Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 115
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ١ۖ٘ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَيْسَ لَهُمْ : ان کے لیے نہیں فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اِلَّا النَّارُ : آگ کے سوا وَحَبِطَ : اور اکارت گیا مَا : جو صَنَعُوْا : انہوں نے کیا فِيْهَا : اس میں وَبٰطِلٌ : اور نابود ہوئے مَّا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں (آتش جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے سب ضائع ہوا۔
16۔ اس سے اوپر کی آیت میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جو لوگ فقط دنیا کی عزت اور زینت کے لئے عمل کرتے ہیں ان کو اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے انہیں کی شان میں یہ آیت اتری ہے جس میں فرمایا ہے کہ ان کے عمل کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاوے گا باقی رہی آخرت تو وہاں ان کا کچھ حصہ نہیں ہے اگر ہے تو دوزخ ہے اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا ہے وہ سب مٹ جائے گا اور جتنے عمل ان کے ہیں وہ سب بیکار ہیں کیوں کہ ان کا ارادہ اس عمل سے طلب دنیا کا تھا آخرت کے واسطے انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا جو وہاں بھی جزا کے سزا وار ہوں۔ اعتقادی منافقوں کے حال میں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابن عمر ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا منافقوں کا حال دو ریوڑوں میں بہکی ہوئی بکری کا سا ہے کہ کبھی ادھر اور کبھی ادھر 1 ؎ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ لوگ ظاہری مسلمان ہیں اور کافروں میں پورے کافر یہ حدیث اور محمود بن لبید ؓ کی اوپر کی حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ کافر اور منافقوں کے عقبیٰ کے انکار اور ریا کار مسلمانوں کے دنیا کے دکھاوے کے عمل عقبیٰ کی جزا کے حساب سے یہ سب بیکار ہیں۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 17 باب الکبائر و علامات النفاق۔
Top