Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 10
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور بیشک مَكَّنّٰكُمْ : ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : زندگی کے سامان قَلِيْلًا : بہت کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور ہمیں نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لئے سامان معیشت پیدا کئے (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔
(10 ۔ 12) ۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانوں کو جتایا ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کئے ہیں تاکہ بندے ان احسانوں کے شکر گذرا ہوجاویں اور سوا اللہ کے اوروں کی پرستش چھوڑ دیویں اس لئے فرماتا ہے کہ ہم نے تم کو زمین میں رہنے اور گھر بنانے کی جگہ دی مکان بنانے کے باغ لگانے کی کھیتی کرنے کی تم کو عقل دی زمین کی مضبوطی کے لئے پہاڑ پیدا کئے زمین کی سر سبزی کے لئے نہریں بہادیں کھیتی سودا گری کے ہزارہا سامان معاش کے تمہارے لئے زمین میں پیدا کردئے باوجود اس کے تمہاری یہ ناشکری ہے کہ ایسے بڑے مالک کو چھوڑ کر اوروں کو پوجا کرتے ہو علاوہ اس کے تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو یہ بزرگی عطا فرمائی کہ تمام فرشتوں کو حکم سجدہ کرنے کا دیا سب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا اور حکم پروردگار کا مانا مگر ابلیس نے کہ وہ تمہارے باپ سے عدادت رکھتا تھا بسبب حسد کے آدم کو سجدہ نہ کیا اور عدول حکمی کی ابلیس تمہارا موروثی دشمن ہے تم اس سے بچتے رہو اور اس کا کہنا ہرگز نہ مانو سورة زخرف میں آویگا کہ دنیوی معاش میں اللہ تعالیٰ نے بعضے لوگوں کو خوشحال اور بعضوں کو تنگ حال جو رکھا ہے اس سے دنیا کا یہ انتظام مدنظر ہے کہ تنگ حال لوگوں کو خوش حال لوگوں کے روپے پیسے کی ضورت رہے خوش حال لوگوں کو تنگ حال لوگوں کے کام کاج کی ضرورت رہے غرض دنیا میں سب لوگ یکساں ہوتے تو دنیا کا انتظام نہ چل سکتا اس انتظام کے موافق جس کی جیسی معاش ہو اس کے موافق ہر شخص کو اس کا شکر ادا کرنا چاہئے معتبر سند سے مسند امام احمد میں نعمان بن بشیر ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص نے تھوڑی معاش کو اللہ کے نعمت جان کر اس کا شکرادا نہیں کیا وہ زیادہ معاش کا بھی شکر ادا نہ کرسکے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد میں محمود بن لبید ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگ معاش کی کمی سے گھبراتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ جس کی معاش دنیا میں کم ہوگی اس پر قیامت کے حساب کی بار بھی کم ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کی معاش زیادہ ہے اس پر دنیا میں شکر گذراری کا اور عقبے میں حساب کا بار بھی زیادہ ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں ابودرواء کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا وہ معاش کی خوش حالی جس سے آدمی دین سے غافل ہوجاوے ایسی معاش کی خوش حالی سے معاش کی تنگ حالی بہتر ہے ان حدیثوں کو پہلی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ معتبر سند سے ترمذی مسند امام احمد مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عمر ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پشت سے تمام بنی آدم کی جنتی اور دوزخی روحوں کو الگ نکالا اور فرمایا کہ یہ روحیں جنتی لوگوں کی ہیں اور یہ دوزخی لوگوں کی معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی اور ابوداؤد میں ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پتلے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی مٹی لی ہے اسی واسطے ان کی اولاد میں کوئی گورا ہے کوئی کالا کوئی نرم مزاج ہے کوئی سخت مزاج حاصل کلام یہ ہے کہ ان حدیثوں کے موافق حضرت آدم کی پشت میں تمام بنی آدم کی روحیں پیدا کی گئی تھیں اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کے جسم میں تمام بنی آدم کے جسموں کا مادہ رکھا گیا تھا اسی واسطے ایک حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کو خلقناکم ثم صورناکم فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ابو بشر حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش گویا تمام بنی آدم کی پیدائش کی بنیاد ہے سورة بقر میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور ابلیس آگ کے شعلہ سے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہیں ہے۔ اس کی زیادہ تفصیل اور فرشتوں نے جو حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کیا ہے اس کی تفصیل سورة بقر میں گذر چکی ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے لیکن خود ابلیس ملعون کی زبان سے تکبر کا اقرار کرانے کے لیے اس ملعون سے اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ جب تجھ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو پھر تجھ کو کس چیز نے روکا کہ تو نے اللہ کے حکم کے موافق سجدہ نہیں کیا اس پر اس ملعون نے وہ تکبر کا جواب دیا جو آگے کی آیت میں ہے :۔
Top