Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ اُنہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔114 در حقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
سورة التَّوْبَة 114 یعنی اللہ پہلے یہ بتادیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات، کن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں۔ یہ ارشاد ایک قاعدہ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق، فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کردیتا ہے، پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریق فکر و عمل اس نے بتادیا ہے اگر اس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنایتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے۔ اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پاسکتی ہے اور آگے جو بیان آرہا ہے اس کی تمہید بھی۔
Top