Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 103
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰي : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَظَلَمُوْا : تو انہوں نے ظلم (انکار کیا) بِهَا : ان کا فَانْظُرْ : سو تم دیکھو كَيْفَ : کیا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ ناانصافی کی تو دیکھو مفسدوں کا کیسا انجام ہوا ؟
بنی اسرائیل کے دینی و سیاسی عروج وزوال کی تاریخ کا حال : 114: اس سورة الاعراف میں جتنے قصے اور واقعات انبیاء کرام کے مذکور ہوئے ان میں یہ چھٹا قصہ ہے اور اس کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے کہ اس آیت 103 سے آیت 171 تک برابر یہ قصہ بیان ہوتا چلا گیا ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے یہ ان سرگزشتوں کا تکملہ اور تتمہ ہے جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ پہلی پانچ سر گزشتیں حضرت شعیب (علیہ السلام) پر ختم ہوئی تھیں۔ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت شعیب (علیہ السلام) کے بعد ہی شروع ہوتی ہے اور یہ معلوم ہی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک طرف تو فرعون اور اس کی قوم پر اللہ کی حجت قائم ہوئی اور ان کی تکذیب کے نتیجے میں فرعون اور اس کی قوم کا وہی انجام ہوا جو قوم نوح (علیہ السلام) ، قوم لوط (علیہ السلام) ، قوم ہود (علیہ السلام) ، قوم صالح (علیہ السلام) اور قوم شعیب (علیہ السلام) کا ہوچکا تھا۔ دوسری طرف بنی اسرائیل ایک قوم کی حیثیت سے نمایاں ہوئے اور پھر بتدریج اللہ تعالیٰ نے ان کو مذہبی پیشوائی کا منصب بھی بخشا اور سیاسی دبدبہ اور اقتدار بھی عطا فرمایا لیکن انہوں نے اس منصب اور اقتدار کی قدر نہیں کی بلکہ آہستہ آہستہ ان برائیوں سے بھی زیادہ سنگین برائیوں میں مبتلا ہوئے جن میں پچھلی قومیں مبتلا ہوئیں ان آیات میں اس سرگزشت کو شرو ع کیا جا رہا ہے فرمایا ” ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) ، فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ “ ان نشانیوں سے کیا مراد ہے ؟ ان سے مراد توحید ، قیامت اور رسالت کے وہ فطری اور عقلی دلائل مراد ہیں جو قرآن کریم کے صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرعون اور اس کی قوم کو دکھائے۔ حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اصلاً عقل و فطرت کی بنیاد پر مبنی ہوتی تھی اور حسی معجزات نبوت کے لوازم میں سے نہیں ہیں البتہ اس کے عوارض میں سے ضرور ہیں اور ان کی نوعیت بیان تمثیلی ہوتی ہے جن میں بہت بڑا مضمون کم سے کم الفاظ میں بند کردیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح دریا کو زے میں بند ہونے سے ایک چیز کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہاں ان الفاظ کا استعمال کا کیا مطلب ہے۔ بہرحال ان الفاظ کا مطلب اتنا وسیع ہے کہ اس کو کھولنے لگیں تو کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ زیر نظر آیت میں بنی اسرائیل کی پوری سرگزشت کا خلاصہ یہاں بیان فرما دیا اور آگے اس مضمون کی تشریح کی جائے گی۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا پورا واقعہ جو قرآن کریم میں بیان ہوا سورة البقرہ میں بیان کردیا ہے اور قرآن کریم کی ساری آیات کو اس جگہ جمع کردیا ہے اس جگہ ان آیات کے متعلق ہی کچھ بیان کیا جائے گا تفصیل کے لئے سورة البقرہ کی مذکورہ آیات کے حاشیوں کو دیکھ لیا جائے جو جلد اول میں مل جائیں گے۔ ” مِنْۢ بَعْدِهِمْ “ یعنی اوپر اقوام عرب کی جو سر گزشتیں بیان ہوئی ہیں اب ان کی تکمیل یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم فرعون اور بنی اسرائیل کی سرگزشت سے کی جا رہی ہے ” فَظَلَمُوْا بِهَا 1ۚ “ یعنی ان لوگوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا اور آیات الٰہی پر ظلم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے آیات الٰہی کی قدر نہ پہچانی اور شکر کی بجائے ناشکری اور قدر کی بجائے ناقدری کی اور اقرار کی بجائے انکار کیا اور ایمان کی بجائے کفر اختیار کیا کیونکہ ظلم کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس کے محل اور موقع کے خلاف استعمال کرنا اور پھر فرمایا کہ ” دیکھو مفسدوں کا کیسا انجام ہوا ؟ “ مطلب یہ ہے کہ ان کے حالات اور انجام بد پر غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔
Top