Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُهُمْ : ان کو جمع کریں گے جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے اَشْرَكُوْٓا : شرک کیا (مشرکوں) اَيْنَ : کہاں شُرَكَآؤُكُمُ : تمہارے شریک الَّذِيْنَ : جن کا كُنْتُمْ : تم تھے تَزْعُمُوْنَ : دعوی کرتے
وہ دن جب ہم میدان حشر میں سب کو اکٹھا کریں گے اور پھر مشرکین سے پوچھیں گے کہ وہ شرکاء جن کو تم لوگوں نے گھڑ رکھا تھا کہاں ہیں ؟
لغات القرآن : آیت نمبر 22 تا 26 : این (کہاں ؟ ) ‘ تزعمون (تم گھمنڈرکھتے ہو۔ دعویٰ رکھتے ہو) ‘ ماکنا ( ہم نہ تھے) ‘ یستمع (وہ کان لگاتا ہے۔ وہ غو سے سنتا ہے) ‘ اکنۃ (پردہ) ان یفقھو ہ ( یہ کہ وہ اس کو سمجھیں) ‘ وقر (ڈاٹ۔ بوجھ) ‘ ان یروا (اگر وہ دیکھیں) ‘ یجادلون ( وہ جھگڑتے ہیں) ‘ اساطیر (کہانیاں) ‘ ینھون ( وہ روکتے ہیں) ینئون ( وہ خود رکتے ہیں۔ دور بھاگتے ہیں) ‘ یھلکون (وہ ہلاک کرتے ہیں) ‘ مایشعرون ( وہ سمجھتے نہیں ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 22 تا 26 : میدان حشر میں سب کو اکٹھا کرنے اور مشرکوں سے پوچھنے کے درمیان ایک کشمکش وقفہ ہوگا۔ یہ وقفہ سینکڑوں ہزاروں سال بلکہ زیادہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ مجرموں کے لئے کشمکش کا عالم نفسیاتی طور پر اصلی سزا سے بدتر ہو سکتا ہے وہ بوکھلا کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے شرک نہیں کیا ہے۔ وہ اس اللہ کے سامنے جھوٹ بولیں گے جس کو ذرہ ذرہ کی نفسیات کا علم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ آزادی عطا کرے گا تاکہ اہل محشر خود دیکھ لیں کہ دیکھو مجرم اپیس جان بچانے کے لئے کتنا دلیرانہ جھوٹ گھڑ سکتے ہیں۔ آپس میں مشورہ کر کے طے کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ سارا کھیل عظیم ترین مجمع کے سامنے ہوگا ۔ اس طرح یہ سارا تما شا ان کے خلاف کھلم کھلا شہادت بن جائیگا۔ یہ مشرکین اور کفار۔ ان کے سامنے تلاش حق نہیں۔ تلاش مفاد ہے۔ تلاش جنت نہیں ‘ تلاش مال و اقتدار ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے نبی ﷺ یہ آپ کی محفل میں ایمان حاصل کرنے نہیں آتے بلکہ لوگوں کو بھڑکانے آتے ہیں کہ ان پر انے قصے کہانیوں میں کیا رکھا ہے (نعوذ باللہ) اللہ نے ان کو بہرا اندھا اور ان کے دلوں مردہ بنا ڈالا ہے ان کو شعور نہیں کہ ان حرکتوں کی سزا کیا ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہ کہ جھوٹ اور قسم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قسم کی ضرورت جھوٹے ہی کو ہوتی ہے۔ جھوٹ بولنا فطرت ثانیہ ہے۔ ایک جھوٹ کے لئے بہت سارے جھوٹے تراشنے پڑتے ہیں۔ اور کامیاب جھوٹ تراشنا تقریباً ناممکن ہے۔ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا وہ عمل کون سے ہے جس سے آدمی دوزخ میں جاتا ہے آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا ہے۔ (مسند احمد) اور معراج میں رسول اللہ نے دیکھا کہ ایک شخص کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں۔ وہ پھر درست ہوجاتی ہیں ۔ پھر چیر دی جاتی ہیں آپ نے جبرائیل امین (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ شخص کس قصور کی سزا بھگت رہا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جھوٹ انسان کے رزق کو گھٹا دیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے آپ نے فرمایا کہ آدمی اس وقت تک مومن کامل نہیں بن سکتا جب تک جھوٹ بالکل نہ چھوڑ دے۔ یہاں تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ اگلی چند آیات بھی جھوٹ کی مذمت ہی سے متعلق ہیں۔
Top