Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب تم بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جائو۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ج وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ ج (الانفال : 45، 46 ) (اے ایمان والو ! جب تم بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ) آئندہ پیش آنے والے حالات کے لیے ہدایات ان آیات میں مسلمانوں کو آئندہ پیش آنے والے حالات میں خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ جنگ بدر سے ان غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا مسلمان جن سے مستقبل قریب میں دوچارہو نے والے تھے۔ جنگ بدر میں قریش کو ایک سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس میں اگرچہ ان کا بہت نقصان ہوا لیکن یہ نقصان ایسا نہ تھا جس سے ان کی کمر ٹوٹ جاتی اور آئندہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہ کرتے۔ وہ ایک زخمی شیر کی طرح حملے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور حالات پر نگاہ رکھنے والا ہر صاحب بصیرت دیکھ سکتا تھا کہ آئندہ حق و باطل کے درمیان ایک طویل معرکوں کا سلسلہ پیش آنے والا ہے۔ پروردگار تو اپنے ابدی اور جامع علم کے حوالے سے یقینی طور پر جانتا تھا کہ مسلمانوں کو کیسے کیسے حالات سے گزرنا ہوگا۔ چناچہ ان آیات میں ایسے ہی حالات کو سامنے رکھ کر ایسی موثر ہدایات دی گئی ہیں جن پر عمل کے نتیجے میں اللہ کی تائید ونصرت مسلمانوں کے شامل حال ہوسکتی ہے اور حق و باطل کی کشمکش میں مسلمان فلاح پاسکتے ہیں۔ ثابت قدمی پہلی آیت کریمہ میں دوہدایات دی گئیں۔ پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ مسلمانو ! جب بھی کبھی تمہارا کافروں سے تصادم ہو، کافروں کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ ہو، ان کے پاس اسلحہ جنگ کی کیسی ہی فراوانی ہو اور تم ان کے مقابلے میں جیسی بھی پوزیشن رکھتے ہو تمہیں بہر صورت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ فَاثْبُتُوْا کا مصدر ” ثبات “ ہے۔ اس کا معنی ثبات قلب اور ثبات قدم ہے جسے ہم ” ثابت قدمی “ کہتے ہیں۔ مسلمان کا اصل جوہر میدانِ جنگ میں کھلتا ہے۔ جب دیکھنے والی نگاہیں دیکھتی ہیں کہ جنگی نکتہ نگاہ سے کمزور پوزیشن میں ہونے کے باوجود مسلمان کبھی ہراساں نہیں ہوتا۔ وہ بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن پسپائی کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔ مسلمانوں میں جب تک اسلامی زندگی غالب رہی ہے کسی چھوٹی بڑی جنگ میں انھوں نے کبھی پشت نہیں دکھائی۔ باطل سے آویزش حق کا مقدر رہا ہے اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد تو دنیائے کفر نے اسلام کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن مسلمان حق کی قوت بن کر اس طرح اٹھے کہ جزیرہ عرب کی حد تک تو عہد نبوت ہی میں مسلمانوں کے پھریرے لہرانے لگے۔ لیکن اسکے بعد خلافتِ راشدہ اور بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی فتوحات کی تگ وتاز کے سامنے زمین سمٹنے لگی۔ کتنے ملکوں کے جغرافیے بدل گئے، کتنی مملکتیں اسلامی مملکت کا حصہ بن گئیں۔ صدیوں کی جمی ہوئی اور مستحکم حکومتیں، قیصرو کسریٰ کے نام سے جو دنیا کی عظیم قوت سمجھی جاتی تھیں، مسلمان قلت تعداد اور بےسروسامانی کے باوجود مسلسل اس وقت تک ان سے نبرد آزما رہے جب تک انھیں ختم نہیں کرڈالا۔ عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی معرکے میں مسلمانوں کے پاس ایسی قوت کبھی نہ تھی جس سے ان کی کامیابی کی امید کی جاسکتی۔ لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں نے پسپائی کی تہمت اٹھائی ہو یا راہ فرار اختیار کی ہو۔ مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست کردی گئی تھی کہ تمہیں اللہ کا پیغام بہرصورت اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہے اور ان کے لیے اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن بنا نا ہے اور اگر ظالم قوتیں ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتیں تو تمہیں ایسے تخت وتاج کو ختم کرنا ہے اور ایسی قوتوں کی حکمرانی کو سرنگوں کرنا ہے۔ اس کے لیے تمہیں بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانا ہوگا یاد رکھو یہ سوچ کر کبھی میدانِ جنگ میں نہ اترنا کہ تمہیں بہر صورت فتح حاصل کرنی ہے۔ تمہارے سامنے ایک فرض کی انجام دہی ہے اس فرض کو انجام دیتے ہوئے اگر تمہیں کامیابی ملتی ہے تو یہ مزیدادائے فرض کے لیے آگے بڑھنے کا پیغام ہے اور اگر تم اس راستے میں کام آجاتے ہو تو شہادت ہی اصل مقصود اور اصل اللہ کا انعام ہے جس کی ہمیشہ ایک مومن تمنا کرتا ہے۔ یہی وہ پختہ اعتقاد تھا جو مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں ثابت قدم رکھتا تھا۔ اس لیے آیت کریمہ میں سب سے پہلے اسی کا حکم دیا گیا۔ اللہ کی یاد دوسری جس بات کا حکم دیا گیا وہ یہ ہے کہ تم کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ جنگ کی تیاری کے ایام ہوں یا جنگ کی ہولناکی کے لمحات۔ ایک مومن کی اصل قوت اور محبوب متاع اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی مشکل میں مبتلا ہوتایا کسی معرکے میں شریک ہوتا ہے تو اسے ہمیشہ اپنی محبوب ترین چیز کی یاد آتی ہے۔ کوئی اپنی اولاد کو یاد کرتا ہے، کوئی مال ومتاع کو یاد کرتا ہے اور کوئی اپنی جان کی فکر میں پریشان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی محبوب ترین متاع چونکہ اللہ کا ذکر اور اسکی یاد ہے اس لیے وہ عین حالت جنگ میں بھی اسی کو یاد کرتا ہے۔ زبان سے اسی کا ذکر کرتا ہے اور دل اسی کی محبت سے آباد رہتا ہے اور پھر یہ محبوب ایسا ہے جو صرف دل کی تسکین ہی کا باعث نہیں بنتا بلکہ مومن کی قوت کا اصل سرچشمہ بھی وہی ہے۔ مومن کی تگ وتاز کا اصل مقصد ومنزل بھی وہی ہے۔ ایک مومن اسی کی رضا کے لیے میدانِ جنگ میں اترتا ہے، اسی کی نصرت و تائید کے سہارے بڑی سے بڑی قوت سے ٹکراتا ہے، اسی کو اپنی کمزوریوں کا مداویٰ سمجھتا ہے اور اسی کو اپنی کامیابی یا ناکامی کے نتیجے میں اجر وثواب اور جز اکا مالک سمجھتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی یاد، یادوں کا ایک گلدستہ ہے جس کی ہر پتی خوش رنگ اور جس کی ہر لہر مشام جاں کو ہمیشہ کے لیے معطر رکھنے والی ہے۔ اس کی یاد میں ڈوب کر ایک مومن جب آگے بڑھتا ہے تو پھر وہ اپنی ذات میں بظاہر ایکدہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اللہ کی تجلیات کا پر موردتو ہوتا ہے۔ وہ بظاہر ایک قطرہ ہوتا ہے لیکن وہ ایک ایسے سمندر کا قطرہ ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ وہ سمندر سے کٹ جائے تو اسے گرم ہوا کا ایک جھونکا ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن سمندر سے متعلق رہ کر وہ ایک ایسا طوفان ہے جس کا سامنا کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ اس کے جسم کا ایک ایک عضو اللہ کی چاکری کا غماز ہے۔ اس کے احساس کی ایک ایک لہر اللہ کی یاد کی خوشبو ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ وہ چلتا ہے تو اللہ کی تائید سے چلتا ہے، وہ پکڑتا ہے تو اس کی قوت سے پکڑتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب وکار آفریں کار کشا وکار ساز اس قوت کا اصل سرچشمہ اللہ کا ذکر اور اس کی یا د ہے۔ اسی طرح یہ ذکر اور یاد ایک مومن کا حصار بھی ہے اور اس کا نگران بھی۔ وہ جب بھی کسی کام ارادہ کرتا ہے تو یہ تصور کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا کہ میں اپنے اللہ کی نگاہوں میں ہوں۔ اس کے دماغ میں سوچ کی ایک لہر اٹھتی ہے۔ تو وہ جانتا ہے کہ میری سوچ بھی اللہ کے علم سے باہر نہیں اسی لیے نہ اس کا دماغ بھٹکتا ہے نہ اس کا عمل سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ چونکہ ایک ہمہ وقتی اور ہمہ جہت کام ہے اس لیے اذکروا کے ساتھ کثیراً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ اور کثرت سے یاد کرو۔ جب کہ کسی اور عبادت کے بارے میں کہیں بھیکثیراً کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ کہیں یہ نہیں فرمایا نماز کثرت سے پڑھو، روزہ کثرت سے رکھو، اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام عبادات وقت مخصوص میں اعمالِ مخصوصہ کی ادائیگی کا نام ہے لیکن ذکر کے لیے کوئی وقت نہیں نہ اس کا کوئی خاص طریقہ ہے، نہ اس کی کوئی خاص شرائط ہیں، نہ اس میں وضو کی پابندی ہے، نہ اس میں لباس لازمی ہے، نہ قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے۔ ہر شخص ہرحال میں باوضو، بےوضو، کھڑے، بیٹھے، لیٹے، اللہ کا ذکر کرسکتا ہے۔ یوں تو یہ ذکر ہرحال میں مومن کی زندگی ہے لیکن جنگ میں یہی ذکر مومن کے لیے کبھی سہارا بنتا ہے اور کبھی قوت کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کبھی دل ہی دل میں اللہ سے مدد مانگنا ذکر ہے اور کبھی کفر کو ہراساں کرنے کے لیے ” نعرہ تکبیر “ لگانا اللہ کا ذکر ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی یاد میں ڈوب کر اپنی زندگی اس کی اطاعت میں دے کر اسی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اور صرف اسی کی قوت کے سہارے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے تو فی الواقع کفر کے چھکے چھوٹ جاتے تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ قلعہ کی فصیلیں گرگئیں۔ اس لیے کہ بظاہر یہ ایک لفظ ہے جس کو انسانی لہجہ ادا کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اللہ کی قوت کا ظہار ہے اس لیے فرمایا کہ اگر تم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اورا للہ کی یاد کو حرز جان بنایا تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تمہیں فلاح سے نوازے گا۔ اسباب کے پردے میں اللہ کی مدد اللہ جب کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اسے اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اسباب کے بغیر بھی مدد کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا قانون یہ ہے کہ وہ جب بھی مدد کرتا ہے اسباب کے پردے میں کرتا ہے۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرتا کہ اپنے پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو یہ کہہ دے کہ تم آرام سے گھر بیٹھو، تمہیں معرکہ کارزار میں جانے کی زحمت اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہماری قدرتیں اس کے لیے کافی ہیں۔ ہم تمہارے دشمن کو فنا کیے دیتے ہیں شہروں کے راستے تمہارے لیے کھول دیتے ہیں تم خراماں خراماں چلو اور شہروں پر جاکر قابض ہوجاؤ۔ بنی اسرائیل کے ایسے ہی بگڑے ہوئے تصورات تھے جس نے انھیں اللہ کی رحمت سے محروم کردیا۔ اس لیے مسلمانوں کو صاف صاف بتایا گیا کہ میدانِ جنگ میں اترنا دشمن سے نبرد آزما ہونا استقامت اور پامردی کی تصویر بن جانا اور کہیں بھی کمزوری کا اظہار نہ کرنا اور ہر طرح کے حالات میں اللہ کو یاد کرنا اور اسی سے سہارا چاہنایہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کے بعد نصرت و تائید کے لیے فرشتے اتارنا، دشمن کے دلوں میں رعب ڈال دینا مٹھی بھر سنگریزوں میں بموں کی طاقت بھردینا۔ یہ پروردگا رکا کام ہے۔ لڑو گے تم لیکن قوت وہ عطا کرے گا، حوصلہ تم دکھائو گے حوصلوں کو ثمر بار وہ کرے گا۔ اسلام کا یہی وہ راز ہے جس کا کفر کو کبھی ادراک نہ ہوسکا لیکن وہ نہ سمجھتے ہوئے بھی آج تک اس سے لرزاں وترساں ہے۔ دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ میدانِ جنگ میں ہمیشہ فوجوں کے حوصلے لڑتے ہیں مورال کام آتا ہے بےحوصلہ فوجیں تو دھرتی کا بوجھ ہوتی ہیں اور حوصلہ مند مختصر تعداد میں بھی ہوں تو وہ قوت کی علامت ہوتے ہیں لیکن دنیا اس راز کو نہیں پاس کی کہ حوصلہ اور مورال ظاہری تدبیروں سے نہیں بلکہ اپنے موقف کی صداقت اپنے راستے کی سچائی اور اللہ پر اعتماد اور توکل اور اس کے ذکر سے پیدا ہوتا ہے اور یہ وہ دولت ہے جس کی اس آیت کریمہ میں خبر دی گئی ہے۔ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت دوسری آیت کریمہ میں کچھ تو مزید ہدایات دی گئی ہیں اور کچھ چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ذکر اللہ کا لازمی نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی ہونا چاہیے۔ ایسا ذکر اور ایسی یاد جس کے نتیجے میں اپنی محبوب ذات کی اطاعت پیدا نہیں ہوتی وہ محض زبان کا جمع خرچ اور دماغ کی عیاشی ہے۔ ایسی یاد کو نفاق تو کہا جاسکتا ہے ایمان کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے ضروری ہے کہ حالات کیسے ہی ہوں کبھی اللہ اور رسول کی اطاعت سے قدم باہر نہیں جانا چاہیے۔ ممکن ہے اس آیت کریمہ میں اللہ اور رسول کی عام اطاعت کے ساتھ ساتھ حالت جنگ میں بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت پر توجہ دلائی گئی ہو کیونکہ جنگ کی حالت میں عام حالت کی نسبت احکام کی اطاعت میں ذرا بھی کمزوری آجائے تو فوج کا ڈسپلن تباہ ہوجاتا ہے۔ جس کی ایک مثال مسلمانوں نے جنگ احد میں دیکھی اور اس کے نتیجے میں بہت نقصان بھی اٹھایا۔ آنحضرت ﷺ نے کچھ تیراندازوں کو جبل الرماۃ پر متعین فرمایا تھا اور حکم دیا تھا کہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو تمہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلنا لیکن جب قریش کا لشکر بھاگ نکلا تو ان تیراندازوں نے یہ سمجھا کہ اب جنگ ختم ہوگئی ہے چناچہ وہ بھی مال غنیمت سمیٹنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اتر آئے ان کے امیر نے ہرچند سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں ہرحال میں آنحضرت ﷺ نے یہاں سے قدم ہٹانے سے منع کیا تھا لیکن ان کی اکثریت نے یہ کہہ کر جگہ چھوڑدی کہ جب جنگ ہی ختم ہوگئی ہے تو اب یہاں رک کر کیا کرنا۔ خالد بن ولید نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے، انھوں نے پہاڑ کے اوپر سے چکر کاٹ کر ادھر سے حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہوئی۔ اس لیے یہاں فرمایا کہ دیکھنا اللہ اور رسول کی اطاعت میں کمی نہ کرنا ورنہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم آپس میں اختلاف کا شکار ہوجاؤ گے۔ کچھ لوگ حکم کی تعمیل پر زور دیں گے اور کچھ لوگ اس کی تاویل کرکے حکم کی تعمیل سے نکل جائیں گے۔ اس لیے مستقل حکم دیا کہ آپس میں مت جھگڑوآپس میں اختلاف مت کرو۔ تمہیں ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرنی ہے اور اگر تم آپس میں اختلاف کرنے لگے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کمزور ہوجاؤ گے تم میں کمزوری اور بزدلی آجائے گی کیونکہ کوئی بھی فوج ہو ان کا باہمی اتحاد ان کی اصل قوت ہوتا ہے۔ اگر اس اتفاق و اتحاد میں دراڑیں پڑجائیں تو یوں سمجھئے کہ قوم کی عمارت میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ قومی زندگی کے قلعے کی فصیلوں میں ڈھے جانے کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور باہر کی قوتوں کو جب اس کا اندازہ ہوتا ہے تو مسلمانوں کی قوت کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ دشمن اس خیال سے ہمیشہ لرزاں براندام رہتا ہے کہ مسلمان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ان میں شگاف ڈالنا ممکن نہیں۔ لیکن جب مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو دشمن کے دلوں سے ان کا رعب جاتا رہتا ہے اور یہ وہ خطرناک بات ہے جس سے زیادہ تباہ کن بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ایسی تمام کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے ایک ایسا حکم دیا جس پر عمل کے نتیجے میں تمام ممکن کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ صبر کی تلقین فرمایا ” وَاصْبِرُوْا “ اور صبر کرو۔ یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھوکیون کہ جذبات و خواہشات کے بےقابو ہونے کے نتیجے میں اختلافات کو درآنے کا موقعہ ملتا ہے۔ جلد بازی، گھبراہٹ، ہراس، طمع اور نامناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دل اور جچی تلی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو قدموں میں لغزش نہ آنے پائے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیض وغضب کا ہیجان غالب نہ آنے پائے۔ مصائب کا طوفان بھی کبھی اللہ کے اعتماد کو شکست نہ دے سکے اور بڑی سے بڑی پریشانی بھی کبھی حواس پر اپنی گرفت قائم نہ کرسکے۔ کبھی دنیوی منافع اور فوائد اور لذات نفس کی ترغیبات، طبیعت کی آسودگی کو شکست نہ دے سکیں۔ ایسے تمام کمزور جذبات کو صبر کی زنجیر پہنا کر رکھو اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگر کبھی رائے کا اختلاف پیدا ہو اور ایسا پیدا ہونا ناگزیر بھی ہے تو دیکھو اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ جمائو اختیار نہ کرو اور اپنی بات پر حد سے زیادہ اصرار نہ کرو۔ نیت میں کبھی اپنی ہی رائے پر پسندیدگی کے اثرات غالب نہ آنے پائیں۔ اپنی بات کہنا اور دوسروں کی سننا یہ دو متوازن پلڑے ہیں جس کے نتیجے میں صراط مستقیم کھلتی ہے ان تمام پہلوئوں کو برابر رکھنے کا نام صبر ہے۔ اس صبر کے نتیجے میں تنازعات پر غلبہ پایا جاسکتا ہے اور اسی سے باہمی تلخیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اسی سے اللہ کا وہ انعام میسر آسکتا ہے جسے اللہ کی معیت کہا گیا ہے اور یہ وہ انعام ہے جب مسلمان کو نصیب ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی قوت نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ اس کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے۔ اس لیے فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
Top