Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: جو لوگ ایمان لائے
اجْتَنِبُوْا
: بچو
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ الظَّنِّ ۡ
: (بد) گمانیوں
اِنَّ بَعْضَ
: بیشک بعض
الظَّنِّ
: بدگمانیاں
اِثْمٌ
: گناہ
وَّلَا
: اور نہ
تَجَسَّسُوْا
: ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی
وَلَا يَغْتَبْ
: اور غیبت نہ کرو
بَّعْضُكُمْ
: تم میں سے (ایک)
بَعْضًا ۭ
: بعض (دوسرے) کی
اَيُحِبُّ
: کیا پسند کرتا ہے
اَحَدُكُمْ
: تم میں سے کوئی
اَنْ يَّاْكُلَ
: کہ وہ کھائے
لَحْمَ اَخِيْهِ
: اپنے بھائی کا گوشت
مَيْتًا
: مردہ کا
فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ
: تو اس سے تم گھن کروگے
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور اللہ سے ڈرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
تَوَّابٌ
: توبہ قبول کرنیوالا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اے ایمان والو ! بیشتر بدگمانیوں سے بچتے رہو بلاشبہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں اور کسی کے کھوج میں نہ لگے رہا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، تم میں سے کسی کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ سو اسکو تو تم بہت ناگوار سمجھتے ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا پیار کرنے والا ہے
اے ایمان والو ! بدگمانیوں سے باز رہو لاریب بعض بدگمانیاں بڑا گناہ ہیں 12 ۔ ایمان والوں کو مخاطب کرکے مزید ہدایات دی جارہی ہیں اور فرمایا جارہاے کہ ایمان والو بدگمانیوں سے بچو۔ اب معلوم کرنا ہے کہ بدگمانی کیا ہے ؟ بدگمانی ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو ہر ایک کے کام میں بدنیتی معلوم ہوتی ہے اور کسی کے کام میں اس کو حسن نیت نظر نہیں آتا دوسروں کی طرف ان ہوئی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کا خیال ہوتا ہے اور وہ بھی اس سے کترانے لگتے ہیں اس سے آپس میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس سے باز رہنے کی تاکید کی ہے جیسا کہ زیر نظر آیت میں بیان کیا ہے کہ ” اے مسلمانو ! بدگمانی سے بچا کرو بلاشبہ بعض بدگمانی بہت بڑا گنا ہے “ نبی اعظم وآخر ﷺ نے جب بدگمانی سے بچنے کی تاکید کی تو اس کے ساتھ بغض و حسد اور دوسرے معاملات کے تجسس و تلاش کی بھی ممانعت فرمائی کیونکہ وہ بدگمانی کے اسباب یا لازمی نتائج ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ” تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ، تم دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی بےجا ہوس کرو اور آپس میں حسد نہ رکھو اور نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! جیسا اللہ نے فرمایا ہے آپس میں بھائی بھائی ہوجائو “ (صحیح بخاری و مسلم ، ابودائود ، ترمذی ، مالک باب تحریم الظن) یہ بھی مناسب ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کام کررہا ہو یا کسی ایسی حالت میں ہو جس سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع ہو تو وہ اس بدگمانی کو دور کردے تاکہ دوسرا فتنہ میں نہ پڑے اس کی مثال خود نبی اعظم و آخر ﷺ نے پیش فرمائی ہے ایک دفعہ آپ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے تھے رات کو ازواج مطہرات ؓ میں سے کوئی آپ سے بات کرنے آئیں آپ ﷺ واپسی پہ ان کے ساتھ گھر تک چلے گئے کہ کہ اتفاقاً راستہ میں دو انصارف آگئے وہ آپ ﷺ کو کسی عورت کے ساتھ دیکھ کر اپنے آپ کو بےموقع سمجھے اور واپس بھرنے لگے آپ ﷺ نے فوراً آواز دی اور فرمایا یہ میری فلاں بیوی ہے انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ اگر مجھے کسی کے ساتھ بدگمانی بھی کرنا ہوتی تو کیا آپ ﷺ کے ساتھ کرتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے بندے ! شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑ جاتا ہے۔ “ (صحیح مسلم باب انہ یستحب لمن روی خالیا بامراۃ یقول ھذہ فلانۃ) جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز قبل فرمایا تھا کہ : ( لایموتن احد کم الا وھو یحسن الظن باللہ عزوجل) ” تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ رب کریم کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو “ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا : (یقول اللہ انا عندالظن عبدی بی فلیطن ماشاء ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔ اب اس کی مرضی کہ جیسا چاہے میرے ساتھ ظن رکھے ۔ زیر نظر آیت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ (فلاتجسسوا) تم جاسوسی نہ کیا کرو ، تم ایک دوسرے کا کھوج نہ لگایا کرو۔ فعل نہی ہے اور مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر اس کا مادہ ج س سس ہے اور تجسس جس سے ماخوذ ہے جس کے اصل معنی صحت یا مرض کو معلوم کرنے کے ہیں جس بنسبت حس کے خاص ہے کیونکہ حس کے معنی ہیں ہم نے اس چیز کو پہچانا جو بذریعہ حس معلوم ہوسکے اور جس کے معنی ہیں ایک خاص حالت کا پتہ چلانا۔ اللہ تعالیٰ نے کس وضاحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ اے مسلمانو ! ایک دوسرے کے راز نہ ٹٹولو ، ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو ، دوسروں کے نجی معاملات و حالات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو۔ حکم عام ہے اور کسی حالت میں بھی مسلمانوں کے اندرونی معاملات کی ٹوہ لگانا ایک بہت بڑا عیب ہے۔ یہ حرکت بدگمانی کی بنا پر کی جائے تو بری ہے ، بدینی سے کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جائے تو بری ہے اور اگر محض اپنا استعجاب دور کرنے کے لیے کی جائے تو بھی بری ہے مسلمانوں کے مابین اس کا استعمال کسی حال میں بھی جائز اور درست نہیں ہے۔ ہاں ! انسان اپنے بارے میں تجسس کرے اور اپنی ٹوہ لگائے ، اپنے نفس کا استعجاب ، اپنی ذات کے بارے میں کرے تو یہ یک خوبی کی بات ہے اگر اللہ توفیق دے تو ایسا کرے لیکن ایسا کوئی شخص کم ہی کرے گا بلکہ اکثر ہوتا وہی ہے جس سے منع کیا گیا ہے اور بدقسمتی سے آج یہ بیماری اتنی عام ہے کہ ہر آدمی دوسرے کی ٹوہ میں ہے یہاں تک کہ ماں بیٹی کی ٹوہ میں اور بیٹی ماں کی ٹوہ میں ، بہو ساس کی ٹوہ میں اور اس بہو کی ٹوہ میں ، بھائی بھائی کی ٹوہ میں مختصر یہ کہ ہر ایک دوسرے کی ٹوہ میں مصروف ہے اور پھر کوئی نہیں جو اس ٹوہ کو برا کہے ، برا جانے ، برا سمجھے جن باتوں کے متعلق منع کیا گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منع نہیں بلکہ ان کے کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے اور جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہم کو منع کیا گیا ہے کہ ان کے قریب بھی نہ جائیں بدقسمتی سے ہمارا معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا ہے حکومت کے ایوانوں سے لے کر مسجد و منبر تک سارا معاملہ ہی گڑ بڑ ہے حکومت جس کے کرنے کا اعلان کرتی ہے اس کے بالکل برعکس لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت یہ بلکل نہیں کرے گی اور حکومت جس کی نفی کرتی ہے کہ ہم لوگ یہ نہیں ہونے دیں گے بالکل وہی ہوتا ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ حکومت انہیں کاموں کو کرنا چاہتی ہے مثلاً آپ آٹھ دس سال کے دور کا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ حکومت نے اعلان کیا کہ ہم مساوات قائم کریں گے اور بنیادی ضروریات سب کی یکساں پوری ہوں گی نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے لوگوں کی بنیادی ضروریات اور چھوٹے لوگوں کی بنیادی ضروریات میں زمین و آسمان کا فرق ہوگیا اور یہ فرق اتنا واضح اتنا صاف اور نمایاں ہے کہ آج کسی کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہا بنیادی ضروریات روٹی ، کپڑا اور مکان تسلیم کیا گیا ہے بڑوں کی میزوں پر ایک وقت میں بلا مبالغہ بیسیوں کھانے چنے جاتے ہیں اور چھوٹوں کو صحت مند آٹے کی روٹی بھی میسر نہیں۔ بڑوں کے کپڑے ملک سے باہر کا کپڑا ، باہر کی سلائی ، باہر کی دھلائی اور باہر کے طریقوں کے مطابق زیب تن ہوتے ہیں اور عوام کا سارا انحصار لنڈے بازار پر ہے بڑوں کے پاس اپنے ملک کے سارے بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی کو ٹھیاں موجود ہیں ، پشاور سے کراچی تک محلات ہی محلات ہیں جن میں الو بولتے ہیں اور ایک ہو کا عالم ہے تہ خانے ہیں اور بالا خانے ہیں اور غریبوں کے پاس ایک مربع مٹر فی کس جگہ بھی موجود نہیں کہ رات کو آرام کے ساتھ سر چھپالیں اور یہی حال باقی ضروریات زندگی کا ہے گویا جس چیز کو عام کرنا تھا اسی کو عنقا کردیا گیا ہے اور امن عامہ کو بحال کرنا تھا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا امن تو بحال نہ ہوسکا لیکن امرا کا اپنا امن بی بحال نہ رہا اور اب کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کس وقت کیا ہونا ہے۔ شاید آپ کہیں گے کہ جس تجسس سے روکا گیا ہے وہی تجسس ہم نے کرنا شروع کردیا ہے گویا ہم بھی اسی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کے سا رے لوگ مرتکب ہیں ؟ جو باتیں ہم نے بیان کی ہیں ان میں سے کون سی بات ہے جس کو تجسس اور ٹوہ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا حقیقت کو بیان کرنا جس کو بچے سے لے کر بوڑھے تک سب دیکھ رہے ہیں اور سب جانتے ہیں اس کا نام تجسس ہے ؟ تجسس اور ٹوہ تو اس کی کی جاتی ہے جس کو کوئی عام صورتحال میں جانتا ہی نہ ہو۔ جس پھل کی آپ بات کرتے ہیں وہ پھل تو بازاروں میں عام پڑا ہے بلکہ گھر گھر دروازے پر جاکر دینے والے دے رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اس پھل کی ہم ٹوہ لگا رہے ہیں کہ کہاں سے ملتا ہے ؟ میرے بھائی ٹوہ تو اس کی لگائی جاتی ہے جو بظاہر کہیں نظر نہ آئے اور اس کے لیے کھوج لگانا پڑے کہ وہ کہاں سے اور کیسے ملے گا ؟ میرے بھائی ! یہ تجسس اور ٹوہ نہیں بلکہ یہ تو تجسس کرنے والوں پر نوحہ خوانی ہے اور ماتم ہے اور آہ وفغاں ہے واویلا ہے اور تجسس کرنے والے ہمارے تجسس میں ہیں کہ کہیں مل جائے تو اس کا دایاں بازو کاٹ کر رکھ دیں تاکہ مزید کچھ لکھ نہ سکے اور زبان اس کی کھینچ دیں تاکہ وہ کچھ بول نہ سکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو تجسس اور ٹوہ سے بچائے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے عیب ہی تلاش نہ کرتے رہیں بلکہ وہ بات کہیں جوہر جگہ عام دیکھنے میں آرہی ہے اور وہ اتنی عام ہے کہ جس کے سر میں دماغ ہے اور آنکھوں میں بینائی وہ اس کو ہر جگہ ، ہر فرد ، ہر جماعت ، ہر گوہ یہاں تک کہ وہ سارے رہنمائوں ، لیڈروں ، حکمرانوں ، پیروں ، بزرگوں اور مرشدوں میں عام تام پائی جاتی ہے حالانکہ اس کو عام لوگوں میں بھی پایا نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ یہ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے عیب کی بات ہے اور پھر عیب کو اگر کوئی چھپ کر کر رہا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی جانتا ہی نہ ہو اور اتفاقاً کسی کی نظر پڑجائے تو اس پر پردہ ڈال دینا عیب پر پردہ ڈال دینا کہلاتا ہے چلو اس کو برداشت کرلینا چاہیے یا کہنا ہے تو صرف اسی کو کہنا چاہیے لیکن اگر عیب سربازار ہو اور سارے لوگ کھلے بندوں کر رہے ہوں تو اس کو دیکھ کر اگر کوئی واویلا شروع کردے تو اس کو تجسس سے تعبیر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس پر خاموش رہنا گونگا شیطان کہلانا ہوگا اللہ ہمیں سمجھ کی توفیق فرمائے اور اس عیب کو عیب سمجھنے کی توفیق دے اور اگر ہم میں بھی پایا جاتا ہے تو اس سے باز رہنے میں ہماری رہنمائی فرمائے سامعین اور قارئین کو بھی اس پر آمین ہی کہنا چاہیے کہ اے اللہ ! ہماری اس دعا کو قبول فرما۔ تجسس کی ممانعت میں ایک روایت ہمارے سید مودودی (رح) نے اپنی تفسیر ج 5 کے ص 89 پر نقل کی ہے جس کی ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئے مرحوم نے فرمایا ہے کہ ” شریعت نے نہی عن المنکر کا جو فریضہ حکومت کے سپرد کیا ہے اس کا تقاضا یہ نہیں کہ وہ جاسوسی کا ایک نظم قائم کرکے لوگوں کی چھپی برائیاں ڈھونڈ کر نکالے اور ان پر سزا دے بلکہ اسے صرف ان برائیوں کے خلاف طاقت استعمال کرنی چاہیے جو ظاہر ہوجائیں رہی مخفی خرابیاں تو ان کی اصلاح کا راستہ جاسوسی نہیں بلکہ تلقین ، وعظ اور عوام کی اجتماعی تربیت ہے “ اور جس روایت سے استد لال کرکے یہ فرمایا ہے وہ روایت محض روایت ہی ہے اگر اس کو صحیح سمجھ کر سید صاحب (رح) کی بتائی ہوئی بات اور اس کے نتیجہ کو صحیح مان لیا جائے تو نہ صرف دین اسلام کی پوری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سیدنا عمر فاروق ؓ کے کردار پر بھی حرف آتا ہے اور ان کی تفہیم بھی سطحی اور عوامی تفہیم کہی جاسکتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دین کے معاملہ میں جتنی نظر عمر فاروق ؓ کی عمیق اور گہری ہے دوسرے لوگوں میں اس کی مثال نہیں دی جاسکتی اگر روایت صحیح ہے تو اس کے مطالب درست ہوسکتے ہیں جو عین کتاب و سنت کے موافق ہیں ورنہ سید صاحب (رح) کا مطلب شریعت اسلامی کے قانون کے بالکل منافی ہے سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ موصوف نے اس سے جو نتیجہ نکالا ہے اس سے آپ کیسے مطمئن ہوئے اور اس سے کیا بات آپ نے ثابت کی ؟ زیر نظر آیت میں تیسرا حکم غیبت سے بچنے کا ہے اس لیے سمجھ لنیا چاہیے کہ غیبت کیا ہے ؟ قارئین کرام ! آپ میں اور دوسرے سب لوگ انسان ہیں اس لیے ہم اتنی بات تو سمجھتے ہیں کہ انسانی کمزوریاں اور انسانی خوبیاں کیا چیز ہیں پھر ہم سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ کمزوریاں ذاتی ہوتی ہیں جن کا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ نہیں ہے اور کچھ کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا تعلق پورے معاشرہ کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ تعلق اتنا عام ہوتا ہے کہ دوسروں کے تعلق کے بغیر اس کی کمزوری کا پتہ ہی نہیں چل سکتا بس اس بات سے آپ سمجھ لیں کہ اگر کسی کے ایسے عیب کا ذکر کیا جائے جو اس کی ذات تک محدود ہے دوسروں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تو اس کا بیان کرنا اس کی عدم موجودگی میں ہو یا موجودگی میں غیبت کہلائے گا لیکن اگر اس کے عیب کا تعلق دوسرے لوگوں سے ہو یہاں تک کہ دوسروں کے تعلق کے بغیر وہ عیب معلوم ہی نہیں ہوسکتا اور کرنے والے میں یہ عام طور پر پایا جاتا ہے تو اس کو اس غرض سے بیان کرنا تاکہ دوسرے اس کے اس عیب کے شر سے بچ جائیں تو یہ غیب کے ضمن میں نہیں آئے گا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین نہ کی جائے تو آدمی غیبت کا مفہوم نہیں سمجھ سکتا اور خود مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں اس لیے غیبت کے مفہوم کے لیے یہ وہ کسوٹی ہ کے جس کو کم ہی لوگ جانتے ہیں کیونکہ غیبت کے مفہوم میں میں نے یہ کہیں نہیں پڑھا کہ کسی نے اس کی ایسی تعریف کی ہو جس سے ہر انسان فوراً سمجھ جائے کہ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں کیا غیبت کے ضمن میں آتی ہے یا نہیں ؟ لہٰذا وہ بہت سی باتیں کرجاتا ہے جو فی الحقیقت غیبت کے ضمن میں آتی ہیں اور بہت سی ایسی باتیں نہیں کرتا جو غیبت کے ضمن میں نہیں آتیں لیکن اس کے باوجود وہ اس کو غیبت سمجھ کر چھوڑتا ہے یہ جواب ہے اس سوال کا کہ غیبت کیا ہے ؟ اب اس کی وضاحت کریں گے تاکہ بات ذرا مزید واضح ہوجائے فرض کیجئے کہ میرے جسم میں کوئی عیب ہوے جس کو میرے لباس نے چھپا دیا ہے لیکن آپ کی اتفاقی نظر اس کو پا گئی ہے اور آپ اس کو اگر میرے سامنے یا میری عدم موجودگی میں کسی سے ذکر کرتے ہیں تو آخر کیوں ؟ میرے اس عیب سے آپ کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوسکتا ہے اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو آپ کے اس بیان کرنے کو ہم کیا کہیں گے یہی کہ آپ نے غیبت کی خوہ میرے منہ پر کی اور خواہ میری پیٹھ کے پیچھے دونوں ہی صورتوں میں کوئی اچھا کام نہ کیا بلکہ ایک ایسی برائی کی جس پر غیبت کا اطلاق کیا جائے گا جس کو میں نے اپنے جسم کا کوئی عیب قرار دیا ہے اس پر آپ غور کریں گے تو آپ کو کتنی ہی باتیں سمجھ میں آجائیں گی جو میری ذات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا آپ سے اور معاشرہ میں کسی بھی دوسرے فرد سے تعلق نہیں ہوسکتا اور اس طرح کی ساری باتوں کو ” میرے جسم کے عیب سے “ میں نے بیان کردیا ہے تاکہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے اب وہ ساری باتیں جو ” میرے جسم کے عیب سے “ تعلق رکھتی ہیں ان کو تعریض ، تصریح ، رمز و اشارہ ، تحریر و کتابت اور محاکات و نقالی کسی بھی طریقہ سے دوسروں کے عیوب بیان کیے جاسکتے ہیں اور ایک شخص کے نسب ، اخلاق ، دین و دنیا ، جسم و کپڑے غرض کہ ہرچیز میں عیب نکالا جاسکتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت پرزور طریقہ سے اس کی ممانعت کردی ہے اور اس کو خود اپنے بھائی کے مردار گوشت سے تشبیہہ دی ہے جس میں بلاغت کے بہت سے نکتے مخفی ہیں۔ مثلاً یہ کہ : 1: انسان کا گوشت محض اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے حرام ہے اس لیے جو چیز اس کی عزت و حرمت کو نقصان پہنچاتی ہے وہ بھی اس کے گوشت کی طرح حرام ہے۔ 2: لڑائی جھگڑے میں جب باہم مقابلہ ہوتا ہے تو بعض لوگ شدت غضب میں اپنے حریف کا گوشت نوچ لیتے ہیں اگرچہ یہ بھی ایک برا فعل ہے تاہم اس میں ایک قسم کی شجاعت پائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی شخص حریف کے مر جانے کے بعد اس کا گوشت نوچ لے تو مکروہ ہونے کے ساتھ یہ ایک بزدلانہ فعل بھی ہے اس لیے اگر کوئی شخص رودر رو کسی کو برا کہے تو اگرچہ یہ بھی ایک ناپسندیدہ چیز ہے تاہم اس میں بزدلی نہیں پائی جاتی لیکن ایک شخص کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا نہایت بزدلانہ کام ہے اور بیعنہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنے حریف کے مقتول ہونے کے بعد اس کا گوشت نوچ کھائے۔ 3: لوگ شدت محبت سے بھائی کی مردہ لاش کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اس لیے جو شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ کھاتا ہے اس سے اس کی سخت قساوت و سنگدلی اور بغض و عداوت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ اس لطف و محبت کے منافی ہے جس کو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ 4: مردار گوشت کا کھانا سخت اضطرار کی حالت میں جائز ہے لیکن اللہ نہ کرے کہ کسی کو ایسی ضرورت پیش آہی جائے تو اس کو دونوں مردار گوشت میسر آئیں تو انسان کے مردار گوشت سے بکری مردار ہی کو اختیار کرے گا انسان کے مردار کو کبھی اختیار نہ کرے گا جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ غیبت کسی وقت میں بھی پسندیدہ چیز نہیں ہوسکتی بعض لوگوں نے جو بعض قسم کی غیبتوں کو جائز کرنے کی کوشش کی ہے وہ محض اس لیے کہ وہ حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور ان باتوں کو غیبت میں شمار کرلیا ہے جو غیبت کی تعریف میں نہیں آتیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ باتیں تو ناگزیر ہیں اور اسلام نے ان کے کرنے کا حکم دیا ہے تو انہوں نے بعض غیبتوں کو جائز قرار دے لیا ہے جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خیال ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے نہایت بلیغ طریقہ پر غیبت کی برائی بیان فرمائی ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” شب معراج میں میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے جبریل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ بولے یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت و آبرو کے درپے رہتے تھے “ ( ابودائود کتاب الادب باب فی الغیبۃ) غور کریں تو بات واضح ہوجائے گی کہ اعمال اور اعمال کی جزا و سز میں مناسبت ہوتی ہے یہ لوگ چونکہ لوگوں کا گوشت نوچ کھاتے تھے یعنی ان کی غیبت کرتے تھے اس لیے دوزخ میں ان کی سزا یہ مقرر کی گئی کہ خود اپنا گوشت نوچتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث کی سندات پر بحث کرکے محض برزخ کی زندگی یا عالم برزخ کے نام سے الرجک ہو کر یا روح کی بقا کے نظریات سے بچنے کے لیے حدیث کو غلط قرار دینے کی بجائے صرف کلام مماثلت تسلیم کرلینا زیادہ سہل اور آسان ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی قباحت بھی لاحق نہیں ہوتی کیونکہ اس کا تعلق اخرت کے ساتھ ہے نہ کہ اس دارالعمل کے ساتھ اور اس طرح کے استعارات و اشارات سے انسانوں کی اصلاح مقصود ہے اور آخرت کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی شخص بھی نہیں جانتا اور اس طرح اگر سننے والوں کی اصلاح ہوجائے اور وہ ان عذابوں سے ڈر کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو یہ زیادہ مفید مطلب ہے اور جہاں سیدھا اور صاف مضمون بات کی وضاحت پیش کررہا ہو اور وہ کسی قانون کے ساتھ متصادم بھی نہ ہو تو اس کے اختیار کرنے کے لیے نبی اعظم و آخر ﷺ کا ایک ادنیٰ اشارہ ہی کفایت کرتا ہے بعض لوگ جن کو تحقیق کا ہیضہ ہوجاتا ہے ان چیزوں پر بحث شروع کردیتے ہیں جو بحث اس عالم دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتی اور عالم آخرت کے لیے مفید پڑتی ہے خواہ مخواہ اضاعت وقت کرنا ہے تماثیل اور اشارہ و استعارہ اس بحث کی زد میں نہیں آتا اس لیے اس پر ضد کبھی مفید مطلب نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے عوام کا سراسر نقصان ہوتا ہے سینا نہ آتا ہو تو پھاڑتے چلے جانا عقل مندی کی نشانی نہیں بلکہ بےوقوفی کا کام ہے اور ایسے ہی پڑھے لکھے بیوقوفوں نے ایسے نظریات کی اشاعت کرکے عوام سے پہلے نظریات چھین لیے اور نئے نظریات کی صحیح وضاحت نہ کرسکنے کی بنا پر لوگوں کے لیے ایک ایسا دروازہ کھول دیا جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوا۔ ایک بار سخت بدبو پھیل گئی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے خود ہی وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں (ادب المفرد باب الغیبۃ) اس حدیث سے بھی اعمال اور ان کی جزا و سزا کی مناسبت ظاہر ہے مردار گوشت اکثر بدبو دار ہوتا ہے اور یہ لوگ بھی گوشت کھاتے تھے اس لیے یہ بدبو اس مردار خوری کا نتیجہ تھی اس میں ایک نکتہ یہ بھی پنہاں ہے کہ غیبت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی کے عیوب کی تشہیر و تفضیح کی جائے اس لیے جس طرح غیبت کرنے والوں نے لوگوں کے عیوب عام طور پر پھیلائے اسی طرح ان کے اس عمل کی نجاست و گندگی کی بو نے بھی دنیا کے لوگوں کو ان سے متنفر کردیا اس نکتہ کی آپ نے ایک دوسری حدیث میں خود وضاحت فرما دی اور یہ وضاحت بغیر تشبیہہ و تمثیل کے نہایت واضح طور پر بیان فرمائی کہ : ” اے وہ لوگو ! جو زبان سے تو ایمان لائے ہو لیکن ایمان تمہارے دلوں کے اندر جاگزیں نہیں ہوا ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ان کے عیوب کی تلاش میں رہو کیونکہ جو شخص ان کے عیوب کی تلاش میں رہے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کے عیوب کی تلاش کرے گا اور اللہ تعالیٰ جس کے عیوب کی تلاش کرے گا خود اس کے گھر کے اندر ہی اس کو رسوا کردے گا “ (ابودائود کتاب الادب باب فی الغیبۃ) لاریب لغت میں غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کے بیان کو کہتے ہیں مگر مذہبی تعلیم میں کسی کی غیر موجودگی غیبت کے لیے کوئی ضروری نہیں ہے اسی طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کی واقعی برائیاں ظاہر کی جائیں تو یہ غیبت نہیں لیکن نبی اعظم و آخر ﷺ کے اس ارشاد سے ان دونوں باتوں کی تردید ہوتی ہے چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ غیبت کس کو کہتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارا اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرنا جس کو وہ ناپسند کرے “ کہا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کو میں بیان کرتا ہوں تو ؟ فرمایا : ” اگر وہ عیب اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غبت کی اور اگر اس میں وہ عیب نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا “ (ابودائود کتاب الادب باب فی الغیبۃ ) اس سے ایک بات معلوم ہوگئی کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کی برائی بیان کرنا غیبت کی تعریف کا کوئی ضروری جز نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے سامنے اس کی برائی بیان کی جائے تو یہ بھی غیبت ہی ہوگی اور دوسری بات یہ معلوم ہوگئی کہ غیبت کا اطلاق اس بات پر ہوگا جو اس کی ذات سے متعلق ہو کسی دوسرے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہ قائم ہوتا ہو جیسا کہ پیچھے اس کی وضاحت گزر چکی کہ جن باتوں کا تعلق معاشرہ کے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی وابستہ ہو اگر کسی شخص کو کسی دوسرے کا عجیب معلوم ہوجائے اور تحقیق کے بعد بھی یہ واضح ہو کہ اس کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہے تو اس کے متعلق دوسروں کو بتانا اور آگاہ کرنا غیبت میں نہیں آئے گا بلکہ اس کا مطلب فقط یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ اس سے چوکنا رہیں تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اپنے ہاتھوں اپنا نقصان نہ کرلیں ۔ لاریب کسی کی برائی بیان کرنا اخلاقاً نہایت اچھی چیز ہے لیکن خود اخلاق ہی کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی واقعی برائی جو معاشرہ کے دوسروں لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہو وہ لوگوں کے سامنے بیان کی جائے تاکہ خود برائی کرنے والے کو ندامت اور تنبیہہ ہو اور وہ شرمندگی اور ندامت محسوس کرے اور دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ رہیں اگر بروں کی برائی کو بیان کرنے کو یک قلم بند کردیا جائے تو ان کی برائی کی روک تھام کی کوئی صورت نہ ہوسکے گی اسلام کی نگاہ سے یہ نکتہ چھپا نہیں رہ سکتا تھا چناچہ قرآن کریم میں کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کی اعلانیہ برائیاں کی گئی ہیں مگر کہیں کسی کا نام نہیں لیا گیا بلکہ ہمیشہ عدم کے ساتھ پردہ میں یا صیغہ مجہول کے ساتھ یا وصف کے ساتھ جو کچھ کہا گیا ہے بس وہی کہا گیا ہے کہ جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں یا کفر کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے اور اس طریقہ تعمیری میں جو فائدہ ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ بروں کی برائی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور کسی ایک شخص کو ناگواری کا حق بھی نہیں پہنچتا اور قرآن کریم نے یہ طریقہ اختیار کرکے ہر انسان کی عزت نفس کو محفوظ کردیا ہے لیکن جو باتیں غیبت کی مد ہی سے خارج ہوگئیں ان سے ممانعت کا بھی کوئی جواز نہ رہا۔ معاملات میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جہاں تخصیص کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے قرآن کریم نے ان کا مختصر بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس کی وضاحت احادیث میں بالکل واضح الفاظ میں موجود ہے اس لیے ان باتوں کو غیبت میں شامل کرکے غیبت کو حلال اور حرام میں تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مثلاً قرآن کریم میں ہے کہ : ( لایحب اللہ الجھر بالسوء من لاقول الا من ظلم وکان اللہ سمیعاً علما) (النساء 128:4) ” اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان بد گوئی پر زبان کھولے مگر ہاں ! جس پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے “ مطلب کیا ہوا ؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ کوئی شخص کسی کی برائی کو پکار کر کہے لیکن مظلوم کو حق ہے کہ وہ اپنے ظلم کی داستن کو لوگوں سے بیان کرے اور ظالم کے ظالمانہ کاموں کو آشکار کرے۔ اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے وہ ظالم کو اس کے برے اعمال کی سزا دے گا حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور ملنے کی اجازت مانگی آپ ﷺ نے اس کو دیکھا تو گھر والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ اپنے خاندان کا بہت برا شخص ہے لیکن جب وہ آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے اس سے نہایت نرم لہجہ اور لطف اندوز پیرایہ میں بات چیت کی۔ (بخاری کتاب الادب باب ما یجوز اغیاب اہل الفساد و الریب) اس سے معلوم ہوگیا کہ ایک شخص کے شر و فساد سے دوسروں کو بچانے کے لیے ان کو آگاہ کرنا او اس کے احوال واقعی کا اظہار جائز اور صححی ہے کیونکہ اس میں دوسروں کی خیر خواہی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور اس بات کے پیش نظر آپ نے گھر والوں کے سامنے اس کا سارا حال مختصر الفاظ میں بیان کردیا جس سے مقصود صرف یہ تھا کہ اس کی باتوں میں آکر دوسرے اپنا نقصان نہ کرلیں مثلاً جب اس نے اپنا تعارف کرایا تو آپ ﷺ کے گھر والوں نے اس کی بات سن لی وہ کہیں آپ ﷺ کی موجودگی میں گھر والوں سے کوئی چیز اس تعارف کی بنا پر حاصل کرسکتا تھا لیکن جب آپ ﷺ نے گھر والوں کو اس کے کردار کی خبر کردی تو انہوں نے جہاں اس کا تعارف سنا وہاں اس کی تعریف بھی سن لی اور اس طرح وہ احتمال ختم ہوگیا جس کا خیال درست ہو سکتا تھا۔ اس لیے علماء اسلام نے ان باتوں کو غیبت کے تعارف سے نکال دیا مثلاً : 1: کسی حاکم کے مظالم کی حاکم اعلیٰ کے سامنے فریاد کرنا جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ (لصاحب الحق مقالاً ) ۔ 2: مذہبی اور اخلاقی برائیوں کا انسداد کرنا تاکہ ان کا احتساب ہوسکے جیسا کہ قرآن کریم نے منافقوں اور کافروں کی برائیوں کو طشت ازبام کیا ہے۔ 3: فتویٰ طلب کرنا جیسا کہ ہند بنت عتبہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ابوسفیان ؓ کے کم خرچ دینے کی شکایت کی اور آپ ﷺ نے سن کر اس کا مناسب جواب عطا فرمایا۔ 4: ایسے لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں اور خلق خدا کو بےدینی اور ظلم وجور کی طرف رغبت دلا رہے ہوں۔ 5: ایسے لوگ جو ایسے القاب سے لقب اور مشہور ہوچکے ہوں جو بظاہر تو صحیح نہ معلوم ہوں لیکن ان کے عرف کے باعث وہ خود بھی اس کو برا محسوس نہ کرتے ہوں جیسے اعمیٰ ، اعمش اور اعرج وغیرہ جب کہ وہ انہی القاب سے معروف ہوچکے ہوں۔ زیر نظر آیت کے آخر پر ارشاد فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو مطلب یہ ہے کہ سارا زور لوگوں کی اصلاح پر ہی مت خرچ کرو کچھ اپنی ذات کے تجزیہ کرنے کے لیے رکھو کیونکہ ایسا نہ ہو کہ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔ تقویٰ کی بات تو یہی ہے کہ سب سے پہلے پنے دل سے پوچھو اگر تسلی ہوجائے کہ اپنی اصلاح ہوچکی تو اب دوسروں کی اصلاح کی طرف ضرور توجہ دو اور ان شاء اللہ اب تمہاری توجہ لوگوں کے دلوں پر اثر کرے گی اور اگر اپنے اندر کوئی کمزوری نظر آئے کیونکہ انسان اپنی کمزوری خود جس طرح معلوم کرسکتا ہے کوئی دوسرا اس طرح معلوم نہیں کرسکتا خواہ وہ کون ہو اور کیسا ہو پھر جب اپنی کمزوری نظر آئے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرکے معافی طلب کرو لاریب اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر توبہ قبول کرنے والا اور پیار کرنے والا اور کوئی نہیں ہوسکتا اور اگر اپنی اصلاح ہوگئی تو بہت کچھ حاصل ہوگیا کیونکہ جس چیز کا نام کامیابی سے وہ اپنی اصلاح ہی سے ممکن ہے۔
Top