Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب، سو تم جس طرف بھی رخ کرو ادھر اللہ کا رخ ہے، بیشک اللہ واسع ہے علیم ہے
جدھر رخ کرو ادھر اللہ کا رخ ہے لباب النقول میں تین واقعات لکھے ہیں جن میں اس آیت کے سبب نزول کا ذکر ہے۔ تینوں واقعات میں یہ تذکرہ ہے کہ حضرات صحابہ سفر میں تھے اندھیری رات میں ( اور بعض روایات میں ہے کہ بادل کی وجہ سے) قبلہ کے بارے میں اشتباہ ہوگیا۔ ہر ایک نے اپنے غور و فکر کے مطابق جدھر قبلہ سمجھ میں آیا ادھر نماز پڑھی صبح ہوئی تو غلطی معلوم ہوئی آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے خاموشی اختیار فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی، (ان میں سے ایک واقعہ سنن ترمذی (ابواب التفسیر) میں بھی مذکور ہے۔ جہت قبلہ کا قانون : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرق کا بھی مالک ہے اور مغرب کا بھی مالک ہے (بلکہ تمام جہات کا مالک ہے اس عموم میں جنوب اور شمال بھی آگئے) کما قال تعالیٰ (فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِِنَّا لَقٰدِرُوْنَ ) لہٰذا اسے پورا اختیار ہے کہ جس جہت کو چاہے قبلہ قرار دیدے اور چونکہ معبود وہی ہے اور سب جہات اسی کی مملوک اور مخلوق ہیں اس لیے وہ اپنی عبادت کے لیے جس رخ کا بھی حکم دے اور جس رخ پر بھی عبادت کرنے سے راضی ہوجائے عبادت گزاروں کے لیے وہی جہت قبلہ ہے۔ کسی کو اس میں اعتراض کا کیا حق ہے وہ کعبہ شریف کو قبلہ مقرر فرما دے تو اسے پورا اختیار ہے اور بیت المقدس کو قبلہ بنا دے تو اسے پورا اختیار ہے ان دونوں کے علاوہ اور کسی رخ پر نماز پڑھنے کی اجازت دے دے تو بھی اسے اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اس سے بلند اور بالا ہے کہ اس کا جسم ہو یا وہ کسی جہت میں ہو جدھر بھی رخ کیا جائے اُدھر اللہ کا رخ ہے۔ 1 ؂ یعنی حکم خداوندی اور اذن خداوندی کے مطابق جدھر کو بھی نماز پڑھ لیں گے ادھر ہی وہ جہت ہوگی جس کی طرف تمہیں رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور اسی طرف نماز پڑھنے میں اس کی رضا ہے۔ (قال فی الروح ای فھناک جھتہ سبحانہ التی امرتم بھا ص 365 ج 1 و فی معالم التنزیل عن مجاھد فی ھذہ الآیۃ فثم وجہ اللہ فثم قبلۃ اللّٰہ والوجہ والوجھۃ والجھۃ القبلۃ وقیل رضا اللّٰہ تعالیٰ ص 108 ج 1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ آیت سفر میں نفل نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لا رہے تھے اور اپنی سواری پر نفل نماز پڑھ رہے تھے سواری جدھر بھی متوجہ ہوتی آپ برابر نماز میں مشغول رہے۔ (رواہ الترمذی فی تفسیر سورة البقرۃ) انس بن سیرین کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت انس بن مالک ؓ کا استقبال کیا جبکہ وہ شام سے آ رہے تھے ہم نے دیکھا کہ مقام عین التمر میں اپنی سواری پر نماز پڑھ رہے ہیں اور رخ قبلہ سے ہٹا ہوا ہے جو بائیں جانب کو ہے۔ میں نے کہا میں دیکھ رہا ہوں آپ قبلہ کے رخ کے علاوہ دوسری طرف کو نماز پڑھ رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں ایسا نہ کرتا یہ روایات صحیح مسلم میں مذکور ہیں۔ (ص 244؍ 245 ج 1) آیت کے آخیر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) یعنی وہ بندوں پر ان کے دین میں وسعت عطا فرماتا ہے اور ایسی کسی بات کا حکم نہیں دیتا جو ان کی طاقت سے باہر ہو۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ واسِعٌ سے یہ مراد ہے کہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کے علم سے باہر ہو۔ جیسا کہ سورة طہ میں فرمایا (وَسِع کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا) اور فراء کا قول یہ ہے کہ واسع بمعنی جواد اور سخی ہے جس کی عطا ہر ایک کو شامل ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا معنی واسع المغفرہ بتایا ہے یعنی کوئی بھی گناہ ایسا نہیں جس کا بخشنا اس کے نزدیک مشکل ہو۔ (من القرطبی ص 84 ج 2) 1 ؂ قال القرطبی فی تفسیرہ اختلف الناس فی تاویل الوجہ المضاف الی اللّٰہ تعالیٰ فی القرآن والسنۃ فقال الحذاق ذلک راجع الی الوجود و العبارۃ عنہ بالوجہ من مجاز الکلام اذکان الوجہ أظھر الاعضاء فی الشاھد و أجلّھا قدرا، قال ابن عباس الوجہ عبارۃ عنہ عزوجل کما قال و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام، وقال بعض الائمۃ تلک صفۃ ثابتۃ بالسمع زائدہ علی ماتوجبہ العقول من صفات القدیم تعالیٰ قال ابن عطیۃ و ضعف أبو المعالی ھذا القول وھو کذلک ضعیف وانما المراد وجودہ و قیل المراد بالوجہ ھنا الجھۃ التی وجھنا الیھا أی القبلۃ و قیل الوجہ المقصد و قیل المعنی و ثم رضا اللّٰہ و ثوابہ کما قال تعالیٰ انما نطعمکم لوجہ اللّٰہ أی لرضاۂ و طلب ثوابہ و منہ قولہ۔ من بنی مسجدًا یبتغی بہ و جد اللّٰہ بنی اللّٰہ لہ مثلہ فی الجنۃ۔ (ص 83 ج 2) روح المعانی (ص 365 ج 1) میں ہے۔ انَّ اللّٰہَ وَاسعٌ ای محیط بالاشیاء ملکا اور حمۃ فلھذا وسع علیکم القبلۃ ولم یضیق علیکم۔ علیمٌ بمصالح البعادو اعمالھم فی الاماکن۔ (یعنی اللہ تعالیٰ مالکیت کے اعتبار سے یا رحمت کے اعتبار سے ہر چیز کو محیط ہے اسی لیے اس نے قبلہ کے بارے میں تم پر آسانی فرما دی اور تنگی نہیں فرمائی اور وہ بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اور جس جگہ بھی کوئی بھی کوئی عمل کریں وہ اس سے باخبر ہے۔ اھ، لہٰذا وہ سب کو ثواب عطا فرمائے گا۔ وہ قلوب کے احوال بھی جانتا ہے اگر کسی نے اندھیرے میں اپنے غور و فکر کے مطابق قبلہ کی معینہ جہت کے خلاف نماز پڑھی لیکن پڑھی اللہ ہی کے لیے اس کا مقصد اطاعت ہی ہے بغاوت نہیں تو ثواب کا مستحق ہوگا اور اسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ قبلہ کے مسائل : مسئلہ : استقبال قبلہ نماز کی شرائط میں سے ہے غیر قبلہ کو نماز پڑھے تو نماز نہ ہوگی ہاں اگر کوئی شخص خائف ہے قوی دشمن اسے معینہ قبلہ کی طرف نماز نہ پڑھنے دیتا ہو تو جس طرف منہ کر کے پڑھ سکتا ہو اسی طرف پڑھ لے اس وقت یہی اس کا قبلہ ہے۔ مسئلہ : اگر کوئی ایک فرد یا جماعت کسی جگہ موجود ہوں اور قبلہ میں اشتباہ ہوجائے اور وہاں پر کوئی بتانے والا بھی نہ ہو تو ہر شخص اپنے اپنے طور پر خوب غور و فکر کرے۔ جس طرف دل ٹھکے ہر شخص اس طرف کو نماز پڑھ لے۔ اگر غورو فکر کے بعد کسی طرف کو نما زپڑھنی شروع کی اور نماز کے اندر ہی پتہ چل گیا کہ قبلہ دوسری طرف کو ہے۔ تو اسی طرف گھوم جائے۔ پھر سے نماز پڑھنا ضروری نہیں۔ مسئلہ : اگر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ غلط رخ پر نماز پڑھی گئی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ : اندھیری رات میں کسی جگہ چند مسلمان موجود ہیں قبلہ کا علم نہیں ہے۔ ان میں سے ایک شخص امام بن گیا اور امام اور مقتدی سب نے اپنے اپنے غور و فکر سے ایک ایک جہت کو نماز پڑھ لی اور ہر ایک کی جہت مختلف تھی اور مقتدیوں کو یہ علم نہیں کہ امام کا رخ کدھر ہے تو یہ نماز باجماعت صحیح ہوجائے گی۔ ہاں اگر کسی کو یہ پتہ ہے کہ امام کا رخ فلاں جانب ہے اور وہ رخ اس مقتدی کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو اس مقتدی کی نماز نہ ہوگی کیونکہ وہ اپنے امام کو غلطی پر سمجھے ہوئے ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص امام سے آگے بڑھ گیا یعنی امام کے آگے کھڑا ہوگیا ( اس طرح سے کہ امام کا چہرہ اس کی پشت کی طرف ہو، تو بھی اقتدا صحیح نہ ہوگی۔ ( من الھدایہ باب شروط الصلاۃ) مسئلہ : جو شخص آبادی سے باہر ہو اور جانور پر سوار ہو وہ چاہے کہ میں نفل نماز پڑھوں تو وہ بیٹھے بیٹھے اپنی سواری پر نفل نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ سواری کا رخ قبلہ کی جانب نہ ہو جیسا کہ حضور اقدس ﷺ کا اور بعض صحابہ کا عمل بحوالہ صحیح مسلم گزر چکا۔ مسئلہ : فرض نماز غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے پڑھی جائے تو صحیح نہ ہوگی الایہ کہ قبلہ معلوم نہ اور کوئی بتانے والا نہ ہو تو اس صورت میں تحری یعنی غور و فکر کر کے نماز پڑھ لے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ مسئلہ : ریل میں اور پانی کے جہاز میں نماز آسانی سے قبلہ رخ ہو کر پڑھی جاسکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا کہ فرض نماز بھی سفر میں بلا قبلہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور قبلہ کی طرف رخ کرنے کی قدرت ہوتے ہوئے غیر قبلہ کو نماز پڑھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ صاحب سفر میں سب معاف ہے۔ یہ ان کی غلطی ہے اور ان کا عمل فقہاء کی تصریحات کے خلاف ہے۔ ان کی نماز نہیں ہوتی۔ حکمت تعیین قبلہ کسی خاص جانب کو قبلہ قرار دینا بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی ہے۔ اگر کسی خاص رخ پر نماز پڑھنے کا حکم نہ دیا جاتا اور ہر شخص کو اختیار ہوتا کہ جدھر کو چاہے رخ کر کے نماز پڑھ لے تو اس میں تشتت اور انتشار کا مظاہرہ ہوتا اور ایک ہی جانب قبلہ معین ہوجانے سے تنظیم اور اتحاد کا جو عملی سبق مل رہا ہے وہ بھی نہ رہتا لہٰذا سارے عالم کا قبلہ ایک ہی چیز کو قرار دیا گیا۔ ہجرت کے بعد ایک سال سے کچھ اوپر بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی گئی پھر کعبہ شریف کو قبلہ قرار دیا گیا جیسا کہ دوسرے پارے کے شروع میں قصہ بیان ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوتی ہے۔ بیت اللہ یا بیت المقدس، جس کی طرف بھی حکم خداوندی کے مطابق نماز پڑھی گئی وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت ہے۔ کسی جہت یا کسی گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے اس جہت یا اس گھر کی عبادت نہیں ہوتی۔ اس سے بت پرستوں کا یہ اعتراض ساقط ہوجاتا ہے کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو تم بھی تو کعبہ کو نماز پڑھتے ہو۔ کیونکہ مسلمان رخ کعبہ کا کرتے ہیں اور عبادت اللہ کی کرتے ہیں اور مشرکین بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں کہیں سے کہیں تک بھی یہ بات نہیں کہ ہم عبادت اللہ کی کر رہے ہیں اور بتوں کو بطور قبلہ سامنے رکھ رکھا ہے۔ اگر مسلمانوں کو دیکھا دیکھی ایسا کہنے بھی لگیں تو یہ ان کی جھوٹی بات ہوگی۔ فائدہ : بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کے بعد کعبہ شریف کو قبلہ قرار دینے سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ بیت المقدس یا کعبہ شریف کو نماز پڑھنا قبلہ کے طور پر ہے ( یعنی حکمت اور مصلحت کی وجہ سے ان میں سے اللہ تعالیٰ نے جس کو جب چاہا قبلہ قرار دے دیا) وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ چاروں جہات میں سے کوئی جہت قبلہ کیلئے معین اور مخصوص نہیں ہے۔ جب کعبہ شریف کو قبلہ قرار دے دیا گیا تو قبلہ کی کوئی جہت معین نہ رہی سارے عالم کے مسلمانوں کو کعبہ شریف کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا اور سب اس پر عمل کرتے ہیں تو چاروں جہات کی طرف نمازوں کا رخ ہوجاتا ہے اس سے فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ کا مفہوم پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔
Top