ہو ، ان کے حقوق محفوظ ہوں۔ ان کا اعتبار و وقار بحال ہو۔ کسی کو اس وقت پکڑا جائے جب اچھی طرح معلوم ہو کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ محض تفتیش اور شک کے لئے کسی کو ہراساں نہیں کیا جاسکتا۔ سبحان اللہ ، کیا مقام بلند ہے جہاں تک یہ آیت انسانی آزادیوں ، انسانی حقوق ، انسانی اعتماد و اعتبار ، اور انسانی وقار کو پہنچاتی ہے۔ اس مقام تک آج کے نام نہاد مہذب اور جمہوری معاشرے بھی نہیں پہنچ سکتے جہاں تک اسلام نے عملاً ایک سوسائٹی کے ضمیر کو پہنچایا ، پھر یہ معیار عملاً ایک سوسائٹی میں قائم کیا اور آج سے چودہ سو سال قبل۔ اسی اصول کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے شک کے دائرے کو اور محدود کیا جاتا ہے۔ ولا تجسسوا (49 : 12) “ تجسس نہ کرو ”۔ بسا اوقات تجسس بدگمانی ہی کے نتیجے میں ہوتا ہے اور بعض اوقات لوگوں کے راز معلوم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اور لوگوں کی کمزوریاں معلوم کرنے کے لئے۔ قرآن کریم اس گھٹیا حرکت کو اخلاقی نقطہ نظر سے لیتا ہے۔ اور لوگوں کے دلوں کو اس قسم کے برے خیالات سے پاک کرتا ہے کہ کوئی کسی کے خفیہ حالات معلوم کرے اور اس کی کمزوریوں کے ٹوہ میں لگا رہے کیونکہ اخلاقی تطمیر میں اس کے مقاصدیہی ہیں کہ لوگوں کی پوشیدہ کمزوریوں کو نہ اچھالا جائے۔ لیکن یہ اصول محض اخلاقی ضابطے سے بھی آگے جاتا ہے۔ اس کا تعلق اجتماعی پاکیزگی اور قانونی اور انتظامی معاملات سے بھی ہے۔ اسلام میں لوگوں کی بعض آزادیاں ، بعض عزتیں اور بعض شرافتیں ایسی ہیں کہ ان پر کسی صورت میں دست درازی جائز نہیں ہے۔ اسلام کے فا ضلانہ معاشرے میں لوگوں کی جان ، ان کی چار دیواری ، ان کے راز ، ان کی خفیہ کمزوریاں محفوظ ہوتے ہیں۔ کسی وجہ سے بھی کوئی کسی کی جان ، کسی کے گھر ، کسی کے رازوں اور کسی کی کمزوریوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ یہاں تک کہ اسلام میں ادارۂ تحقیق و تفتیش جرائم کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ تجسس کرے۔ اسلام لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہری حالات کے مطابق برتاؤ کرتا ہے اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اندرونی حالت معلوم کرے۔ اسلام ظاہری جرائم اور خلاف ورزیوں ہی پر پکڑتا ہے۔ کسی کو ظن یا توقع پر نہیں پکڑا جاتا کہ ان لوگوں نے جرم کیا ہے یا کرنے والے ہیں۔ اسلام میں پکڑ دھکڑ ، ارتکاب جرم کے بعد ہے۔ اس طرح گرفتاری کے لئے دوسرے تحفظات ہیں جو ہر جرم کے لئے علیحدہ ہیں۔ امام ابو داؤد نے روایت کی ہے ، ابوبکر ابن شیبہ سے انہوں نے ابو معاویہ سے انہوں نے اعمش سے انہوں نے زید ابن وہب سے ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود آئے۔ ان سے کہا گیا یہ فلاں ہے اور اس کی داڑھی سے شراب کے قطرے گر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں تو تجسس سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر کوئی چیز ہم پر ظاہر ہوگئی کہ اس کا ارتکاب کیا گیا ہے تو ہم پکڑتے ہیں۔ اور مجاہد نے کہا کہ تجسس نہ کرو ، لوگون کو ان کے ظاہری افعال پر پکڑو۔ جو بات اللہ نے چھپا دی ہے اسے چھپا رہنے دو ۔ امام احمد نے دجین کاتب عقبہ سے روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عقبہ سے کہا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں۔ میں ان کے خلاف پولیس کو بلانے والا ہوں کہ ان کو پکڑ لیں تو حضرت عقبہ نے کہا کہ ایسا نہ کرو ، بلکہ ان کو نصیحت کرو اور دھمکی دو ۔ کہتے ہیں انہوں نے ایسا کیا ، وہ باز نہ آئے تو دجین پھر ان کے پاس آئے کہ میں نے تو انہیں روکا وہ نہ روکے۔ اب تو میں ان کے لئے پولیس بلانے ہی والا ہوں۔ اس کو عقبہ نے کہا ، تم ہلاک ہوجاؤ ! ایسا نہ کرو ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے “ جس نے ایک مومن کی پردہ پوشی کی اس نے گویا ایک زندہ درگور کی ہوئی لڑکی کو قبر سے نکال لیا ”۔ (ابو داؤد سجستانی ) سفیان ثوری نے راشد ابن سعد سے ، انہوں نے حضرت معاویہ ابن ابو سفیان سے ، روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو یہ کہتے سنا “ تم اگر لوگوں کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں لگو گے تو ان کو برباد کر دو گے یا قریب ہے کہ ان کو برباد کر دو ”۔ اس پر حضرت ابو الدرداء نے کہا یہ ایک بات ہے جو حضرت معاویہ ؓ نے حضور ﷺ سے سنی ، اللہ اسے اس کے ذریعہ نفع دے۔ (ابو داؤد) اس طرح قرآن کریم کی یہ آیت اسلام کے سیاسی نظام کی ایک دستوری دفعہ بن گئی اور محض اخلاقی اور روحانی اصلاح پر مشتمل ایک وعظ ہی نہ رہی بلکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق اور ان کی شخصی آزادیوں کے لئے ایک تحفظ بن گئی اور اسلامی قانون اور دستور میں ان کے حقوق کا ایسا تحفظ کیا گیا کہ دور اور قریب سے اور کسی بھی بہانے سے ان پر دست درازی ممکن ہی نہ رہی۔ یہ دور رس حقوق کہاں ؟ یہ بلند افق کہاں ؟ اور وہ حقوق کہاں جن پر آج کی مغربی جمہوری حکومتیں بغلیں بجاتی ہیں ۔ وہ کہاں ؟ اور وہ بھی چودہ سو سال کے بعد۔ اس کے بعد ایک عجیب انداز گفتگو میں اور نہایت ہی انسانی اور اخلاقی اسلوب میں قرآن کریم غیبت اور بدگوئی کی ممانعت کرتا ہے۔ ولا یغتب بعضکم ۔۔۔۔۔ فکرھتموہ (49 : 12) “ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟ دیکھو ، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو ” ۔ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ اس کے بعد ایک ایسا منظر پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے نہایت سنگدل آدمی بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ ایک بھائی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کا کھا رہا ہے۔ یہ منظر دکھا کر کہا جاتا ہے۔ اگر تم نے اس منظر کو ناپسند کیا ہے تو پھر تم نے غیبت کو بھی ناپسند کیا۔ اس آیت میں جو جو چیزیں ممنوع قرار دی گئیں ان پر ایک جامع تبصرہ ۔ یعنی بدگمانی ، تجسس اور غیبت کہ خدا سے ڈرو اور اشارہ اس طرف کہ اگر کسی نے اپنی غلطی کی ہے تو معافی مانگو اور طلب مغفرت کرو۔ واتقو اللہ ان اللہ تواب رحیم (49 : 12) “ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے ”۔ یہ آیت جماعت مسلمہ کی زندگی میں خون کی طرح دوڑتی ہے اور اس سوسائٹی میں تمام بنیادی حقوق کی محافظ بن جاتی ہے۔ اور انسانی خیالات و تصورات کے لئے ایک انداز فکر بن جاتی ہے۔ اور اسلامی اخلاق کے لئے طرز عمل بن جاتی ہے اور قرآن ہی کے انداز میں حضور اکرم ﷺ بدظنی ، تجسس اور غیبت کے تصور اور تخیل ہی سے لوگوں کو ڈراتے ہیں۔ امام ابوداؤد نے روایت کی ہے قعبی سے انہوں نے عبد العزیز ابن محمد سے انہوں نے عبد سے ، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ، وہ کہتے ہیں ، کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ غیبت کی حقیقت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : “ تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو کہ وہ اسے ناپسند کرے ” تو کہا گیا کہ اگر میں ایسی بات کروں جو اس میں فی الواقعہ ہو ، تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اس میں وہ بات ہے جو تم کرتے ہو تو