Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُهُمْ : ان کو جمع کریں گے جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے اَشْرَكُوْٓا : شرک کیا (مشرکوں) اَيْنَ : کہاں شُرَكَآؤُكُمُ : تمہارے شریک الَّذِيْنَ : جن کا كُنْتُمْ : تم تھے تَزْعُمُوْنَ : دعوی کرتے
اور جس دن ہم سب لوگوں کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے پوچھیں گے کہ (آج) وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جن کا تمہیں دعویٰ تھا ؟
(22 ۔ 24) ۔ اوپر جن لوگوں کے حق میں یہ فرمایا کہ لوگ کبھی فلاح کو نہ پہنچیں گے ان لوگوں کی تنبیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے بتوں کو خدا کا شریک جو ٹھہرا رکھا ہے اس آیت کا مضمون سمجھ کر اس سے یہ لوگ باز آویں حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ سب خلائق کو اپنے سامنے سوال جواب اور حساب کتاب کے لئے کھڑا کرے گا تو مشرکوں سے پوچھے گا کہ وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تم نے اپنے گمان میں اللہ کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا رکھا تھا ان کو بلاؤ تاکہ جس طرح موحدوں کی توحید اور نماز، روزہ نے انکا چھٹکارہ کرایا ہے وہ تمہارے معبود بھی تمہارے چھٹکارے کی کوئی صورت نکالیں، اس سوال کے وقت جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید کا چھٹکارہ معمولی حساب و کتاب کے بعد جھٹ پٹ ہوتا چلا جاتا ہے تو یہ جھوٹا بہانہ قسمیں کھا کر کریں گے کہ ہمارے گمان میں نہ اللہ کا کوئی شریک تھا نہ ہم مشرک تھے بلکہ ہم بھی دنیا میں اہل توحید میں سے تھے جن کا چھٹکارہ ہو رہا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دیوے گا اور ان کے ہاتھ پیروں کو بولنے کا حکم دیوے گا ان کے ہاتھ پیر سارا اصلی حال ظاہر کردیں گے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذرچ کی ہے جس میں ہاتھ پیروں کی گواہی کا ذکر ہے 1 ؎ یہ آیت بھی ان آیتوں میں کی ایک آیت ہے جن آیتوں کا مطلب دوسری اور آیتوں کے مخالف لوگوں نے احسن المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس سے سوالات کئے ہیں اور آپ نے جوابات دیے ہیں جو سوال جواب اتقاق 2 ؎ اور اور تفسیروں میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ چناچہ اس آیت کا مضمون آیت { وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا } کے مخالف ٹھہرا کر ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے یہ سوال کیا کہ ایک آیت سے توبہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے شرک کو اللہ تعالیٰ سے چھپا کر اپنے آپ کو اہل توحید بتلاویں گے اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپاویں گے اس آیت کا اختلاف کا رفع کیونکر ہے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا ہے کہ ایک حالت مشرکوں کے منہ پر مہر لگنے سے پہلے کی ہے اس وقت ان کو جھوٹے بہانہ کا موقع حاصل رہے گا اور دوسری حالت منہ پر مہر لگ جانے اور ہاتھ پیروں کے بولنے کی ہے اس وقت وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے 3 ؎ فتنہ کے معنی جانچ اور آزمائش کے ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ جب ان مشرک لوگوں کی جانچ اس سوال سے ہوگی جس کا ذکر آیت میں ہے تو وہ لوگ سو اس کے اور کچھ جواب نہ دیویں گے کہ وہ لوگ دنیا میں مشرک نہیں تھے جب یہ لوگ قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو شرک کا انکار کریں گے اس وقت کا ان لوگوں کا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یوں جتلایا ہے کہ اے رسول اللہ کے ذرا ان لوگوں کا حال تو دیکھو کہ اب یہ لوگ شرک کی باتوں پر کیسے اڑے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن سب شرک کی باتیں بھول کر شرک سے کس طرح صاف انکار کریں گے اور اس جھوٹے انکار پر کیسی جھوٹی قسمیں کھاویں گے یہ تو ان لوگوں کے عقبیٰ میں فلاح کو نہ پہنچنے کا حال ہوا دنیا کا یہی حال مکہ کے قحط کے وقت کا اوپر گذرچکا ہے کہ رفع قحط اور مینہ کے برسنے کی التجا رات دن ان لوگوں نے بتوں سے کی اور کچھ نہ ہوا آخر اللہ کے رسول سے دعا کی خواہش کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا پر جب رحم فرمایا تو مینہ برسا صحیح بخاری کے حوالہ سے عمران بن حصین ؓ کی حدیث جو اوپر ابھی گذری 1 ؎ وہی حدیث ان آیتوں کی بھی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود دنیا کے تجربہ اور عقبیٰ کے حال کی تنبیہ کے جو یہ لوگ اپنی شرک کی باتوں پر اڑے ہوئے ہیں اس کا سبب وہ ان کی ازلی کم بختی ہے۔
Top