Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُهُمْ : ان کو جمع کریں گے جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے اَشْرَكُوْٓا : شرک کیا (مشرکوں) اَيْنَ : کہاں شُرَكَآؤُكُمُ : تمہارے شریک الَّذِيْنَ : جن کا كُنْتُمْ : تم تھے تَزْعُمُوْنَ : دعوی کرتے
جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ وہ تمہارے بنائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا رب سمجھتے تھے ؟ تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے گا۔
اصل ظالم کون ہے ؟ تشریح : ان آیات میں مشرکوں کی اس پوچھ کا ذکر کیا گیا ہے جو ان سے قیامت کے دن کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مشرک دنیا میں اپنے اوپر ظلم کرتے رہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے وجود سے انکار کیا، قرآن پاک سے انکار کیا، نبی آخرالزمان ﷺ سے انکار کیا اور اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو معبود بنا بیٹھے، یعنی سورج، چاند ستارے، آگ اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بت۔ یہ انتہائی بےوقوفی کی بات ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کی بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ بنالیا۔ یہ شرک خود ان کے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی وبال بن گیا۔ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے جو مشرک اپنے اوپر کرتا ہے۔ قیامت کے دن جب اللہ ان سے سوال کرے گا کہ بھئی تمہارے وہ رب کہاں ہیں جن کی تم عبادت کرتے تھے تو مشرک حیران و پریشان ہو کر کہیں گے کہ اللہ کی قسم ! ہم نے تو کبھی شرک کیا ہی نہیں تھا تو گویا ایک جھوٹی قسم اور وہ بھی الہ العلمین کی اٹھا کر انہوں نے اپنے اوپر ایک ظلم اور کرلیا۔ وہ اس قدر پریشان اور خوف زدہ ہوں گے کہ ان کو کچھ بھی نہ سوجھے گا۔ پھر وہاں تو کسی کی سفارش بھی نہ چلے گی اور ان کے تمام خود بنائے ہوئے خدا تو وہاں کہیں بھی نظر نہ آئیں گے تب انہیں پتہ چلے گا کہ انہوں نے اپنے ساتھ خود کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ وہاں وہ بےیارومددگار حیران و پریشان افسوس کرتے ہوئے دکھائی دیں گے اور پھر جھوٹ کا سہارا لیں گے کہ ہم نے تو شرک کبھی کیا ہی نہیں۔ جب کہ وہاں تو انصاف کا دن ہوگا۔ خود ان کے ہاتھ، پائوں، آنکھیں اور زبان، غرض جسم کا ہر عضو ان کے خلاف گواہی دے گا اور پھر ان کا وہ اعمال نامہ جو دنیا میں تیار ہو کر آخرت میں ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ بالکل سچ اور یقینی ہے قرآن مجید میں بار بار اس دن اور حساب کا ذکر آتا ہے۔ یہ ضرور ہو کر رہے گا۔ اس لیے ہم سب کو اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہیے۔
Top