Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کریں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ایک گروہ فَوْجًا : ایک گروہ مِّمَّنْ : سے۔ جو يُّكَذِّبُ : جھٹلاتے تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَهُمْ : پھر وہ يُوْزَعُوْنَ : انکی جماعت بندی کی جائے گی
اور جس روز ہم ہر امت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو ان کی جماعت بندی کی جائے گی
83 تا 88۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کا حال بیان فرمایا ہے کہ جس روز ہم قرآن کے جھٹلانے والوں کے ہر ایک فرقہ کو گھیر کر بلاویں گے پھر ان کی مثل بنے گی ہر گناہ والے قسم دار ہوں گے زنا کرنے والے علیحدہ چور علیحدہ شرابی علیحدہ پھر اللہ تعالیٰ جھڑ کے طور پر احکام کے جھٹلانے والوں کو اور ٹالنے والوں سے سوال کرے گا کہ تم دنیا میں کیا کم کرتے رہے اس جھڑ کی کے سوال کے بعد مشرک لوگ عذاب کے قابل قرار پاویں گے۔ اور جب وہ لوگ اپنے شرک سے انکار کریں گے تو ان کے منہ پر مہر لگائی جائے گی ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی لی جاوے گی صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں یہ اعضا کی گواہی کا ذکر ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے حشر کے منکروں کو اس طرح اپنی قدرت کا ملہ پر متنبہ کیا کہ یہ لوگ کیا غور وفکر نہیں کرتے کہ ہم نے بنائی رات کی چین پکڑیں اس میں اور بنایا دن کو روشنی کرنے والا جس کے سبب سے یہ لوگ معاش پیدا کریں جس کے اندر نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں اب اللہ تعالیٰ قیامت کے اس ہول کی خبر دیتا ہے جو صور کے پھونکے جانے کے وقت پیدا ہوگا معتبر سند سے ترمذی اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عمر ؓ بن والعاص سے روایت 1 ؎ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صور ایک سینگ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے جس میں اسرافیل (علیہ السلام) پہلا صور پھونکیں گے جس سے تمام مخلوق پہلے گھبرا جائے گی اور پھر مرجائے گی بعد اس کے خدا کے روبرو کھڑے ہونے کے لیے دوسرا صور پھونکا جائے گا جس سے تمام مروے قبروں سے نکل کر خدا کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے پھر فرمایا کہ یہ پہاڑ جو اللہ کی قدرت اور صنعت سے مضبوط اور جمے ہوئے نظر آتے ہیں صور کے صدمہ سے بادلوں کی طرح چلنے لگیں گے بعد اس کے قیامت کے دن کی سزا سے ڈرانے کے لیے فرمایا کہ اللہ لوگوں کے ہر طرح کے عملوں سے اچھی طرح خبردار ہے رات کا سونا اور دن کا جاگنا حشر کا ایک نمونہ ہے اس لئے حشر کے ذکر کے بعد رات اور دن کی ذکر فرمایا صحیح بخاری میں حذیفہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے نیند کی مثال موت کی اور نیند سے پھر ہوشیار ہوجانے کی مثال دوبارہ زندہ ہونے کی فرمائی ہے اس سے سونے اور جگنے کو حشر کو نمونہ قرار دیا جاتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے رات کے عمل دن کے عملوں سے پہلے اور دن کے عمل رات کے عملوں سے پہلے اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہوجاتے ہیں یہ حدیث انہ خبیر بماتفعلون کو گویا تفسیر ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا پہلے صور کی گھبراہٹ سے شہید لوگ امن میں رہیں گے یہ حدیث الامن شاء اللہ کی گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ 482 باب انفخ فی الصور۔ ) (1 ؎ مشکوۃ ص 208 باب مایقول عندا الصباح وانمتأ والمنام ‘ ) (2 ؎ فتح الباری ص 163 ج 6 باب نفخ الصور ‘
Top