Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
22۔ 24۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ جو لوگ برے کاموں سے صرف خدا کی خوشنودی کے واسطے الگ رہے اور جن لوگوں نے پنجگانہ نماز قائم کی اور جو کچھ خدا نے ان کو دیا اس میں سے حق دار کو بال بچوں رشتہ داروں کو فقرا اور مساکین کو دیا غرض کہ جو جو موقع خرچ کا خدا نے بتلایا ہے اس کے مطابق کھلم کھلا یا چھپ کر خرچ کیا اور برائی کے عوض بھلائی کرتے رہے اگر کسی نے ان کو تکلیف دی یا ستایا تو صبر کر کے چپ ہو رہے اس کے بدلے کے پیچھے نہ پڑے تو آخرت کا گھر انہیں نیک بختوں کے واسطے بنایا گیا ہے مفسروں نے یہ بیان کیا ہے عدن ایک محلہ ہے جنت کا اور بعضوں نے کہا ہے ایک شہر ہے جنت میں غرض کہ یہ خود بھی وہاں جائیں گے اور ان کے بال بچے باپ ماں بھی اگر نیک بخت ہیں تو انہیں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر ہر دروازہ سے آکر ان کو سلام کریں گے اور کہیں گے کیا اچھا آخرت کا گھر تمہارے صبر کے بدلہ میں ملا ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی ایک حدیث ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم لوگ جانتے ہو کہ سب سے پہلے کون جنت میں داخل ہوگا لوگوں نے کہا خدا اور خدا کا رسول جانتا ہے آپ نے فرمایا فقرا مہاجرین کہ ان میں سے کسی کی کوئی حاجت بھی ہوتی ہے تو مرتے وقت وہ اپنے دل میں لے جاتا ہے اللہ پاک اپنے فرشتوں سے کہے گا تم جا کر اس بندے سے سلام کہو وہ کہیں گے ہم تیری بہتر مخلوق ہیں آسمان کے رہنے والے ہیں تو ہم کو ان کے پاس جا کر سلام کہنے کا حکم فرماتا ہے اللہ پاک فرمائے گا یہ مرے وہ بندے ہیں جنہوں نے خاص میری عبادت کی ہے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرایا ان کی کوئی حاجت بھی ہوئی تو وہ پوری نہیں ہوتی تھی مرتے وقت اس کو اپنے دل میں لے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد فرشتے ان کے پاس جنت میں ہر دروازہ سے جائیں گے اور کہیں گے۔ { سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار } 1 ؎ معتبر سند سے تفسیر ابن منذر اور تفسیر ابن مردویہ میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ﷺ ہر سال کے شروع میں شہیدوں کی قبروں پر جاتے تھے اور یہ کہتے تھے۔ ( سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار) 2 ؎ ایک صبر تو احکام شرع کی تکلیفوں پر آدمی کو کرنا پڑتا ہے جیسے مثلاً روزہ میں بھوک پیاس کی تکلیف پر صبر کرنا جاڑے میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی تکلیف پر صبر کرنا۔ ایک صبر جانی یا مالی مصیبت پر کرنا پڑتا ہے غرض ہر طرح کا صبر اللہ تعالیٰ کی خوشی اور عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے ہونا چاہیے۔ دنیا کی کسی غرض کا لگاؤ اس میں نہ ہوں { صبروا ابتغآء وجہ ربھم } کا یہی مطلب ہے { وانفقوا مما رزقناھم } کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق زکوٰۃ کی ہے۔ اس سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ مکہ میں فرض ہوئی ہے اور اس کے وصل کا انتظام مدینہ میں آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور مسند امام احمد میں ابوذر ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کی روایتیں ہیں جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا آدمی سے کوئی گناہ ہوجاوے تو اس کو اس گناہ کے کفارہ کے لئے کچھ نیک کام کرنا چاہیے۔ 3 ؎ مسند امام احمد میں عقبہ بن عامر ؓ کی معتبر حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص پر کوئی زیادتی کرے اور وہ در گزر کرے تو اس کا بڑا اجر ہے 4 ؎ { ویدرءون بالحسنۃ السیئۃ } کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں سے خود کوئی برائی ہوجاوے تو اس کے کفارہ کے لئے یہ لوگ نیک کام کرتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ برائی سے پیش آوے تو یہ لوگ در گزر سے کام لیتے ہں۔ 1 ؎ تفسیر فتح البیان ص 587 ج 2 و تفسیر ابن کثیر ص۔ 51 ج 2۔ 2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 58 ج 4۔ 3 ؎ الترغب ص 131 ج 2 باب الترغیب فی صلۃ الرحم و مجمع الزوائد ص 188 ج 8 باب حکارم الاخلاق والعفو عن ظلم۔ 4 ؎ الترغیب ص۔ 15 ج 2 باب الترغیب فی الخلق الحسن الخ نیز دیکھئے شرح خمسین (از حافظ ابن رجب) ص 111 طبع امر تسر۔
Top