Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ : پھر اَوْرَثْنَا : ہم نے وارث بنایا الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفَيْنَا : ہم نے چنا مِنْ : سے۔ کو عِبَادِنَا ۚ : اپنے بندے فَمِنْهُمْ : پس ان سے (کوئی) ظَالِمٌ : ظلم کرنے والا لِّنَفْسِهٖ ۚ : اپنی جان پر وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) مُّقْتَصِدٌ ۚ : میانہ رو وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) سَابِقٌۢ : سبقت لے جانے والا بِالْخَيْرٰتِ : نیکیوں میں بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : حکم سے اللہ کے ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ (یہی) الْفَضْلُ : فضل الْكَبِيْرُ : بڑا
پھر ہم ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا تو کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ خدا کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں یہی بڑا فضل ہے
32۔ بعض مفسروں نے سورة واقعہ میں جو اہل محشر کی تقسیم ہے اس تقسیم کو اور اس آیت کی تقسیم کو ایک قرار دیا ہے اور اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے مراد کافر اور منافق لوگ لیے ہیں مگر یہ تفسیر قرآن شریف کی عبادت کے مخالف ہے کس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں قسم کے لوگوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے ساتھ فرمایا ہے وہ لوگ کافر اور منافق کیوں کر قرار دئے جاسکتے ہیں اگرچہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی ایک روایت اس تفسیر کی تائید میں بعضے مفسروں نے ذکر کی ہے لیکن وہ روایت اس روایت کے مخالف ہے جس کو علی بن طلحہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور یہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جس قدر روایتیں تفسیر کے باب میں ہیں ان میں علی بن طلحہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور یہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جس قدر روایتیں کے باب میں ہیں ان میں علی بن طلحہ کی سند سب سے بڑھ کر ہے امام بخاری (رح) نے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں اس سند کو کئی جگہ اختیار کیا ہے پھر اور کوئی سند اس سند کے کیوں کر برابر ہوسکتی ہے صحیح بخاری کی حدیث اور تفسیر کی اور کتابوں پر اسی سبب سے مقدم ہے کہ صحیح بخاری کی سند اور کتابوں سے اچھی ہے یہی قاعدہ علی بن طلحہ کا اس روایت میں اور اور روایتوں میں برتا جاوے گا غرض علی بن طلحہ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جو روایت کی ہے وہ یہی ہے کہ اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے وہ گناہ گار اہل اسلام مراد ہیں جو اپنے گناہوں کے سبب سے میدان حشر میں دیر تک رو کے جاویں گے پھر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر ان کو جنت میں داخل کرے گا اور اسی مضمون کی اور حدیثیں بھی اس آیت کی تفسیر میں ہیں جس سے بڑی قوت اس تفسیر کو حاصل ہوتی ہے اسی واسطے براء بن عازب قسم کھا کر اس تفسیر کو بیان کیا کرتے تھے 2 ؎ (2 ؎ تفسیر فتح البیان ص 722 ج 3) اور اسی واسطے جمہور مفسربن نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے تفسیر ابن جریر وغیرہ کی روایتوں 3 ؎ سے معلوم ہوتا ہے (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 252 ج 5۔ ) کہ پہلے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو اس آیت کی تفسیر میں شبہ تھا اسی شبہ کے سبب سے انہوں نے اس آیت کی تفسیر ایک روز کعب سے پوچھی جب کعب احبار نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی جان پر ظلم کرنے والا جن لوگوں کو فرمایا ہے ان لوگوں کے علاوہ اہل دوزخ کا ذکر جدا فرمایا ہے اس واسطے اس آیت میں جن لوگوں کو اپنی جان پر ظلم کرنے والا فرمایا ہے ضرور وہ گناہ گار اہل اسلام ہیں جو آخر کو جنت میں داخل ہوں گے یہ بات جب حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کعب سے سنی تو پھر کعب سے زیادہ کچھ بحث نہیں کی اور کعب کی اس بات کو مان لیا اسی واسطے اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے دو روایتوں سے زیادہ صحیح ہے اور حدیث نبوی سے بھی اس روایت کی تائید ہوتی ہے مسند امام احمد کی ابودار داء کی روایت میں یہ جو شبہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے کیوں کہ علی بن عبداللہ الازدی تابعی نے اس حدیث کو ابودردائو ؓ صحابی سے نہیں سنا ‘ یہ شبہ یوں رفع ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کو علی بن عبداللہ الازدی نے ایمن بن ثابت سے بھی روایت کیا ہے اور ابوثابت کا مسجد دمشق میں ابوداردائ ؓ صحابی سے ملنا اس اس حدیث کا سننا ابن جریر (رح) کی صحیح روایت سے ثابت ہوتا 1 ؎ ہے (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 555 ج 3 و تفسیر ابن جریر ص 137 ج 22۔ ) اس صورت میں یہ حدیث مرسل نہیں ہے کیوں کہ کسی حدیث کو تا بعی آنحضرت ﷺ سے روایت کرے تو وہ روایت مرسل کہلاتی ہے اس سلسلہ روایت میں جب کہ ابودارداء صحابی کا واسطہ موجود ہے تو پھر یہ روایت مرسل کیوں کر ہوسکتی ہے علاوہ اس کے مسند امام احمد ترمذی بیہقی وغیرہ میں معتبر سند 2 ؎ سے ابوسعید خدری ؓ کی اسی مضمون کی روایت موجود ہے (2 ؎ فتح البیان ص 620 ج 3 و تفسیر ابن کثیر ص 555 ج 4) جس سے علی بن عبداللہ کی مرسل روایت کو تقویت ہوجاتی ہے اور اس طرح کی تقویت کے سعد مرسل روایت کے مقبول ہونے میں علماء کا کچھ اختلاف باقی نہیں رہتا۔ ابودردائ ؓ کی حدیث کے موافق آیت کے اس ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کے گنہگار لوگ دیر تک میدان محشر میں رو کے جاک پھر جنت میں جاویں گے بیچ کی چال والوں کا حساب جلدی سے ہو کر اور نیک کاموں میں سبقت اور چستی کرنے والے بلا حساب جنت میں چلے جائیں گے اسی کو بڑی بزرگی فرمایا ہیں۔
Top