Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
(وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لئے ہی ہے ) ( الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ : مشرق اور مغرب) (فَاَیْنَمَا : پس جہاں کہیں بھی) (تُوَلُّوْا : تم لوگ پھیرو گے (اپنے چہروں کو) فَثَمَّ : تو وہیں) (وَجْہُ اللّٰہِ : اللہ کی توجہ ہے) ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ) (وَاسِعٌ عَلِیْمٌ: وسعت والا جاننے والا ہے) ش ر ق شَرْقًا (ن ۔ س) : روشنی کا پھوٹنا ‘ کسی چیز کا سرخ ہونا۔ مَشْرِقٌ (ج مَشَارِقُ ) : مَفْعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے ‘ یعنی روشن یا سرخ ہونے کی جگہ یا سمت۔ اصطلاحاً سورج نکلنے کی سمت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ { لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ } (البقرۃ :177) ” نیکی یہی نہیں ہے کہ تم لوگ پھیر دو اپنے چہروں کو مشرق اور مغرب کی طرف “۔ { وَرَبُّ الْمَشَارِقِ } (الصّٰفّٰت :5)” اور تمام مشرقوں کا ربّ ۔ “ شَرْقِیٌّ : (اسم نسبت ہے) : مشرق والا ‘ مشرقی۔ { لَا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ } (النور :35) ” نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے “۔ اِشْرَاقًا (افعال) : کسی چیز سے کسی چیز کا روشن یا سرخ ہونا۔ { وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا } (الروم :69)” اور جگمگا اٹھے گی زمین اپنے رب کے نور سے۔ “ اَلْاِشْرَاقُ : یہ باب افعال کا مصدر ہے۔ اصطلاحاً اس کا مطلب ہے سورج سے زمین کا روشن ہونا یا روشن ہونے کا وقت جب سورج سوا نیزا بلند ہوجائے ‘ یعنی طلوع آفتاب کے 20 سے 25 منٹ بعد۔ { یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ } (ص :18)” وہ سب تسبیح کرتے ہیں عشاء اور اشراق میں۔ “ مُشْرِقٌ (اسم الفاعل) : روشن ہونے والا۔ اصطلاحاً اس کا مطلب ہے سورج نکلتے ہی صبح کا وقت۔ { فَاَ تْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ } (الشعرائ :60) ” تو انہوں نے پیچھا کیا ان کا سورج نکلتے ہی “۔ غ ر ب غَرْبًِا (ن) : دور چلے جانا ‘ دوری کی وجہ سے چھپ جانا ‘ غروب ہونا۔ { وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ } (الکہف :17)” اور جب وہ (یعنی سورج ) غروب ہوتا ہے ‘ کترا جاتا ہے ان سے بائیں جانب “ ۔ غَرَبًا (س) : سیاہ رنگ والا ہونا (سیاہی اصل رنگ کو چھپا دیتی ہے) غُرُوْبٌ : یہ باب نَصَرَ کے مصدر غَرْبٌ کی جمع ہے۔ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا ح } (طٰہٰ :130)” اور آپ تسبیح کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ “ مَغْرِبٌ (جمع مَغَارِبُ ) : مَفعِلٌ کے وزن پر اسم الظرف ہے۔ غروب ہونے کی سمت یا وقت۔ مادہ ” ش ر ق “ میں ” البقرۃ “ کی آیت 177 دیکھئے۔ نیز : { فَلَا اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ }(المعارج :40)” پس نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی “۔ غَرْبِیٌّ : اسم نسبت ہے۔ مغرب والا ‘ مغربی۔ مادہ ” ش ر ق “ میں ” النور “ کی آیت 35 دیکھیں۔ غُرَابٌ : اسم جنس ہے۔ کوّا (کیونکہ وہ سیاہ ہوتا ہے) { فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا } (المائدۃ :31) ” تو بھیجا اللہ نے ایک کوا “ ۔ غِرْبِیْبٌ (جمع غَرَابِیْبُ ) : صفت ہے۔ انتہائی سیاہ ‘ بھجنگ۔ { وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ}(فاطر :27)” اور پہاڑوں میں سفید راستے ہیں ‘ مختلف سرخی ہے ان کے رنگوں کی ‘ اور کچھ بھجنگ سیاہ ہیں “ ۔ ث م م ثَمًّا (ن): کسی چیز کو درست کرنا۔ ثُمَّ : پھر ‘ تب ‘ اس کے بعد۔ حرف عطف ہے جو کلام کی ترتیب کو درست رکھنے کے لئے آتا ہے۔ { ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا }(المائدۃ :93) ” پھر انہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے ‘ اس کے بعد پھر انہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور بلاکم وکاست نیکی کی “۔ ثَمَّ : اشارہ بعید کے طور پر آتا ہے ۔ وہیں ‘ اسی جگہ ۔ { وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا } (الدھر :20)” جب بھی تو دیکھے گا تو وہیں تو دیکھے گا ہمیشگی والی آسودگی “۔ و س ع سَعَۃً وَسِعَۃً ( س ‘ ح) : کشادہ ہونا (لازم) ‘ کشادہ کرنا (متعدی) ۔ { وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ ط } ” اور میری رحمت کشادہ ہوئی ہر چیز پر۔ “ سَعَۃٌ : اسم ذات بھی ہے۔ کشادگی ‘ وسعت ۔ { لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖط } (الطلاق :7) ” چاہیے کہ خرچ کرے کشادگی والا اپنی کشادگی میں سے “۔ وُسْعٌ : اسم ذات ہے۔ وسعت ‘ اہلیت۔ { لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط }(البقرۃ :286) ” اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی جان کو مگر اس کی اہلیت کو “ ۔ وَاسِعٌ : فَاعِلٌ کے وزن پر اسم الفاعل ہے۔ کشادہ کرنے والا۔ { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ج وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ } (المائدۃ)” یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے ‘ اور اللہ کشادہ کرنے والا جاننے والا ہے “۔ وَاسِعَۃٌ : یہ وَاسِعٌ کا مؤنث ہے۔ زیادہ تر صفت کے طور پر آتا ہے۔ کشادہ ہونے والی یعنی کشادہ۔ { وَاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ ط }(الروم :10) ” اور اللہ کی زمین کشادہ ہے “۔ اِیْسَاعًا (افعال) : رزق میں کشادہ ہونا ‘ کسی جگہ کو کشادہ کرنا۔ مُوْسِعٌ (اسم الفاعل) : رزق میں کشادہ ہونے والا ‘ جگہ کو کشادہ کرنے والا۔ { عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُ ہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُ ہٗ } (البقرۃ :236)” رزق میں کشادہ ہونے والے پر ہے اس کے مقدور بھر اور تنگدست پر ہے اس کے مقدور بھر “۔ { وَالسَّمَآئَ بَِنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ }(الذریت)” اور آسمان ‘ ہم نے بنایا اس کو (اپنے) ہاتھوں سے اور بیشک ہم کشادہ کرنے والے ہیں “۔ ترکیب : اَلْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ مبتدأ مؤخر ہیں ‘ خبر محذوف ہے اور قائم مقام خبر کو تاکید کے لئے مقدم کیا گیا ہے۔ اَیْنَمَا ‘ تُوَلُّوْا کا مفعول فیہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔ کلمہ شرط ہے۔ تُوَلُّوْا شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ جواب شرط ہے۔ مضارع مجزوم تُوَلُّوْا کا فاعل اس میں شامل اَنْتُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول وُجُوْھَکُمْ محذوف ہے۔ نوٹ (1) یہ آیت تحویلِ قبلہ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے اسے تحویلِ قبلہ کے حکم کی پیش بندی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور اس پہلو سے آیت میں مشرق اور مغرب کے الفاظ کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی گئی۔ اس وقت مدینہ کے نمازیوں کا رُخ شمال کی طرف ہوتا تھا ‘ کیونکہ بیت المقدس مدینہ کے شمال میں ہے۔ تحویلِ قبلہ کے بعد اب مدینہ کے نمازیوں کا رُخ جنوب کی طرف ہوتا ہے ‘ کیونکہ خانۂ کعبہ مدینہ کے جنوب میں ہے۔ اب نوٹ کریں کہ اس آیت میں شمال اور جنوب کے بجائے مشرق اور مغرب کی بات کی گئی ہے۔ اس طرح گویا چاروں سمتوں کا احاطہ کر کے فرمایا :” فَاَیْنَمَا “ جہاں کہیں بھی ‘ یعنی جس طرف بھی رُخ کرو اللہ کی توجہ ہر طرف ہے۔ نوٹ (2) اس میں یہ حقیقت واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کسی سمت میں مقید نہیں ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد عمل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص کو آزادی دے دی جائے کہ جس طرف اس کا جی چاہے رُخ کر کے نماز پڑھ لے۔ دوسری یہ کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کوئی ایک سمت مقرر کی جائے۔ اسلام میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس لحاظ سے بڑا عجیب ہے کہ نہ تو افراد کو آزادی ہے کہ جدھر جی چاہے رُخ کر کے نماز پڑھیں اور نہ ہی کسی ایک سمت کا تعین ہے۔ البتہ ایک رُخ کا تعین کیا گیا ہے ۔ ایک قبلہ مقرر کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کا ہر فرد پابند ہے کہ وہ اسی طرف رُخ کر کے نماز پڑھے۔ اس طرح امت میں تنظیم اور اتحاد کی عملی تربیت کا اہتمام ہوگیا۔ اب ساری دنیا کے مسلمان جب قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو نہ صرف شمال و جنوب اور مشرق و مغرب بلکہ ان کے درمیان کے تمام زاویۂ سمت کا خود بخود احاطہ ہوجاتا ہے۔
Top