Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا ایسا نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کر دے جب تک ان کو وہ چیز نہ بتادے جس سے وہ پرہیز کریں۔ بیشک خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
115۔ 116۔ جب اس سے پہلے کی آیت اتری اور لوگوں کو منع کیا گیا کہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ چاہو خواہ وہ تمہارا رشتہ کنبہ والے ہی کیوں نے ہوں تو جو لوگ مغفرت چاہتے تھے ان کے دل میں خوف ہوا کہ کبھی ہم پر عذاب نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فرمایا کہ اللہ بےانصاف نہیں ہے جب کسی قوم کو ہدایت کرچکا تو اب گمراہ نہیں کریگا جب تک انہیں یہ نہ بتلاوے کہ کن کن باتوں سے بچنا چاہئے مجاہد کے قول کے موافق آیتوں کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے ممانعت کے حکم کے نازل ہونے سے پہلے اپنے مشرک ماں باپ یا اور مشرک رشتہ داروں کے حق میں مغفرت کی دعا کی تھی ان کے انجان ہونے کے عذر کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبول 1 ؎ فرمایا۔ اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب ایک امر کی ممانعت شرعی تم کو معلوم نہیں تھی اور اسی لاعلمی کی حالت میں تم اس کو کر بیٹھے اور اب تمہارے دل میں اس کا پچھتاوا ہے کہ ایسا کام ہم نے کیوں کیا تو اس تمہارے دلی پچھتاوے کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے کیونکہ کوئی ظاہری باطنی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اس لئے تم کو تسلی دی جاتی ہے 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 395 و تفسیر الدر المنشور ج 3 ص 286۔ کہ انجان آدمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بےراہ نہیں قرار پاتا بلکہ بےراہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے کہ مناہی کے بعد اس کام کو کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے جو لوگ اپنے مشرک ماں باپ یا مشرک رشتہ داروں کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے تھے اگرچہ بعضے سلف کے قول کے موافق آیت کے باقی ٹکڑے کی تفسیر یہ ہے کہ اس ممانعت کے حکم سے پہلے ان میں سے بعضے لوگ جو فوت ہوگئے تھے اور ان کے زندہ رشتہ داروں کو اپنے ان مرے ہوئے رشتہ داروں کے عذاب میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ تھا ان کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اور ہر ایک کی زیست کے زمانہ کا اور مرنے کے بعد کا سب انتظام اور اللہ کے ہاتھ ہے انجانی سے جو کوئی کچھ کرے اس کا اور شرع الٰہی کی مناہی کو ٹال کر جو کوئی کچھ کرلے اس کا ان سب کا اللہ تعالیٰ خود انصاف سے فیصلہ کریگا اس میں اندیشہ کا کسی کو کچھ موقع نہیں لیکن قرآن شریف کے اوپر کے مضمون سے لگتی ہوئی تفسیر آیت کے اس ٹکڑے کی یہ ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے جس کی بادشاہت میں ہر ایک کا مارنا اور جلانا بھی داخل ہے اب اس نے اپنے علم ازلی کے موافق جن لوگوں کو شرک کی حالت میں دنیا سے اٹھایا ہے ان کے حق میں کسی کی دعا مغفرت کچھ کار گر نہیں ہوسکتی کیونکہ اس نے اپنی بادشاہت میں یہ حکم دے رکھا ہے کہ کسی طرح مشرک کی مغفرت نہیں ہے آخر کو فرمایا کہ شرع الٰہی کے احکام کی پابندی ہر شخص کو ضرور ہے کیونکہ ان احکام کی نافرمانی کے وبال میں اگر اللہ تعالیٰ نے پکڑلیا تو سوا اللہ کے ذات کے ایسا کوئی حامی مددگار نہیں ہے کہ بغیر مرضی الٰہی کے اس گرنت سے کسی کو چھوڑا سکے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کی عمر ساٹھ برس کو پہنچ جاوے وہ اللہ تعالیٰ نے روبرذ شرع کی باتوں کی انجانی کا عذر نہیں پیش کرسکتا 1 ؎ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں طرح طرح کے جدید احکام نازل ہوتے رہتے تھے اس لئے اس وقت انجانی کی صورت وہ تھی جو اس آیت میں ہے اب شریعت کے کامل ہوجانے کے بعد چھوٹی عمر میں کوئی شخص مرجاوے تو اس کو احکام شرع کی انجانی کے عذر کا موقع ملے تو ملے جس شخص احکام شرع سے انجان رہا تو یہ انجانی اس کی غفلت سے ہے اس کا انجانی کا عذر مقبول نہ ہوگا۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 950 باب من بلغ سیتن سنتہ الخ
Top