Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور خدا کا کام نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دیے بعد گمراہ کر دے جب تک کہ ان کو وہ باتیں نہ بتلا دے کہ جن سے وہ بچتے ہیں۔ بیشک اللہ کو ہر چیز معلوم ہے
ترکیب : ماکاد کا فاعل ضمیر شان والجملۃ بعدہ فی موضع نصب وعلی الثلثۃ معطوف ہے النبی پر ای تاب علی النبی وعلی الثلثۃ الذین الخ بما رحبت ای مع رحبھا من اللّٰہ خبر ہے لا کی ملجاء اسم تھا الا الیہ استثناء ہے مثل لا الہ الا اللہ کے۔ تفسیر : اس سے پہلی آیت میں جو مشرکین کے لئے استغفار کی ممانعت تھی اور یہ کہا تھا کہ نبی اور مسلمانوں کی یہ شان نہیں حالانکہ اس سے پہلے بہت لوگ اپنے اقارب مشرکین کے لئے جو مرگئے تھے استغفار کیا کرتے تھے اور بہت سے لوگ جو استغفار کرتے تھے اس ممانعت سے پیشتر مرچکے تھے اور جو زندہ تھے ان کو اپنے فعل پر سخت ندامت اور خوف تھا کہ ہم گمراہ ہوگئے اس کے جواب میں تسلی کے لیے فرماتا ہے وما کان اللّٰہ لیضل الخ کہ اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت کرکے بغیر ان باتوں کے بیان کئے کہ جن سے ان کو بچنا چاہیے گمراہ کر دے یعنی چونکہ تم کو استغفار کی ممانعت بتائی نہیں گئی تھی اگر اس سے پہلے تم نے ان کے لئے استغفار کی تو اس سے تم گمراہ اور گنہگار نہیں ہوئے اور ممنوعات کا بیان کرنا اس کا کام ہے کیونکہ وہ ہر شے سے واقف ہے مگر اس کے بعد اہل اسلام کے دل میں یہ کھٹکا تھا کہ اللہ نے کفار عزیز و اقارب بلکہ جمیع کفار کی دوستی سے منع کردیا اور سب سے لڑنے کا حکم دیا اور ہماری قدرت و طاقت معلوم ہے۔ پھر ان کی معاونت بغیر کیا ہوگا۔ اس کے دور کرنے کو فرماتا ہے اللہ کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ وہی مارتا زندہ کرتا ہے۔ وہ قادر مطلق تم کو بس کرتا ہے اسی کی اعانت تمہیں کافی ہے۔ اس کے سوا تمہارا کوئی حمایتی مددگار نہیں۔ نہ ان کی تمہیں کچھ حاجت ہے اور نیز یہ جملہ ان اللّٰہ لہ ملک السموات اس کے ہر شے کے عالم ہونے کی دلیل بھی ہے کیونکہ جو ایسا قادر ہے وہ عالم بھی ہے بغیر علم کے یہ قدرت کاملہ نہیں ہوسکتی اور نیز اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سب ملک اسی کے ہیں جس سے چاہے لے کر کسی اور کو دے دے۔ چناچہ اس نے صحابہ کو سلطنتیں دیں ‘ مخالفوں کو زیر کردیا۔ چونکہ مہاجرین و انصار نے اس جنگ میں نہایت شدت کی گرمی اور گرسنگی اٹھائی اور طرح طرح کی تکالیف پائی تھیں تو ایسی حالت میں انسان کا مقتضٰی طبعی ہے کہ اس کے دل میں کچھ وسواس فاسدہ گذریں گویا یہ کوئی گناہ نہیں مگر ایسے مقربین کے دل میں بیساختہ ایسے خیالات کا گزرنا بھی عالم محبت میں قابل گرفت ہے۔ جیسا کہ خود ہی ان خیالات کی طرف اشارہ کرتا ہے من بعد ماکاد یزیغ قلوب فریق منہم کہ قریب تھا کہ اس شدت کے وقت میں ایک فریق مومنین کا دل پھر جاوے۔ واپسی پر اور پیچھے رہ جانے کا قصد کریں اور نیز یوں بھی بشریت سے انسان کچھ کر گذرتا ہے لیکن ان کا یہ کام کہ انہوں نے ایسے تنگ اور شدت کے وقت رسول کا ساتھ نہ چھوڑا اور آسمانی لشکر سے تخلف نہ کیا۔ نہایت قابل قدر دانی اللہ کے نزدیک ہوا اس کے انعام میں ان کے لئے لقد تاب اللّٰہ علی النبی والمہاجرین الخ ارشاد ہوا کہ خدا نے ان کو خلعت معافی عطا فرمائی۔ چونکہ خدا کی معافی اور رحمت کا واسطہ آنحضرت (علیہ السلام) تھے۔ اس لئے اس میں سب سے اول آپ کو بھی شریک کرلیا اور ثم تاب علیہم کے لفظ کو پھر تاکید کے لئے اعادہ فرمایا جس طرح خوشی میں بادشاہ اپنے نوکر وفادار سے کہتا ہے ہم نے تم کو یہ چیز دی اچھا دی۔
Top