تم نے غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان باندھا (ترمذی ، احمد) امام ابو داؤد نے روایت کی ، مسدد سے ، انہوں نے یحییٰ سے ، انہوں نے سفیان سے ، انہوں نے علی ابن اقمر سے ، انہوں نے ابو حذیفہ سے ، اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے ، وہ کہتی ہیں ، میں نے نبی ﷺ سے کہا ، آپ کے لئے صفیہ کی یہ یہ باتیں کافی ہیں (مسدود نے کہا ان کا مقصد ان کی کوتاہیوں سے تھا) اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : “ تم نے ایسی بات کی ہے اگر تم اسے سمندر میں ملاؤ تو اس کا رنگ بدل جائے ”۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا “ اور میں نے ان کے سامنے ایک انسانی کی باتیں کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا “ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں کسی انسان کی حکایت کروں اور مجھے یہ ، یہ ملے ”۔ امام اوداؤد نے حضرت انس ابن مالک سے روایت کی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ جب مجھے معراج کا سفر کرایا گیا تو میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا ، ان کے ناخن تانبے کے ہیں جن سے وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے ہیں۔ میں نے کہا : “ یہ کون لوگ ہیں جبرائیل (علیہ السلام) ! فرمایا ، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی بےعزتی کرتے ہیں ”۔ جب ماعز اور غامدیہ نے زنا کا اعتراف کرلیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے رجم کے احکام دے دئیے ، کیونکہ انہوں نے اقرار کیا ، پھر اقرار پر اصرار کیا اور کہا کہ ہمیں پاک کردیں۔ حضور ﷺ نے ایک شخص کو سنا جو دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ کیا تو نے ان دونوں کو نہیں دیکھا کہ ان دونوں کے گناہ کو اللہ نے چھپایا لیکن ان کے نفوس نے ان کو تب چھوڑا کہ کتوں کی طرح پتھروں سے ہلاک کر دئیے گئے۔ اس کے بعد حضور ﷺ آگے گئے۔ راستے میں ایک گدھے کی لاش پڑی ہوئی تھی آپ نے فرمایا کہ “ فلاں فلاں کہاں ہیں ؟ ” ان دونوں سے کہا اترو ، اور اس مردار گوشت کو کھاؤ ”۔ تو انہوں نے کہا ، رسول خدا اللہ آپ کو معاف کرے کیا مردار گدھے کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ یہ تم نے جو اپنے بھائی کا گوشت کھایا ، ابھی ، یہ تو اس سے مشکل کام تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ شخص تو اس وقت جنت کی نہروں میں ڈبکیاں لے رہا ہے ”۔ (ابن کثیر) اس قسم کی مسلسل تربیت کے ذریعے ہی اسلامی سوسائٹی کی تطہیر کی جاتی رہی اور وہ پاک ہو کر ایک بلند مقام تک پہنچی ۔ یہ ایک انسانی خواب تھا جو اسلامی تاریخ ہی میں حقیقت بنا۔ ٭٭٭ اہل ایمان کو اس میٹھی آواز سے بار بار پکارنے کے بعد ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، ان کو انسانیت کے روشن افق پر ، انسان کے نفسیاتی آداب کے زاویہ سے ، اجتماعی آداب کے حوالے سے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے انسانی عزت ، آبرو ، آزادی کی ضمانتوں اور گاڑنٹی کے حوالے سے نہایت ہی بلندیوں تک پہنچا کر ، ان کی حساسیت کو نہایت تیز کر کے اور خدا خوفی اور خشیت الٰہی کے ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد اب روئے سخن پوری انسانیت کی طرف ہے۔ پوری انسانیت ، مختلف رنگوں ، مختلف نسلوں ، مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں کے لوگوں کی طرف دیکھو تمہاری اصل تو ایک ہے ، تمہاری اصل قدریں بھی ایک ہیں۔ اور انہی قدروں کی بدولت صحابہ کرام ؓ کی یہ جماعت ان بلندیوں تک پہنچی۔
Top