Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ
: اور جس دن
نَحْشُرُهُمْ
: ان کو جمع کریں گے
جَمِيْعًا
: سب
ثُمَّ
: پھر
نَقُوْلُ
: ہم کہیں گے
لِلَّذِيْنَ
: ان کو جنہوں نے
اَشْرَكُوْٓا
: شرک کیا (مشرکوں)
اَيْنَ
: کہاں
شُرَكَآؤُكُمُ
: تمہارے شریک
الَّذِيْنَ
: جن کا
كُنْتُمْ
: تم تھے
تَزْعُمُوْنَ
: دعوی کرتے
اور جس دن ہم اکٹھا کریں گے ان سب کو ‘ پھر کہیں گے ہم ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ‘ کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جن کے بارے میں تم گمان کرتے تھے
ربط آیات گزشتہ آیات میں مشرکین کا ذکر ہوا جنہوں نے اپنی فطری اور عقلی قوتوں کو ضائع کردیا۔ وہ شرک کے مرتکب ہو کر ابدالآباد تک نقصان ہی اٹھاتے رہیں گے۔ پھر اللہ نے اپنے پیغمبر کی زبان سے شرک سے بیزاری کا اعلان کروایا۔ جو لوگ آپ کی نبوت اور رسالت پر اعتراض کرتے تھے اور اس کا انکار کرتے تھے ان کو ان کے برے انجام سے خبردار کیا گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر افتراء باندھتا ہے ‘ وہی الٰہی کا انکار کرتا ہے یا نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے ۔ جو شخص اللہ کے بارے میں بیٹے کا اعتقاد رکھتا ہے۔ یا کسی کو اس کی ذات ‘ صفات یا عبادت میں شریک کرتا ہے ‘ وہ بھی سب سے بڑا طالم ہے۔ اسی طرح اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے کو بھی اپنا انجام سوچ لینا چاہئے ‘ یہ وہ لوگ ہیں الذین خسروا انفسھم کہ انہوں نے اپنے نفسوں کو خسارے میں ڈال لیا۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مشرکین کے ساتھ پیش آنیوالے سلوک کا ذکر کیا ہے ان کی تھوڑی سی کیفیت بیان کی ہے اور پھر ارتکاب شرک پر ان کو ڈانٹ پلائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ویوم نحشرھم جمیعاً اس دن کو اپنے دھیان میں لائو جب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ دن قیامت کا ہوگا جب تمام انسانوں کو بارگاہ رب العزت میں حاضر ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمام اولین اور آخرین کو جمع فرمائیں گے۔ ثم نقول للذین اشرکو پھر ہم ان لوگوں کو فرمائیں گے جنہوں نے شرک کیا این شرکاء کم الذین کنتم ترعمون تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہاری سفارش کریں گے اور تمہیں بچا لیں گے۔ یہ سوال ہر قسم کے شرک کرنے والوں سے ہوگا۔ انسانی سوسائٹی میں شرک کی جتنی بھی قسمیں پائی جاتی ہیں سب کے مرتکبین کو ڈانٹ پلائی جائے گی کہ لائو وہ تمہارے شریک آج کدھر گئے جن کے سہارے پر تم اللہ وحد ‘ لا شریک کو بھول کر ان کے پیچھے لگے رہے۔ قرآن پاک میں دوسرے مقام پر آتا ہے کہ قیامت والے دن تمام عابد اور معبود اکٹھے ہوں گے مگر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہاں موجود نہیں ہوں گے۔ اس اشکال کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمیہ میں شریکوں کی موجودگی کی نفی نہیں بلکہ درصال ان کی سفارش کی نفی ہے کہ وہ موجود ہونے کے باوجود سفارش نہیں کرسکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دنیا میں تو تم کہتے تھے ۔ ” ھو لاء شفعاء فاعنداللہ (یونس) اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اب انہیں کہو کہ وہ تمہاری سفارش کریں اور تمہیں چھڑا لیں ‘ مگر وہاں کوئی دم نہیں مار سکے گا۔ ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “ (بقرہ) کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اس کے پاس سفارش کرسکے اور اللہ تعالیٰ سفارش کی اجازت اس کو دیں گے جو سفارش کی شرائط پوری کرے گا یہ محض ان کو ذلیل کرنے کے لئے کہا جائے گا کہ لائو ‘ کہاں ہیں تمہارے شرکاء جن کے بارے میں تم گمان کرتے تھے۔ فرمایا جب اللہ تعالیٰ مشرکین سے یہ سوال کریں گے ۔ لم لم تکن فتنتھم پھر نہیں ہوگی ان کی آزمائش۔ فتنہ کا معنی عام طور پر آزمائش ہوتا ہے اور بعض لوگ اس کا معنی شرارت بھی کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کا معنی جواب کیا ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ پوچھیں گے ‘ ان سے سوال کریں گے ‘ تو ان کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ الا ان قالو سوائے اس کے کہ وہ کہیں گے واللہ ربنا ما کنا مشرکین اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے ‘ ہم شرک کرنے والے نہیں تھے اس وقت اللہ کے سامنے اپنے شرک کا انکار کردیں گے۔ معبو ان باطلہ کی سفارش کے معتقد مشرک اپنے شرک سے مکر جائیں گے کہ ہم تو شرک نہیں کرتے تھے۔ اس مقام پر بھی اشکال واقع ہوتا ہے۔ یہاں پر تو فرمایا ہے کہ مشرکین اپنے شرک کا انکار کردیں گے مگر دوسری جگہ آتا ہے کہ وہ اقرار کریں گے ۔ ” شاھدین علی انفسھم “ وہ خود اپنے آپ کے خلاف گواہی دیں گے کہ واقعی ہم نے گلطی کی اور کفر و شرک میں مبتلا ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ میدان حشر میں ہر شخص کے ہساب و کتاب کے لئے بڑا لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ اور اس دوران لوگ مختلف کیفیتوں سے گزریں گے جس موقع پر یہاں انکار شرک کی بات ہو رہی ہے۔ وہ بڑا مشکل وقت ہوگا ‘ لوگوں پر دہشت طاری ہوگی اور وہ کسی چیز کا خیال کئے بغیر شرک سے انکار کردیں گے مگر ان کا یہ انکار بےسو ہوگا کیونکہ جو حقیقت واقع ہوچکی ہوگی ‘ وہ چھپائی نہیں جاسکے گی اور انہیں حقیقت کا سامنا کرنا ہی ہوگا ‘ پھر دوسرے موقع پر جب ان کی حالت سنبھلے گی ‘ ہوش و حواس قائم ہوں گے تو اپنے جرائم کا خود اقرار ریں گے اور اگر زبان سے اقرار نہیں کریں گے تو ان کے اعضا بول کر گواہی دیں گے ‘ ان کے اعمالنامے ان کے سامنے ہوں گے ‘ فرشتے گواہی دیں گے بلکہ وہ خطہ ارضی گواہی دے گا جس پر جرم کا ارتکاب کیا گیا ‘ لہٰذا انکار جرم کے ذریعے بچ نکلنے کی صورت ممکن نہ ہوگی۔ اللہ نے فرمایا انظر کیف کذبوا علی انفسھم دیکھو ! انہوں نے اپنے نفسوں پر کیا جھوٹ بولا۔ انہوں نے شرک کا انکار کر کے خود اپنے آپ پر افتراء کیا وضل عنھم ماکانوا یفترون اور ان سے وہ باتیں کھو گئیں ‘ جن کا وہ افتراء کیا کرتے تھے انہوں نے جو غلط عقیدے بنا رکھے تھے وہ سب ضائع ہوجائیں گے ‘ کوئی زعم باطل کام نہیں آئے گا۔ اور انہیں اس کے سوا کچھ نہیں سوجھے گا کہ وقتی طور پر شرک کا انکار ہی کردی۔ کان ‘ آنکھ اور دل مشرکین کا حال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقین کا ذکر بھی کیا ہے۔ ومنھم من یستمع الیک اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرکان لگاتے ہیں یعنی آپ کی بات کو بڑے غور سے سنتے ہیں مگر ان کا ارادہ اور نیت آپ کی اتباع کا نہیں ہے۔ اس لئے وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اس بات سے کہ وہ اس کو سمجھیں۔ مطلب یہ کہ آپ کی بات سننے کے باوجود وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے دلوں پر پردے پڑچکے ہیں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ کوئی بات ان کے دلوں پر اثر ہی نہیں کرتی۔ جب کوئی انسان ضد ‘ عناد اور ہٹ دھرمی پر پختہ ہوجاتا ہے تو پھر اس کا دل اچھائی کو اخذ کرنے کی صلاحیت ہی کو کھو بیٹھتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ 1 ؎ تعرض الفتن علی القلوب الحصیر عودا عودا فتنے دلوں پر اس طرح وار دہوتے ہیں جس طرح ایک ایک تنکا مل کر چٹائی بن جاتا ہے۔ اور پھر وہ دل ہر قسم کی بھلائی کے لئے بند ہوجاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ پھر جوں جوں گناہ میں آگے بڑھتا جاتا ہے ‘ دل کی سیاہی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ پورا دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے ‘ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا طبع اللہ علیھا بکفر ھم “۔ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا دیئے ہیں۔ اور یہاں فرمایا ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں۔ و فی اذانھم وقرا اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے جس کی وجہ سے کسی بات کو ٹھیک طور سے سن ہی نہیں سکتے۔ کان بھاری ہونا محاورے کے طور پر بھی بولا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کانوں سے کوئی فائدہ ہی نہیں اٹھا سکتا۔ فرمایا۔ وان یروا کل ایتہ لا یومنوا بھا اور وہ ہر قسم کی نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے ‘ گویا وہ لوگ اپنی آنکھوں سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان کے سامنے بیشمار تکوینی اور تشریعی نشانیاں اور مستقل معجزات ہیں۔ اللہ کا کلام اپنی آنکھوں سے پڑھتے ہیں ‘ مگر ا س کے باوجود وہ ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اب یہاں پر تینوں چیزوں کا ذکر آ گیا یعنی ‘ کان ‘ دل اور آنکھیں ‘ یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہیں۔ ” ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا “ (بنی اسرائیل بیشک کان ‘ آنکھ اور دل کے متعلق اللہ کے ہاں بازپرس ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا و ھم لا یسمعون “ (انفال) ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر فی الحقیقت انہوں نے نہیں سنا۔ سننے کا فائدہ تو یہ ہے کہ انسان سن کر اسے دل میں جگہ دے ‘ اس پر اعتقاد رکھے اور پھر اس پر عمل پیرا ہوجائے ‘ جو ایسا نہیں کرتا ‘ اس کا سننا اور نہ سننا برابر ہے۔ امام احمد (رح) کی کتاب الصلوٰۃ میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ بہت سے لوگ ہیں یصلون ولا یصلون جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن حقیقت میں نہیں پڑھتے۔ یعنی نماز پڑھنے کا جو مسنون طریقہ ہے اس کو مدنظر نہیں رکھتے۔ نماز کے فرائض ‘ واجبات وغیرہ کا خیال نہیں رکھتے تو ان کا نماز پڑھنا یا نہ پڑھنا ایک برابر ہے۔ امام احمد صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک سو مسجدوں میں نماز پڑھی اور دیکھا کہ اکثر لوگ نماز صحیح طور پر ادا نہیں کرتے ‘ چناچہ انہوں نے کتاب الصلوٰۃ کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے تا کہ لوگ اپنی نمازیں درست کرلیں۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ ان کے کان دل اور آنکھیں تینوں چیزیں برباد ہوچکی ہیں لہٰذا ان پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ سبق آموز اور عبرتناک واقعات فرمایا اللہ کے عطا کردہ حواس سے کام ہی نہیں لیتے حتیٰ اذا جائوئک یجادولنک یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑا کرتے ہیں۔ یقول الذین کفروا اور کفر کرنے والے یوں کہتے ہیں ان ھذا الا اساطیر الاولین یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ یہ مکہ کے مشرکین کی بات ہو رہی ہے کہ جب انہیں اللہ کا قرآن پیش کیا جاتا تو وہ اسے قصے کہانیوں کا نام دے کر منہ موڑ لیتے۔ ولید ابن مغیرہ جیسا متعصب اور عنادی مشرک کہتا کہ محمد تمہیں عاد اور ثمود کی قوموں کے قصے سناتا ہے ‘ آئو میں تمہیں بہمن اور اسفند یار کے قصے سناتا ہوں ‘ اور اس طرح دوسرے لوگوں کی گمراہی کا سبب بھی بنتا۔ اساطیر یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مفرد اسطورہ ہے اور اسے انگریزی زبان میں بطور سٹوری اپنا لیا گیا ہے۔ تو وہ لوگ کہتے کہ محمد ہمیں سٹوریاں سناتا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک نے پرانی قوموں کے جو واقعات بیان کئے ہیں ‘ وہ ایام اللہ یعنی تاریخی اعتبار سے نہایت سبق آموز اور عبرتناک ہیں جہاں کہیں ایسا واقعہ بیان کیا ہے ‘ وہاں فرمایا ہے فاعتبروا یاولی الابصار “۔ اے عقلمندو ! اس سے عبرت حاصل کرو اور نصیحت پکڑو قرآن پاک نے محض افسانے کے طور پر کوئی واقعہ بیان نہیں کیا بلکہ یہ اللہ کا برحق کلام ہے ان واقعات کے بیان سے لوگوں کی اصلاح مقصود ہے۔ فرمایا خدا اور رسول کے یہ دشمن لوگوں کو وھم ینہون عنہ اس سے روکتے ہیں۔ لا کی ضمیر قرآن پاک کی طرف بھی جاتی ہے اور پیغمبر اسلام کی طرف بھی۔ یعنی مشرکین لوگوں کو قرآن پاک سننے سے بھی روکتے تھے اور نبی ﷺ کی مجلس میں جانے سے بھی منع کرتے تھے اور اس کے لئے غلط پراپیگنڈہ کرتے تھے۔ چناچہ مسلم شریف میں ضماد نامی کاہن اور حکیم کا ذکر آتا ہے ‘ جب وہ مکہ آیاتو مشرکین نے اس سے کہا کہ یہاں ایک پاگل آدمی ہے (العیاذ باللہ) اس کے پاس نہ جانا اور نہ اس کی بات سننا وہ خود بیان کرتا ہے کہ میرے دل میں خیال آیا میں طبیب ہوں اگر اس آدمی سے ملاقات ہوجائے تو اس کا علاج ہی کر دوں گا۔ چناچہ وہ بڑی مشکل سے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یا محمد انی ارقی من ھذا الریح میں کئی قسم کی بیماریوں ‘ آسیب اور جنات و جنون وغیرہ کا علاج کرتا ہوں ‘ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پر بہت سے لوگوں کو شفا دے دیتا ہے ‘ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا بھی علاج کروں۔ حضور ﷺ نے اس کو پاس بٹھایا اور الحمد للہ سے شروع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے خطبے کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر جب آپ نے اما بعد کہہ کر اس کی توجہ آگے آنے والی بات کی طرف دلائی تو وہ خطبہ کے ابتدائی حصہ سے ہی گھائل ہوچکا تھا اس نے وہی خطبہ تین دفعہ سنا اور پھر کہنے لگا۔ میں نے بڑے بڑے کاہنوں ‘ شاعروں اور خطیبوں کا کلام سنا ہے ‘ مگر مجھے یہ بات کہیں نہیں ملی جو آپ کے خطبہ میں پائی گئی ہے۔ عرض کیا۔ آپ ہاتھ بڑھائیں ‘ میں ایمان لاتا ہوں۔ مشرکین مکہ لوگوں کو حضور ﷺ کی مجلس میں جانے سے روکنے کے لئے رشوت تک دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اعشیٰ اس 1 ؎ دور کا بہت بڑا شاعر تھا مکہ آ رہا تھا تو ابوجہل اور اس کی پارٹی کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر یہ مسلمان ہوگیا ۔ تو اسلام کو بڑی تقویت حاصل ہوجائے گی ‘ کیونکہ اگر اس نے دین اسلام کی تعریف میں کچھ اشعار کہہ دیئے تو لوگوں کی کثیر تعداد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی چناچہ انہوں نے اس شاعر کو اناج کے بھرے بھرائے ایک سو اونٹ اس شرط پر دیئے کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوگا۔ شعب ابی طالب میں تین سالہ محاصرے کے دوران مشرکین مکہ اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔ کہتے ہیں کہ اعشیٰ جسے صناجتہ العرب یعنی عرب کا باجا کہا جاتا تھا ‘ ایک دفعہ عکاظ کی منڈی میں آیا ‘ وہاں کسی شخص کی جوان بچیاں تھیں جنہیں کوئی شخص قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس غریب آدمی کو کسی نے مشورہ دیا کہ اعشیٰ شاعر کی دعوت کر دو ‘ اگر اس نے خوش ہو کر تمہاری تعریف میں کچھ کہہ دیا تو تمہارا مسئلہ فوراً حل ہوجائے گا۔ چناچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا ‘ اونٹ ذبح کر کے اعشیٰ کی پرتکلف دعوت کی۔ اس نے اس شخص کی تعریف میں ایسا قصیدہ کہا کہ اس کی بچیوں کے لئے بڑے بڑے امراء کی طرف سے نکاح کے پیغامات آنے لگے ‘ اس کے کلام میں اتنا اثر تھا ‘ اعشیٰ کے اشعار اس کے دیوان میں موجود ہیں۔ بہرحال مشرکین مکہ نے ایسے شخص کو حضور ﷺ کی مجلس سے روکنے کے لئے ایک سو اونٹ بمع اناج کی رشوت دی۔ یہ شاعر یمامہ کی طرف کسی جگہ کا رہنے والا تھا ‘ جب اپنے وطن کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں ہی اونٹنی سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ اپنے ہاتھوں تباہی فرمایا مشرکین ایک کام تو یہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو آپ سے اور قرآن پاک سے روکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وینئون عنہ اور خود بھی پیغمبر اسلام کی ذات مبارکہ اور اللہ کے سچے کلام سے دور رہتے ہیں۔ اگر خود قریب نہ جاتے ‘ مگر دوسروں کو نہ روکتے تو پھر بھی کسی حد تک قابل برداشت تھا مگر ان بدبختوں نے دونوں محاذوں پر بیک وقت حملہ کیا اور دین اسلام اور پیغمبر خدا ﷺ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر ینئون عنہ سے وہ مشرکین مراد ہیں جو ایمان کی نعمت سے محروم رہنے کے باوجود آپ کی طرف داری کرتے تھے اور دشمنوں سے آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ ان میں آپ کے چچا ابو طالب پیش پیش تھے۔ مشہور ہے کہ ابو طالب نے ہمیشہ آپ کا دفاع کیا مگر خود ایمان لانے سے قاصر رہا ‘ آپ کا دین قبول نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی بھی مذمت بیان فرمائی ہے۔ فرمایا یہ لوگ دوسروں کو قریب آنے سے روکتے ہیں اور خود اس سے دور ہٹتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے وان یھلکون الا انفسھم یہ لوگ نہیں ہلاک کرتے مگر اپنی ہی جانوں کو یعنی یہ بدبخت اسلام کو تو نقصان نہیں پہنچا سکتے ‘ البتہ اپنے ہاتھوں اپنی ہی تباہی ‘ بربادی اور ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں وما یشعرون اور اتنی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ وہ کسی تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔
Top