Tafseer-e-Saadi - Maryam : 37
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ : پھر اختلاف کیا الْاَحْزَابُ : فرقے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : آپس میں (باہم) فَوَيْلٌ : پس خرابی لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : کافروں کے لیے مِنْ : سے مَّشْهَدِ : حاضری يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
پھر (اہل کتاب کے) فرقوں نے باہم اختلاف کیا سو جو لوگ کافر ہوئے ان کو بڑے دن (یعنی قیامت کے روز) حاضر ہونے سے خرابی ہے
آیت 37 جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیھا السلام کا حال بیان فرما دیا جس میں کوئی شک اور شبہ نہیں تو آگاہ فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر فرقے اور گروہ جو گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں، اپنے اپنے طبقات کے اختلاف کے مطابق، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اس بارے میں ایک گروہ افراط اور غلو میں مبتلا ہے تو دوسرا ان کی شان میں تنقیص اور تفریط کرنے والا ہے۔ پس ان میں سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ مانتے ہیں۔ بعض ان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں، بعض کہتے ہیں وہ تین میں سے ایک ہیں، بعض ان کو رسول بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ وہ بہتان طرازی کرتے ہیں کہ وہ (معاذ اللہ) ولدالزنا ہیں۔۔۔. مثلاً : یہودی وغیرہ۔ ان تمام گروہوں کے اقوال باطل اور ان کی آراء فاسد ہیں جو شک وعناد، بےبنیاد شبہات اور انتہائی بودے دلائل پر مبنی ہیں۔ اس قبیل کے تمام لوگ انتہائی سخت وعید کے مستحق ہیں، اسی لئے فرمایا : (فویل للذین کفروا) ” پس ہلاکت ہے کافروں کے لئے “ جو اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرتے ہیں، ان میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کفریہ کلمات کہتے ہیں : (من مشھد یوم عظیم) ” بڑے دن کی حاضری سے “ یعنی قیامت کے روز جب اولین و آخرین سب حاضر ہوں گے، زمین اور آسمانوں کے تمام رہنے والے، خالق اور مخلوق موجود ہوں گے اس وقت بیشمار زلزلے ہوں گے اور اعمال کی جزا پر مشتمل ہولناک عذاب ہوں گے تب ان کا وہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا جو کچھ وہ چھپاتے یا ظاہر کیا کرتے تھے۔ (اسمع بھم و ابصر یوم یاتوننا) ” کیا خوب وہ سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے جس دن آئیں گے وہ ہمارے پاس “ اس روز وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے۔ پس وہ اپنے کفر و شرک پر مبنی اقوال و نظریات کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے : (ربنا ابصرنا و سمعنا فارجعنا نعمل صالحا انا موقنون) (السجآ : 23 /21) ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔ پس ہمیں دنیا میں واپس بھیج تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا۔ “ پس قیامت کے روز اس حقیقت کا یقین آجائے گا جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ (لکن الظلمون الیوم فی ضلل مبین) ” لیکن ظالم لوگ آج صریح گمراہی میں ہیں۔ “ اس گمراہی کا ان کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ، بصیرت کے ساتھ حق کو پہچان کر عناد کی بنا پر روگردانی کرتے ہوئے گمراہ ہوئے ہیں اور کچھ لوگ حق و صواب کو پہچاننے کی قدرت رکھنے کے باوجود، راہ حق سے بھٹک گئے اور اپنی گمراہی اور بداعمالیوں پر راضی ہیں اور باطل میں سے حق کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے (فاختلف الاحزاب من بینھم) کہنے کے بعد کیسے فرمایا : (فویل للذین کفروا) اور (فویل لھم) نہیں فرمایا کیونکہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ” الاحزاب “ ہوتا اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ حق و صواب پر تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہتا تھا : ” وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ “ پس وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی۔ یہ لوگ مومن ہیں اور اس وعید میں داخل نہیں ہیں، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف کفار کو اس وعید کے ساتھ مختص فرمایا ہے۔
Top