Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اللہ کسی قوم کو، اس کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا جب تک وہ وضاحت کے ساتھ ان کو وہ چیزیں بتا نہ دے جن سے ان کو بچنا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
مسلمانوں کو ایک تنبیہ : وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۔ یہ آیت یوں تو اس عام سنت الٰہی کا بیان بھی ہوسکتی ہے جو قرآن میں بار بار مذکور ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی گمراہی کے حوالہ کرتا ہے اتمام حجت اور توضیح حق کے بعد ہی کرتا ہے اس وجہ سے اس طرح کے لوگ اس ہمدردی کے سزاوار نہیں ہیں کہ ان کے لیے استغفار کیا جائے لیکن میرا ذہن بعد اذ ھداہم کے الفاظ سے بار بار اس طرف جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ خدا نے تمہیں صراط مستقیم کی ہدایت دینے کے بعد اس راہ کے مسافر کو جن خطرات سے ہوشیار رہنا چاہیے، ان سے بھی آگاہ کردیا ہے۔ اب یہ تمہارا فرض ہے کہ تم ان خطرات سے بچو۔ اگر تم نہ بچے تو راہ پا کر اس سے بھٹکنے کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی۔ اللہ ایسے لوگوں کو گمراہی کے لیے چھوڑ دیا کرتا ہے۔ گویا یہ اس ممانعت کی تاکید ہوئی جو مشرکین کے لیے استغفار کے باب میں مسلمانوں کو، اوپر والی آیت میں کی گئی ہے۔ یہ بات ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ جن کی حق دشمنی واضح ہوچکی ہے ان کے ساتھ کوئی ذہنی اور قلبی لگاؤ بسا اوقات آدمی کے لیے فتنہ بن جایا کرتا ہے۔ یہی لگاؤ بالتدریج ترقی کرتے کرتے بالآخر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اصول و عقائد نگاہوں کے سامنے سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور خون و نسب کا تعلق تمام حقائق پر غالب آجاتا ہے۔ آج جو لوگ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے کے باوجود نحن ابناء الفراعنہ کا نعرہ لگاتے ہیں یا محمد بن قاسم کی بجائے راجہ داہر پر فخر کرتے ہیں وہ اسی فتنہ کا شکار ہوئے ہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ، بھی اسی تنبیہ کا جزو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا ظاہر و باطن ہر چیز سے آگاہ ہے جس کے اندر بھی شرک و کفر کے ساتھ کوئی لوث اور لگاؤ ہوگا وہ خدا سے مخفی نہیں رہے گا۔
Top