Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب کفار کی کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
جہاد میں کامیابی کے اصول تشریح : جیسا کہ باقی زندگی گزارنے کے لیے اللہ جل شانہ ‘ نے مسلمانوں کو بہترین اصول بتائے ہیں اسی طرح جنگ کے اصول بھی بتائے ہیں۔ -1 پہلا اصول ثابت قدم رہو۔ ثابت قدمی تو زندگی کے ہر مرحلہ میں ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں انسان کا ارادہ کمزور ہوا وہاں ناکامی ہوگئی، اس لیے اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں اترو۔ کفار کی طرح نہیں کہ فوجیوں کو جوش و جذبہ دلانے کے لیے بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں۔ مسلمان کو جذبہ جہاد کو ابھارنے اور ثابت قدم رکھنے کے لیے اللہ کا ذکر بہترین ذریعہ ہے۔ اسی جذبہ کے تحت جب مسلمان نعرہ تکبیر لگاتا ہے تو مشرکوں کے دل پر رعب طاری ہوجاتا ہے۔ اس نعرہ تکبیر میں کچھ ایسا رعب، دبدبہ اور تاثیر ہے کہ کفار اس سے بہت زیادہ گھبراتے ہیں (یہ حقیقت ہے) آدھی جنگ اس حکم کی تعمیل سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ -2 دوسرا اصول فوج کی یکجہتی اور اتحاد ہے۔ یکجہتی اور اتحاد اس قدر طاقت اور اہمیت رکھتا ہے کہ بڑے سے بڑا طوفان بڑی سے بڑی طاقت اس کے سامنے جھک سکتی ہے۔ جیسا کہ جنگ بدر میں پہلے کچھ نااتفاقی پیدا ہوئی مگر جب رسول اللہ ﷺ نے سب سے مشورہ کرکے ایک مکمل تجویز سب کے سامنے رکھ دی تو سب نے مل کر مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ یکجہتی اور اتحاد قوم کی کامیابی کا بہترین ہتھیار ہے۔ کسی بھی جماعت کو شکست دینے کا بہت بڑا ہتھیار یہ ہے کہ جماعت میں کسی بھی صورت سے انتشار، نااتفاقی اور جھگڑا ڈالوا دیا جائے ایسی جماعت بلاشبہ کمزور ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ -3 تیسرا اصول یہ ہے کہ کبھی بھی بےصبری کا اظہار نہ کرو چاہے وہ کسی شکل میں ہو اپنے کسی ساتھی سے زیادتی ہوجائے یا جنگ کے حالات شدت اختیار کر جائیں۔ بھوک، پیاس برداشت کرنی پڑے یا تھکن بڑھ جائے یا زخمی ہوجائے۔ ہر حال میں مسلمان کا کام ہے صبر سے کام لے۔ کیونکہ صبر ہر مشکل آسان کردیتا ہے جبکہ بےصبری سے دکھ، تکلیف اور پریشانی اور بڑھ جاتا ہے۔ -4 چوتھا اصول یہ ہے کہ کبھی بھی اتراتے ہوئے اور دکھاوے کے لیے جنگ کے لیے نہ نکلو۔ بلکہ صاف نیت اور بلند مقصد، حق و صداقت کی جیت کے لیے ایمان کے جذبہ کے ساتھ جنگ کے لیے نکلو۔ کیونکہ دکھاوا غرور اور بےجا شان و شوکت سے تو صرف کفار ہی جنگ کے لیے نکلتے ہیں۔ جیسا کہ ابوجہل جنگ بدر کے لیے بدمست ہو کر لشکر لے کر نکلا تھا اور پھر اس کا مقصد بھی بڑا ہی برا تھا، یعنی ان لوگوں سے لڑنے جا رہا تھا جو اللہ کے سپاہی تھے اور امن و سکون کی خاطر جنگ کے لیے نکلے تھے۔ بھلا ابوجہل اور رسول اللہ ﷺ کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا۔ اللہ تو سب کے اعمال، نیتوں اور ارادوں سے خوب اچھی طرح واقف ہے۔ جنگ لڑنے کے لیے ایمان، یقین، اتحاد، صبر، سکون اور اللہ کے کلمے کی بلندی کے لیے جنگ کرنا، یہ سب صفات مسلمان مجاہد کے پاس ہوتی ہیں اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ایک مجاہد کئی کفار پر بھاری ہوتا ہے۔ جس کا ثبوت جنگ بدر میں بھی مل گیا کہ کس طرح 313 مسلمانوں نے ایک ہزار کے لشکر سے مقابلہ کرکے فتح حاصل کی۔ مجاہد کی تعریف بیان سے باہر ہے۔ مجاہد کا درجہ اللہ تعالیٰ نے بہت بلند رکھا ہوا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے : ” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں، پھر لڑوں اور مارا جاؤں، پھر لڑوں اور مارا جاؤں۔ “ (صحیح البخاری کتاب الجہاد ) اب میں ایک ایسے مجاہد کا ذکر کر رہی ہوں جس سے ذاتی طور پر میری بات چیت ہوئی۔ یہ 1965 ء کی جنگ کا زمانہ تھا پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ تھی فلائٹ لیفٹیننٹ محمد جاوید اسلم اس جنگ میں برائے نیویگیٹر شریک تھے۔ جب دوران جنگ بیس پر میری ملاقات ان سے ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا جب آپ حملہ کے لیے جاتے ہیں تو آپ کے کیا تاثرات ہوتے ہیں ؟ ڈر نہیں لگتا ؟ گھر والے یاد نہیں آتے ؟ وہ مسکرائے اور بولے ” باجی کیسی باتیں کرتی ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہوتا ہے کہ ہم وردی میں ملبوس اپنے نام کے پکارے جانے کے انتظار میں بےقرار ہوتے ہیں۔ نام سنتے ہی ہم یوں بدمست ہو کر جہاز کی طرف بھاگتے ہیں کہ جیسے کوئی بہت بڑی فضیلت ہمیں ملنے لگی ہے۔ سوائے اللہ اور سوائے جذبہ جہاد کے کوئی چیز ہمارے ذہن میں اس وقت نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے مشن کے سامنے یہ پروا ہرگز نہیں ہوتی کہ شاید ہم مرجائیں گے اور واپس نہ آئیں گے۔ اس جذبہ اور جوش و خروش کو میں ہرگز لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، اس وقت سوائے نعرہ تکبیر کے کوئی آواز نہ کان میں پڑتی ہے نہ منہ سے نکلتی ہے اور نہ دل میں اترتی ہے ہمارے چہرے خوشی، اعتماد اور شوق شہادت سے دمک رہے ہوتے ہیں۔ “ یہ سب سن کر میرے آنسو نکل آئے۔ جب ایک بندہ اس حدتک رب کی رضا میں گم ہوجائے تو بھلا وہ رب تعالیٰ کی قربت اور پسندیدگی کے حلقہ میں کیوں نہ آئے گا۔ یہ ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کی گئی ہے ایک ایسے مجاہد کی جس میں مذکورہ آیات میں بتائی گئی تمام صفات موجود ہیں جو ایک سپاہی میں ہونی چاہئیں۔ الحمدللہ کہ ہم بھی امت محمدی ﷺ کے افراد کہلانے کے قابل ہیں۔
Top