Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم نے ان کو جماعت جماعت کر کے ملک میں منتشر کردیا۔ بعض ان میں سے نیکو کار ہیں اور بعض اور طرح کے (یعنی بدکار) اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں (دونوں) سے ان کی آزمائش کرتے رہے تاکہ (ہماری طرف) رجوع کریں۔
(168 ۔ 170) ۔ یہود کی سلطنت جب تباہ ہوئی تو آپس میں ایسی پھوٹ پڑگئی جس سے یہ مختلف شہروں میں کچھ ادھر کچھ ادھر ہوگئے۔ اور مختلف مذہب پیدا ہوگئے اسی بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ ہم نے یہود کو متفرق گروہ بنا دیا اور دنیا کے اطراف میں ایک کو دوسرے سے جدا کردیا سلطنت کی باگ ان کے ہاتھ سے نکال دی یہ لوگ ہر سرزمین میں پریشان ہوگئے کوئی شاخ ان کی باقی نہ رکھی جہاں بستیاں ہیں وہاں دوسرے کے زیرحکومت میں پھر فرمایا کہ بعض ان میں صالح اور نیک بخت ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پہلے اپنے دین پر قائم رہے کوئی تبدیل اور تحریف کتاب آسمانی میں انہوں نے نہیں کی اور مرتے دم تک خدا کے احکام پر عمل کرتے رہے اور جو آنحضرت ﷺ کی رسالت تک باقی رہے وہ آپ پر ایمان لائے اور بعضے یہود ایسے بدکردار ہیں جنہوں احکام الٰہی کو بدل ڈالا اور اپنے دین سے پھرگئے اس میں طرح طرح کی تراش وخراش کی۔ اللہ نے ان کو ہر طرح سے جانچا کبھی تندرستی اور کبھی تکلیف و رنج ان پر نازل کیا کبھی عذاب بھیج کر آزمایا کہ شاید اپنے فعل پر نادم ہو کر حق کی طرف رجوع کریں لیکن کچھ نہ ہوا جو اولاد بھی ان کی پیدا ہوئی وہ بھی ایسی ناخلف ہوئی کہ توریت کے وارث بن کر دنیا کی طمع کرنے لگی ان کے نزدیک رشوت کا لینا ایک ادنی بات تھی۔ سدی کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں جب کوئی قاضی بنتا تھا رشوت لے کر فیصلہ کردیا کرتا تھا قوم کے نیک بخت لوگ جمع ہو کر قاضی بننے والے شخص سے یہ قول وقرار لیتے تھے کہ تم ایسا کام ہرگز نہ کرنا مگر جب کوئی قاضی ہوا اور لگا رشوت لینے جب اس سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ تم عہد کرچکے تھے کہ رشوت نہ لو گے اب یہ کیا بات ہے اس عہد کو بھول گئے تو جواب دیتا تھا کہ خدا بخش دے گا بنی اسرائیل کی قوم مل کر اس پر طعن وتشنیع کرتے تھے پھر اس قاضی کے مرنے کے بعد ان لوگوں میں سے کوئی قاضی ہوتا تو وہ بھی وہی حرکت کرنے لگتا تھا سدی کے اس قول کے موافق آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب طعن تشنیع کرنے والوں میں کچھ لوگ قاضی ہوئے اور ان کے سامنے دنیا کی دولت آئی تو منہ میں پانی بھر آیا حلال حرام کچھ نہ سمجھا اور جس طرح بن پڑا اس کے لینے میں دربغ نہ کیا اور پھر یہ امید رکھی کہ خدا معاف کریگا۔ اسی کو اللہ پاک نے فرمایا کہ کیا اس سے تورات میں یہ عہد نہیں لے لیا گیا تھا کہ حق کے سوا اور کچھ نہ کہنا حق کو کبھی نہ چھپانا پھر اس کے بعد اللہ جل شانہ نے یہ فرمایا کہ آخرت تو اسی کے حصہ میں ہے جو خدا سے ڈرتا ہوا اور وہاں جو کچھ بہتری ہونے والی ہے انہی متقیوں کو ہوگی یہ لوگ تو سمجھے کے اندھے کچھ بھی عقل سے کام نہیں لیتے ہیں نور دنیا کی طلب میں مدہوش ہو رہے ہیں نہ حلال سمجھتے ہیں نہ حرام جو کچھ سامنے آجاتا ہے کئے چلے جاتے ہیں پھر اللہ پاک نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو کتاب کو اس طرح مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں کہ اس ہر ایک امر ونہی کو بجالاتے ہیں نماز بھی پڑھتے ہیں ایسے لوگوں کے حق میں فرمایا کہ ہم صلاحیت اور نیکی پر قائم رہنے والوں کا بدلہ اور اجر ضائع نہیں کرتے ہیں آخرت میں اس کا اجرا نہیں دیں گے :۔
Top