Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا خوشی کو اپنے رب کی اور قائم رکھی نماز اور خرچ کیا ہمارے دیئے میں سے پوشیدہ اور ظاہر اور کرتے ہیں برائی کے مقابلہ میں بھلائی ان لوگوں کے لئے ہے آخرت کا گھر
چھٹی صفت یہ بیان فرمائی (آیت) وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ۔ یعنی وہ لوگ جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضائی جوئی کے لئے صبر کرتے ہیں صبر کے معنی عربی زبان میں اس مفہوم سے بہت عام ہیں جو اردو زبان میں سمجھا جاتا ہے کہ کسی مصیبت اور تکلیف پر صبر کریں کیونکہ اس کے اصلی معنی خلاف طبع چیزوں سے پریشان نہ ہونا بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام پر لگے رہنا ہے اسی لئے اس کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں ایک صبر اعلی الطاعۃ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل پر ثابت قدم رہنا دوسرے صبر میں عن المعصیۃ یعنی گناہوں سے بچنے پر ثابت قدم رہنا صبر کے ساتھ اِبْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ کی قید میں یہ بتلایا کہ متعلقہ صبر کوئی فضیلت کی چیز نہیں کیونکہ کبھی نہ کبھی تو بےصبرے انسان کو بھی انجام کار ایک مدت کے بعد صبر آ ہی جاتا ہے جو صبر غیر اختیاری ہو اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں نہ ایسی غیر اختیاری کفیت کا اللہ تعالیٰ کسی کو حکم دیتے ہیں اسی لئے حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا یعنی اصلی اور معتبر صبر تو وہی ہے جو ابتدائے صدمہ کے وقت اختیار کرلیا جائے ورنہ بعد میں تو کبھی نہ کبھی جبری طور پر انسان کو صبر آ ہی جاتا ہے بلکہ قابل مدح وثناء وہ صبر ہے کہ اپنے اختیار سے خلاف طبع امر کو برداشت کرے خواہ وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی ہو یا محرمات و مکروہات سے بچنا ہو اسی لئے اگر کوئی شخص چوری کی نیت سے کسی مکان میں داخل ہوگیا مگر وہاں چوری کا موقع نہ ملا صبر کر کے واپس آ گیا تو یہ غیر اختیاری صبر کوئی مدح وثواب کی چیز نہیں ثواب جب ہے کہ گناہ سے بچنا خدا کے خوف اور اس کی رضائی جوئی کے سبب سے ہو۔
ساتویں صفتوَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ۔ اقامت صلوۃ کے معنی نماز کو اس کے پورے آداب و شرائط اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا ہے محض نماز پڑھنا نہیں اسی لئے قرآن کریم میں عموما نماز کا حکم اقامت صلوۃ کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔
آٹھویں صفت(آیت) وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً یعنی وہ لوگ جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ اللہ کے نام پر بھی خرچ کرتے ہیں اس میں اشارہ کیا گیا کہ تم سے جس مال زکوٰۃ وغیرہ کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے وہ کچھ تم سے نہیں مانگتا بلکہ اپنے ہی دیئے ہوئے رزق کا کچھ حصہ وہ بھی صرف ڈھائی فی صد قلیل و حقیر مقدار میں آپ سے مانگا جاتا ہے جس کے دینے میں آپ کو طبعا کوئی پس و پیش نہ ہونی چاہئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ساتھ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً کی قید سے معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات میں ہر جگہ اخفاء ہی مسنون نہیں بلکہ بعض اوقات اس کا اظہار درست و صحیح ہوتا ہے اسی لئے علماء نے فرمایا زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اعلان و اظہار ہی افضل و بہتر ہے اس کا اخفاء مناسب نہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی تلقین اور ترغیب ہو البتہ نفلی صدقات کا خفیہ دینا افضل و بہتر ہے جن احادیث میں خفیہ دینے کی فضیلت آئی ہے وہ نفلی صدقات ہی کے متعلق ہے
نویں صفت ہے يَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یعنی یہ لوگ برائی کو بھلائی سے دشمنی سے ظلم کو عفو و درگذر سے دفع کرتے ہیں، برائی کے جواب میں برائی سے پیش نہیں آتے، اور بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ گناہ کو نیکی سے دفع کرتے ہیں یعنی اگر کسی وقت کوئی خطاء و گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس کے بعد اطاعت و عبادت کی کثرت اور اہتمام اتنا کرتے ہیں کہ اس سے پچھلا گناہ محو ہوجاتا ہے حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو وصیت فرمائی کہ بدی کے بعد نیکی کرلو تو وہ بدی کو مٹا دے گی مراد یہ ہے کہ جب اس بدی اور گناہ پر نادم ہو کر توبہ کرلی اور اس کے پیچھے نیک عمل پیچھلے گناہ کو مٹا دے گا بغیر ندامت اور توبہ کے گناہ کے بعد کوئی نیک عمل کرلینا گناہ کی معافی کے لئے کافی نہیں ہوتا
اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کی یہ نو صفتیں بیان کرنے کے بعد ان کی جزا یہ بیان فرمائی اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّار دار سے دار آخرت ہے یعنی انہی لوگوں کے لئے دار آخرت کی فلاح اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ دار سے مراد دار دنیا ہے اور مراد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو اگرچہ اس دنیا میں تکلیفیں بھی پیش آتی ہیں مگر انجام کار دنیا میں بھی فلاح و کامیابی انھی کا حصہ ہوتا ہے آگے اسی عُقْبَى الدَّار یعنی دار آخرت کی فلاح کا بیان ہے
3 وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ سے معلوم ہوا کہ صبر کے جو فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں کہ صبر کرنے والے کو اللہ جل شانہ کی معیت اور نصرت و امداد حاصل ہوتی ہے اور بےحساب اجر وثواب ملتا ہے وہ سب اسی وقت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے صبر اختیار کیا ہو ورنہ یوں تو ہر شخص کو کبھی نہ کبھی صبر آہی جاتا ہے
صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور ثابت قدم رہنے کے ہیں جس کی مختلف صورتیں ہیں ایک مصیبت اور تکلیف پر صبر کہ گھبرائے نہیں اور مایوس نہ ہو اللہ تعالیٰ پر نظر رکھے اور امیدوار رہے دوسرے اطاعت پر صبر کہ احکام الہیہ کی پابندی اگرچہ نفس کو دشوار معلوم ہو اس پر قائم رہے تیسرے معصیت اور برائیوں سے صبر کہ اگرچہ نفس کا تقاضا برائی کی طرف چلنے کا ہو لیکن خدا تعالیٰ کے خوف سے اس طرف نہ چلے۔
4 وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا خفیہ اور علانیہ دونوں طرح سے درست ہے البتہ افضل یہ ہے کہ صدقات واجبہ زکوٰۃ صدقہ الفطر وغیرہ کو علانیہ ادا کرے تاکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ادائیگی کی ترغیب ہو اور صدقات نافلہ جو واجب نہیں ان کو خفیہ ادا کرے تاکہ ریا کاری اور نام ونمود کے شبہ سے نجات ہو۔
5 يَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ سے معلوم ہوا کہ ہر برائی کو دفع کرنا جو عقلی اور طبعی تقاضا ہے اسلام میں اس کا طریقہ یہ نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دے کر دفع کیا جائے بلکہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرو جس نے تم پر ظلم کیا ہے تم اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو جس نے تمہارے تعلق کا حق ادا نہیں کیا تم اس کا حق ادا کرو جس نے تم پر غصہ کیا تم اس کا جواب حلم و بردباری سے دو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن بھی دوست ہوجائے گا اور شریر بھی آپ کے سامنے نیک بن جائے گا۔
اور اس جملہ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ گناہ کا بدلہ اطاعت سے ادا کرو کہ اگر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فورا توبہ کرو اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ تو اس سے تمہارا پچھلا گناہ بھی معاف ہوجائے گا۔
حضرت ابوذر غفاری ؓ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم سے کوئی برائی یا گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بعد تم نیک عمل کرلو اس سے وہ گناہ مٹ جائے گا (رواہ احمد بسند صحیح، مظہری) اس نیک عمل کی شرط یہ ہے کہ پچھلے گناہ سے توبہ کر کے نیک عمل اختیار کرے۔
Top