Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 10
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور بیشک مَكَّنّٰكُمْ : ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : زندگی کے سامان قَلِيْلًا : بہت کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور ہم نے تمہیں زمین میں بسا دیا اور زندگی کے سروسامان مہیا کردیئے مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم شکرگزار ہو
زمین میں ٹھکانا دینے والے اور معیشت کو بحال رکھنے والے کا شکریہ بھی ادا نہ کرسکے : 10: ” مَعَایِشَ ، معیشۃ “ کی جمع ہے یعنی عیش یا روزی کے سامان (راغب) لفظ عیش حیوان کی زندگی سے مخصوص ہے یعنی ایسی زندگی جس سے جسمانیت کا جزو غیر منفک ہے اور اسی طرح قرآن کریم میں روحانی زندگی پر بھی لفظ عیش کا بولا گیا ہے جیسے عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ007 (القارعہ 101 : 7) زیر نظر آیت سے بعض آیات آفاقیہ وانفسیہ کا بیان شروع ہوتا ہے جس سے ایک طرف حق تعالیٰ کے وجود پر کارخانہ عالم کے حکیمانہ نظم ونسق سے استدلال کر کے اور احسانات و انعامات خداوندی کا تذکرہ کر کے اس کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسری طرف نبوت کی ضرورت ، نبیوں اور رسولوں کی آمد ، ان کی سیرت ، ان متبعین و مخالفین کا انجام جو اس سورت کا اصل موضوع ہے اس کے بیان کے لئے گویا یہ آیت تمہید ہے۔ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن خطاب اول چونکہ قریش سے ہے اس لئے اس سے مراد زمین حرم بھی لی گئی ہے جس میں قریش کو اختیار واقتدار حاصل تھا۔ اس طرح ” مَعَایِشَ “ سے اشارہ ان معاشی سہولتوں اور برکتوں کی طرف قرار دیا جاسکتا ہے جو ایک وادی غیر ذی زرع میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور بیت اللہ کی برکت سے اہل عرب کو عموماً اور قریش کو خصوصاً حاصل تھیں۔ لیکن آیت کا مفہوم عام انعامات جو تمام انسانوں پر کئے گئے مراد لینا اپنے اندر زیادہ وسعت رکھتا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرما کر حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب اس طرح دی گئی کہ ہم نے تم کو زمین پر پوری قدرت اور تصرف مالکانہ عطا کیا اور پھر اس میں تمہارے لئے سامان عیش حاصل کرنے کے ہزاروں سے بھی متجاوز راستے کھول دئیے گئے گو رب کریم نے زمین کو انسانوں کی تمام ضروریات سے لے کر تفریحی سامان تک عظیم الشان گودام بنا دیا اور تمام انسانی ضروریات کو اس کے اندر پیدا فرما دیا اس طرح آسمان و زمین کے خلا میں اور آسمان و زمین کے اندر جو کچھ ہے وہ انسانوں ہی کے فائدہ کے لئے ہے۔ اب انسان کا کام کیا رہا ؟ صرف یہ کہ اس گودام سے اپنی ضروریات کو نکالنے اور ان کے استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھ لے۔ غور کرو کہ انسان کو ہر علم وفن اور سائنس کی نئی نئی ایجادات کا حاصل اس کے سوا کچھ ہے کہ خالق کائنات کی پیدا کی ہوئی چیزیں جو ہماری اس زمین کے گودام میں موجود ہیں اور بالکل محفوظ بھی ہیں ان کو سلیقہ کے ساتھ نکالے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے۔ ایک بیوقوف اور بد سلیقہ آدمی جو اس گودام سے نکالنے کا طریقہ نہیں جانتا یا پھر اس سے نکال کر اس کے استعمال کا طریقہ نہیں سمجھتا وہ ان کے منافع سے محروم رہتا ہے اور سمجھدار آدمی دونوں چیزوں کو سمجھ کر ان سے نفع اٹھاتا ہے۔ مختصر یہ کہ ساری ضروریات انسانی اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دی ہیں یعنی ان کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار ہو مگر وہ غفلت میں پڑ کر اور دنیا کی اس شیرینی میں مصروف ہو کہ جس کو اللہ ہی نے پیدا کیا تھا اس نے اپنے حقیقی خالق ومالک کے احسانات کو بھول جاتا ہے اور انہی اشیاء میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں اکثر جگہ بطور شکایت یہ ارشاد فرمایا گیا کہ : قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (رح) 0010 یعنی تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو یا تم لوگوں میں بہت ہی کم ہیں جو شکر ادا کرتے ہیں اور تمہاری اکثریت ناشکروں اور ناقدروں ہی کی ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ جس اللہ نے اس زمین میں تمہاری ضرورت کی ہرچیز رکھی تاکہ تمہارے اجسام کو ترقی ہو اس نے تمہاری روح کی غذا کا بھی مکمل طور پر بندوبست کیا اور انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کر کے تمہاری روح کی غذا بھی بہم پہنچائی۔
Top