Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اللہ یہ نہیں کرتا کہ کسی قوم کو اس کے ہدایت کئے پیچھے گمراہ کردے جب تک ان لوگوں صاف صاف نہ بتادے کہ وہ ان چیزوں سے بچتے رہیں،213۔ بیشک اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے،214۔
213۔ (پس اس قاعدہ کے مطابق جب تک تم کو استغفار مشرکین سے ممانعت کی نہیں کی گئی تھی اس استغفار کی یہ سزا تمہیں مل نہیں سکتی کہ تم میں گمراہی کا مادہ پیدا کردیا جائے) ” ناجائز افعال کا خاصہ ہے کہ ان کے کرنے سے قلب میں ایک ظلمت پیدا ہوجاتی ہے جس سے گمراہی کا مادہ غیریبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس پر نظر کرکے مومن خائف کو توھم ہوسکتا ہے کہ ہم کو اس استغفار ناجائز سے کہیں یہ ضرر مذکور نہ پہنچا ہو۔ اس کے متعلق تسلی فرماتے ہیں کہ یہ اثر کسی فعل میں اس کے ممنوع ہونے کے بعد ہے نہ کہ قبل ممنوع ہونے، کیونکہ عدم جواز بعد نہیں کے حادث ہے۔ “ (تھانوی (رح) (آیت) ” لیضل “۔ حق تعالیٰ کی طرف یہ اضلال یا گمراہ کرنے کی نسبت محض تکوینی حیثیت سے مسبب الاسباب ہونے کی بنا پر ہے ورنہ حقیقۃ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی حال میں بھی گمراہی کی طرف نہیں لے جاتے، بلکہ آیت پر پورے غور کرنے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی ارادی نافرمانی ہی اسے اضلال کی طرف لے جاتی ہے جب بندہ حکم (آیت) ” ما یتقون “۔ کی پروا نہیں کرتا اور اس کی ” تبیین “ ہوچکنے کے بعد بھی اس کی خلاف ورزی کیے جاتا ہے، جب جاکر اس کا عمل اضلال شروع ہوتا ہے۔ ففی ھذا ادل دلیل علی ان المعاصی اذا ارتکبت وانتھک حجابھاکانت سببا الی الضلالۃ والردی وسلم ا الی ترک الرشاد والھدی (قرطبی) 214۔ (چنانچہ اس کا بھی علم رکھتا ہے کہ بغیر اس کے بتائے ہوئے کوئی بھی ایسے احکام کو سمجھ نہیں سکتا اور اسی لئے قبل حکم ممانعت ان افعال سے مضرت نہیں پہنچنے دیتا، اور اس سے بھی خوب واقف ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے اور مستحق اضلال کون)
Top