Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 24
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ
وَيَطُوْفُ : اور گھوم رہے ہوں گے عَلَيْهِمْ : ان پر غِلْمَانٌ لَّهُمْ : نو عمر خادم ان کے لیے كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ : گویا کہ وہ موتی ہیں مَّكْنُوْنٌ : چھپے ہوئے۔ چھپا کر رکھے ہوئے
اور ان کے ارد گرد خدمت گار لڑکے ہوں گے گویا وہ موتی ہیں جو کہیں چھپائے رکھے تھے
ان کے ارد گرد خدمت گار لڑکے ہوں گے گویا وہ موتی ہوں گے جو کہیں چھپا کر رکھے گئے تھے : 24: انسانی فطرت میں جو چیزیں اس کو مرغوب ہیں اور جن کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے ان میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں جو معصوم ہوتے ہیں اور خصوصاً چھ سات سال کی عمر میں جب وہ توتلی زبان سے بات کرتے ہیں اور کسی کو اپنے معصوم ہاتھوں سے تحفہ پیش کرتے ہیں اور خصوصا جب وہ صاف ستھرے اور خبوصورت بھی ہوں اور ظاہری حسن و زیبائش سے آراستہ بھی تو طبیعت کو بہت بھاتے ہیں اور ان کی معصومیت کو دیکھ کر شاید ہی کوئی قسی القلب ہو جس کی آنکھوں میں لبھائے نہ ہوں اور اس کے دل میں ان کی معصومتی (Innocence) کا پیار نہ آئے اور جی نہ چاہے کہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے گال پر ایک دھپی دی جائے اور اس کے اس کی زبان میں اسی طرح جھوم جھوم کر بات نہ کرے اور وہ کوئی نامراد ہی ہوگا جس کے دل میں اس کی معصومیت کو دیکھ کر اس کی شکل و صورت بنانے والے اللہ رب ذوالجلا والاکرام کی صفت و کاریگری کی تعریف نہ نکلے کہ واہ سبحان اللہ بنانے والے نے اس انسان کے بچے کو کیا خوب بنایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی چھپا ہوا موتی ہے جو اس وقت سیپ کے اندر محفوظ رہا ہے اور اس کو اس دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی۔ یہ کتنا معصوم ہے اور کتنا پیارا کہ اس کو دیکھتے ہی پیار امنڈ آیا ہے۔ غلمان ، جمع ہے غلام کی اور غلام چھوٹے معصوم بچے اور نوجوان دونوں کو کہتے ہیں لیکن کلام کا سیاق وسباق اس کی عمر متعین کرتا ہے کہ آیا اس جگہ مراد معصوم بچہ ہے یا امرد نوجوان لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے اس حقیقت کو دیکھنے کی کبھی پروا نہیں کی بلکہ اس معاملہ میں ہمیشہ لکیر کے فقیر بنے رہے۔ سورة کہف میں صاحب موسیٰ نے جس غلام کو تقل کیا تھا اس کو معصوم بچہ بنا دیا ہے اور ان غلمان کو جو معصوم بچے ہیں جیس کہ قرآن کریم کی عبارت تقاضا کر رہی ہے لیکن انہوں نے ان کو نوجوان اور امرد بنا دیا ہے حالانکہ کانہم لولو مکنون کے الفاظ جو ان کو سیپ میں چھپے ہوئے موتی کہہ رہے ہیں ان کو نوجوان اور امرد کیسے کہا جاسکتا ہے۔ صنف نازک کا معاملہ اور ہے لیکن بچہ ہو یا بچی جب وہ تین چار سال سے پانچ چھ سال کی عمر میں ہوتا ہے تو اس کی ہر ادا سے معصومیت ٹپک رہی ہوتی ہے اور اس کو دیکھ کر انسان کا دل فی الواقعہ اس کو ایک گھونگا یا موتی ہی تصور کرتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ اس کو گود میں بٹھا کر ، چھاتی سے لگا کر اس کے سر اور گال پر بوسہ دے کر اس کی معصومیت سے پیار کرے اور جب وہ اپنا پوتا یا دوہتا بھی ہو یا کسی دوست و عزیز کا عزیز ہو تو اس سے پیار کرنے کو کون پسند نہیں کرے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی اپنے دوہتے کو اس طرح پیار کیا اور اس کا گال چوم لیا تو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک بدو نے جس کے نام کا بھی حدیث میں تذکرہ کیا گیا ہے کہا کہ یارسول اللہ ! میرے پاس تو دس بچے ہیں لیکن آج تک میں نے کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تیرے دل میں بجائے قلب کے اللہ نے پتھر رکھ دیا ہے تو میں اس کا کیا کرسکتا ہوں ؟ کسی کی تکلیف کو دیکھ کر دل کا بھر آنا اور آنسوؤں کا بہہ نکلنا اور کسی معصوم بچہ کو دیکھ کر اس کی معصومیت کو پیار کرنا رقیق القلب ہونے اور ایک اچھا دل رکھنے کی نشانی ہے۔ اس لیے ہم نے اس جگہ نوجوان خدمت گزار مراد نہیں لیے کیونکہ ان سے نہ تو چارہ لدوانا ہے اور نہ ہی کوئی زور کا کام کروانا ہے بلکہ ان سے پھولوں کا گلدستہ ہی وصول کرنا ہے یا ان کو دیکھ کر دل کو خوش کرنا ہے اور وہ ان کی معصومیت ہی کے پیش نظر وصول کیا جائے گا جو ہماری سمجھ میں آیا ہے اور جو کچھ قرآن کریم کا سیاق وسباق کہہ رہا ہے وہ یہی ہے جس کو ہم نے عرض کیا ہے۔
Top