Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 24
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ
وَيَطُوْفُ : اور گھوم رہے ہوں گے عَلَيْهِمْ : ان پر غِلْمَانٌ لَّهُمْ : نو عمر خادم ان کے لیے كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ : گویا کہ وہ موتی ہیں مَّكْنُوْنٌ : چھپے ہوئے۔ چھپا کر رکھے ہوئے
اور نوجوان خدمتگار (جو ایسے ہوں گے) جیسے چھپائے ہوئے موتی ان کے آس پاس پھریں گے
24۔ 28۔ جو موتی کام میں لایا جائے وہ ذرا میلا ہوجاتا ہے ان غلاموں کا رنگ ایسا آبدار ہوگا جس طرح بےکام میں لایا ڈبیا میں رکھا ہوا موتی آبدار ہوتا ہے۔ بعض مفسروں نے لکھا ہے کہ مشرکوں کے نابالغ بچے جو مرجاتے ہیں یہ وہی ہیں لیکن اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ جنت میں اگرچہ غلام اور خدمت گار کی کچھ ضرورت نہیں وہاں سب کام اللہ کے حکم سے خود ہوجایا کریں گے لیکن عزت اور احتشام بڑھانے کے لئے ادنیٰ اہل جنت کو اسی ہزار غلام دیئے جائیں گے چناچہ ترمذی میں 1 ؎ ابو سعید خدری کی حدیث میں اس کا ذکر ہے اگرچہ ترمذی نے اس سند میں رشدین بن سعد کو منفرد کہا ہے جو بعض علماء کے نزدیک ضعیف ہے لیکن صحیح ابن حبان کی سند میں رشدین نہیں ہے۔ اب آگے یہ ذکر ہے کہ یہ متقی لوگ دنیا میں عذاب سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اس عذاب سے بچانے کی دعا کیا کرتے تھے اس حالت کو یاد کرکے جنت میں اس کا تذکرہ یوں آپس میں کریں گے کہ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے کہ اس نے ہماری دنیا کی وہ التجا سن لی اور ہم کو عذاب آخرت سے بچا لیا۔ صحیح 2 ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بندوں کا ذکر الٰہی سننے کو جو فرشتے زمین پر آتے ہیں جب وہ آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں یا اللہ تیرے بندے دوزخ کے عذاب سے خوفزدہ ہو کر اس عذاب سے تیری پناہ چاہ رہے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے ان کو عذاب آخرت سے اپنی پناہ دی۔ حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت کا اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عذاب آخرت سے دنیا میں ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو عذاب سے بچائے گا۔ (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء مالا دنی اھل الجنۃ من الکرامۃ ص 93 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب فضل ذکر اللہ تعالیٰ ص 948 ج 2 و صحیح مسلم فضل مجالس الذکر ص 344 ج 2۔ )
Top