Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور زمین پر ہم نے انہیں مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیا ان میں سے (بعض) نیک بھی تھے اور ان میں سے (بعض) اس کے علاوہ بھی اور ہم انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید وہ باز آجائیں،242 ۔
242 ۔ (اپنی مجرمانہ حرکتوں سے، اور ایمان و اطاعت کی طرف لوٹ آئیں) ای لیرجعوا عن کفرھم (قرطبی) یرید کے یتوبوا (کبیر) (آیت) ” بلونھم “۔ ضمیر جمع افراد کی طرف نہیں بلکہ مجموعا قوم یا امت کی طرف ہے۔ قومی خوشحالی کی مثالیں یہ ہیں کہ قوم معزز ہو، دولت مند ہو، صحیح، تندرست ہو، قومی بدحالی کی مثالیں یہ ہیں کہ قوم محکوم وماتحت ہو، ذلیل و ضعیف ہو، مفلس وتنگدست ہو، (آیت) ” بلونھم بالحسنت والسیات “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہاں مراد تو ظاہری ومادی تنگی وفراخی ہے لیکن بندہ کا ابتلا کبھی حسنات باطنی سے بھی کیا جاتا ہے۔ مثلا معاصی کے ہوتے ہوئے بھی ذوق ووجد حاصل ہوجاتا ہے اس سے بندہ کو دھوکا ہوتا ہے کہ میں حق پر ہوں حالانکہ وہ باطل پر ہوتا ہے تو اگر معصیت کے ساتھ بسط جمع ہوجائے تو وہ استدراج ہے اس سے دھوکانہ کھانا چاہیے۔ (آیت) ” لعلھم یرجعون “۔ اس میں اس کا اشارہ آگیا کہ ابتلاء بھی اصلاح ہی کی غرض سے تھا قال اھل المعانی وکل واحد من الحسنات والسیئات یدعوا الی الطاعۃ اما النعم فلا جل الترغیب واما النقم فلاجل الترھیب (کبیر) (آیت) ” قطعنھم فی الارض امما “۔ یعنی وہ قوم منتشر ومتفرق ہو کر زمین پر پھیل گئی اور مختلف حصوں میں آباد ہوگئی۔ اے فرقنا ھم فی البلاد (قرطبی) فرقنا ھم تفریقا شدیدا۔ (کبیر)
Top