Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: ایمان والے
اِذَا
: جب
لَقِيْتُمْ
: تمہارا آمنا سامنا ہو
فِئَةً
: کوئی جماعت
فَاثْبُتُوْا
: تو ثابت قدم رہو
وَاذْكُرُوا
: اور یاد کرو
اللّٰهَ
: اللہ
كَثِيْرًا
: بکثرت
لَّعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب تم بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جائو۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ج وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَاتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ ج (الانفال : 45، 46 ) (اے ایمان والو ! جب تم بھڑو کسی فوج سے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ) آئندہ پیش آنے والے حالات کے لیے ہدایات ان آیات میں مسلمانوں کو آئندہ پیش آنے والے حالات میں خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ جنگ بدر سے ان غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا مسلمان جن سے مستقبل قریب میں دوچارہو نے والے تھے۔ جنگ بدر میں قریش کو ایک سخت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس میں اگرچہ ان کا بہت نقصان ہوا لیکن یہ نقصان ایسا نہ تھا جس سے ان کی کمر ٹوٹ جاتی اور آئندہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہ کرتے۔ وہ ایک زخمی شیر کی طرح حملے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور حالات پر نگاہ رکھنے والا ہر صاحب بصیرت دیکھ سکتا تھا کہ آئندہ حق و باطل کے درمیان ایک طویل معرکوں کا سلسلہ پیش آنے والا ہے۔ پروردگار تو اپنے ابدی اور جامع علم کے حوالے سے یقینی طور پر جانتا تھا کہ مسلمانوں کو کیسے کیسے حالات سے گزرنا ہوگا۔ چناچہ ان آیات میں ایسے ہی حالات کو سامنے رکھ کر ایسی موثر ہدایات دی گئی ہیں جن پر عمل کے نتیجے میں اللہ کی تائید ونصرت مسلمانوں کے شامل حال ہوسکتی ہے اور حق و باطل کی کشمکش میں مسلمان فلاح پاسکتے ہیں۔ ثابت قدمی پہلی آیت کریمہ میں دوہدایات دی گئیں۔ پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ مسلمانو ! جب بھی کبھی تمہارا کافروں سے تصادم ہو، کافروں کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ ہو، ان کے پاس اسلحہ جنگ کی کیسی ہی فراوانی ہو اور تم ان کے مقابلے میں جیسی بھی پوزیشن رکھتے ہو تمہیں بہر صورت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ فَاثْبُتُوْا کا مصدر ” ثبات “ ہے۔ اس کا معنی ثبات قلب اور ثبات قدم ہے جسے ہم ” ثابت قدمی “ کہتے ہیں۔ مسلمان کا اصل جوہر میدانِ جنگ میں کھلتا ہے۔ جب دیکھنے والی نگاہیں دیکھتی ہیں کہ جنگی نکتہ نگاہ سے کمزور پوزیشن میں ہونے کے باوجود مسلمان کبھی ہراساں نہیں ہوتا۔ وہ بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن پسپائی کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔ مسلمانوں میں جب تک اسلامی زندگی غالب رہی ہے کسی چھوٹی بڑی جنگ میں انھوں نے کبھی پشت نہیں دکھائی۔ باطل سے آویزش حق کا مقدر رہا ہے اور یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد تو دنیائے کفر نے اسلام کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن مسلمان حق کی قوت بن کر اس طرح اٹھے کہ جزیرہ عرب کی حد تک تو عہد نبوت ہی میں مسلمانوں کے پھریرے لہرانے لگے۔ لیکن اسکے بعد خلافتِ راشدہ اور بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی فتوحات کی تگ وتاز کے سامنے زمین سمٹنے لگی۔ کتنے ملکوں کے جغرافیے بدل گئے، کتنی مملکتیں اسلامی مملکت کا حصہ بن گئیں۔ صدیوں کی جمی ہوئی اور مستحکم حکومتیں، قیصرو کسریٰ کے نام سے جو دنیا کی عظیم قوت سمجھی جاتی تھیں، مسلمان قلت تعداد اور بےسروسامانی کے باوجود مسلسل اس وقت تک ان سے نبرد آزما رہے جب تک انھیں ختم نہیں کرڈالا۔ عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی معرکے میں مسلمانوں کے پاس ایسی قوت کبھی نہ تھی جس سے ان کی کامیابی کی امید کی جاسکتی۔ لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں نے پسپائی کی تہمت اٹھائی ہو یا راہ فرار اختیار کی ہو۔ مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست کردی گئی تھی کہ تمہیں اللہ کا پیغام بہرصورت اللہ کے بندوں تک پہنچانا ہے اور ان کے لیے اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن بنا نا ہے اور اگر ظالم قوتیں ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتیں تو تمہیں ایسے تخت وتاج کو ختم کرنا ہے اور ایسی قوتوں کی حکمرانی کو سرنگوں کرنا ہے۔ اس کے لیے تمہیں بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانا ہوگا یاد رکھو یہ سوچ کر کبھی میدانِ جنگ میں نہ اترنا کہ تمہیں بہر صورت فتح حاصل کرنی ہے۔ تمہارے سامنے ایک فرض کی انجام دہی ہے اس فرض کو انجام دیتے ہوئے اگر تمہیں کامیابی ملتی ہے تو یہ مزیدادائے فرض کے لیے آگے بڑھنے کا پیغام ہے اور اگر تم اس راستے میں کام آجاتے ہو تو شہادت ہی اصل مقصود اور اصل اللہ کا انعام ہے جس کی ہمیشہ ایک مومن تمنا کرتا ہے۔ یہی وہ پختہ اعتقاد تھا جو مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں ثابت قدم رکھتا تھا۔ اس لیے آیت کریمہ میں سب سے پہلے اسی کا حکم دیا گیا۔ اللہ کی یاد دوسری جس بات کا حکم دیا گیا وہ یہ ہے کہ تم کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ جنگ کی تیاری کے ایام ہوں یا جنگ کی ہولناکی کے لمحات۔ ایک مومن کی اصل قوت اور محبوب متاع اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی مشکل میں مبتلا ہوتایا کسی معرکے میں شریک ہوتا ہے تو اسے ہمیشہ اپنی محبوب ترین چیز کی یاد آتی ہے۔ کوئی اپنی اولاد کو یاد کرتا ہے، کوئی مال ومتاع کو یاد کرتا ہے اور کوئی اپنی جان کی فکر میں پریشان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی محبوب ترین متاع چونکہ اللہ کا ذکر اور اسکی یاد ہے اس لیے وہ عین حالت جنگ میں بھی اسی کو یاد کرتا ہے۔ زبان سے اسی کا ذکر کرتا ہے اور دل اسی کی محبت سے آباد رہتا ہے اور پھر یہ محبوب ایسا ہے جو صرف دل کی تسکین ہی کا باعث نہیں بنتا بلکہ مومن کی قوت کا اصل سرچشمہ بھی وہی ہے۔ مومن کی تگ وتاز کا اصل مقصد ومنزل بھی وہی ہے۔ ایک مومن اسی کی رضا کے لیے میدانِ جنگ میں اترتا ہے، اسی کی نصرت و تائید کے سہارے بڑی سے بڑی قوت سے ٹکراتا ہے، اسی کو اپنی کمزوریوں کا مداویٰ سمجھتا ہے اور اسی کو اپنی کامیابی یا ناکامی کے نتیجے میں اجر وثواب اور جز اکا مالک سمجھتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی یاد، یادوں کا ایک گلدستہ ہے جس کی ہر پتی خوش رنگ اور جس کی ہر لہر مشام جاں کو ہمیشہ کے لیے معطر رکھنے والی ہے۔ اس کی یاد میں ڈوب کر ایک مومن جب آگے بڑھتا ہے تو پھر وہ اپنی ذات میں بظاہر ایکدہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اللہ کی تجلیات کا پر موردتو ہوتا ہے۔ وہ بظاہر ایک قطرہ ہوتا ہے لیکن وہ ایک ایسے سمندر کا قطرہ ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ وہ سمندر سے کٹ جائے تو اسے گرم ہوا کا ایک جھونکا ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن سمندر سے متعلق رہ کر وہ ایک ایسا طوفان ہے جس کا سامنا کرنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ اس کے جسم کا ایک ایک عضو اللہ کی چاکری کا غماز ہے۔ اس کے احساس کی ایک ایک لہر اللہ کی یاد کی خوشبو ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ وہ چلتا ہے تو اللہ کی تائید سے چلتا ہے، وہ پکڑتا ہے تو اس کی قوت سے پکڑتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب وکار آفریں کار کشا وکار ساز اس قوت کا اصل سرچشمہ اللہ کا ذکر اور اس کی یا د ہے۔ اسی طرح یہ ذکر اور یاد ایک مومن کا حصار بھی ہے اور اس کا نگران بھی۔ وہ جب بھی کسی کام ارادہ کرتا ہے تو یہ تصور کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا کہ میں اپنے اللہ کی نگاہوں میں ہوں۔ اس کے دماغ میں سوچ کی ایک لہر اٹھتی ہے۔ تو وہ جانتا ہے کہ میری سوچ بھی اللہ کے علم سے باہر نہیں اسی لیے نہ اس کا دماغ بھٹکتا ہے نہ اس کا عمل سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ چونکہ ایک ہمہ وقتی اور ہمہ جہت کام ہے اس لیے اذکروا کے ساتھ کثیراً کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ کو زیادہ سے زیادہ اور کثرت سے یاد کرو۔ جب کہ کسی اور عبادت کے بارے میں کہیں بھیکثیراً کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ کہیں یہ نہیں فرمایا نماز کثرت سے پڑھو، روزہ کثرت سے رکھو، اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام عبادات وقت مخصوص میں اعمالِ مخصوصہ کی ادائیگی کا نام ہے لیکن ذکر کے لیے کوئی وقت نہیں نہ اس کا کوئی خاص طریقہ ہے، نہ اس کی کوئی خاص شرائط ہیں، نہ اس میں وضو کی پابندی ہے، نہ اس میں لباس لازمی ہے، نہ قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے۔ ہر شخص ہرحال میں باوضو، بےوضو، کھڑے، بیٹھے، لیٹے، اللہ کا ذکر کرسکتا ہے۔ یوں تو یہ ذکر ہرحال میں مومن کی زندگی ہے لیکن جنگ میں یہی ذکر مومن کے لیے کبھی سہارا بنتا ہے اور کبھی قوت کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کبھی دل ہی دل میں اللہ سے مدد مانگنا ذکر ہے اور کبھی کفر کو ہراساں کرنے کے لیے ” نعرہ تکبیر “ لگانا اللہ کا ذکر ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی یاد میں ڈوب کر اپنی زندگی اس کی اطاعت میں دے کر اسی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اور صرف اسی کی قوت کے سہارے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے تو فی الواقع کفر کے چھکے چھوٹ جاتے تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ قلعہ کی فصیلیں گرگئیں۔ اس لیے کہ بظاہر یہ ایک لفظ ہے جس کو انسانی لہجہ ادا کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اللہ کی قوت کا ظہار ہے اس لیے فرمایا کہ اگر تم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اورا للہ کی یاد کو حرز جان بنایا تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تمہیں فلاح سے نوازے گا۔ اسباب کے پردے میں اللہ کی مدد اللہ جب کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اسے اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اسباب کے بغیر بھی مدد کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا قانون یہ ہے کہ وہ جب بھی مدد کرتا ہے اسباب کے پردے میں کرتا ہے۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرتا کہ اپنے پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو یہ کہہ دے کہ تم آرام سے گھر بیٹھو، تمہیں معرکہ کارزار میں جانے کی زحمت اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہماری قدرتیں اس کے لیے کافی ہیں۔ ہم تمہارے دشمن کو فنا کیے دیتے ہیں شہروں کے راستے تمہارے لیے کھول دیتے ہیں تم خراماں خراماں چلو اور شہروں پر جاکر قابض ہوجاؤ۔ بنی اسرائیل کے ایسے ہی بگڑے ہوئے تصورات تھے جس نے انھیں اللہ کی رحمت سے محروم کردیا۔ اس لیے مسلمانوں کو صاف صاف بتایا گیا کہ میدانِ جنگ میں اترنا دشمن سے نبرد آزما ہونا استقامت اور پامردی کی تصویر بن جانا اور کہیں بھی کمزوری کا اظہار نہ کرنا اور ہر طرح کے حالات میں اللہ کو یاد کرنا اور اسی سے سہارا چاہنایہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کے بعد نصرت و تائید کے لیے فرشتے اتارنا، دشمن کے دلوں میں رعب ڈال دینا مٹھی بھر سنگریزوں میں بموں کی طاقت بھردینا۔ یہ پروردگا رکا کام ہے۔ لڑو گے تم لیکن قوت وہ عطا کرے گا، حوصلہ تم دکھائو گے حوصلوں کو ثمر بار وہ کرے گا۔ اسلام کا یہی وہ راز ہے جس کا کفر کو کبھی ادراک نہ ہوسکا لیکن وہ نہ سمجھتے ہوئے بھی آج تک اس سے لرزاں وترساں ہے۔ دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ میدانِ جنگ میں ہمیشہ فوجوں کے حوصلے لڑتے ہیں مورال کام آتا ہے بےحوصلہ فوجیں تو دھرتی کا بوجھ ہوتی ہیں اور حوصلہ مند مختصر تعداد میں بھی ہوں تو وہ قوت کی علامت ہوتے ہیں لیکن دنیا اس راز کو نہیں پاس کی کہ حوصلہ اور مورال ظاہری تدبیروں سے نہیں بلکہ اپنے موقف کی صداقت اپنے راستے کی سچائی اور اللہ پر اعتماد اور توکل اور اس کے ذکر سے پیدا ہوتا ہے اور یہ وہ دولت ہے جس کی اس آیت کریمہ میں خبر دی گئی ہے۔ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت دوسری آیت کریمہ میں کچھ تو مزید ہدایات دی گئی ہیں اور کچھ چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ذکر اللہ کا لازمی نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی ہونا چاہیے۔ ایسا ذکر اور ایسی یاد جس کے نتیجے میں اپنی محبوب ذات کی اطاعت پیدا نہیں ہوتی وہ محض زبان کا جمع خرچ اور دماغ کی عیاشی ہے۔ ایسی یاد کو نفاق تو کہا جاسکتا ہے ایمان کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے ضروری ہے کہ حالات کیسے ہی ہوں کبھی اللہ اور رسول کی اطاعت سے قدم باہر نہیں جانا چاہیے۔ ممکن ہے اس آیت کریمہ میں اللہ اور رسول کی عام اطاعت کے ساتھ ساتھ حالت جنگ میں بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت پر توجہ دلائی گئی ہو کیونکہ جنگ کی حالت میں عام حالت کی نسبت احکام کی اطاعت میں ذرا بھی کمزوری آجائے تو فوج کا ڈسپلن تباہ ہوجاتا ہے۔ جس کی ایک مثال مسلمانوں نے جنگ احد میں دیکھی اور اس کے نتیجے میں بہت نقصان بھی اٹھایا۔ آنحضرت ﷺ نے کچھ تیراندازوں کو جبل الرماۃ پر متعین فرمایا تھا اور حکم دیا تھا کہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو تمہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلنا لیکن جب قریش کا لشکر بھاگ نکلا تو ان تیراندازوں نے یہ سمجھا کہ اب جنگ ختم ہوگئی ہے چناچہ وہ بھی مال غنیمت سمیٹنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اتر آئے ان کے امیر نے ہرچند سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں ہرحال میں آنحضرت ﷺ نے یہاں سے قدم ہٹانے سے منع کیا تھا لیکن ان کی اکثریت نے یہ کہہ کر جگہ چھوڑدی کہ جب جنگ ہی ختم ہوگئی ہے تو اب یہاں رک کر کیا کرنا۔ خالد بن ولید نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے، انھوں نے پہاڑ کے اوپر سے چکر کاٹ کر ادھر سے حملہ کیا اور جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہوئی۔ اس لیے یہاں فرمایا کہ دیکھنا اللہ اور رسول کی اطاعت میں کمی نہ کرنا ورنہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم آپس میں اختلاف کا شکار ہوجاؤ گے۔ کچھ لوگ حکم کی تعمیل پر زور دیں گے اور کچھ لوگ اس کی تاویل کرکے حکم کی تعمیل سے نکل جائیں گے۔ اس لیے مستقل حکم دیا کہ آپس میں مت جھگڑوآپس میں اختلاف مت کرو۔ تمہیں ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرنی ہے اور اگر تم آپس میں اختلاف کرنے لگے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کمزور ہوجاؤ گے تم میں کمزوری اور بزدلی آجائے گی کیونکہ کوئی بھی فوج ہو ان کا باہمی اتحاد ان کی اصل قوت ہوتا ہے۔ اگر اس اتفاق و اتحاد میں دراڑیں پڑجائیں تو یوں سمجھئے کہ قوم کی عمارت میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ قومی زندگی کے قلعے کی فصیلوں میں ڈھے جانے کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور باہر کی قوتوں کو جب اس کا اندازہ ہوتا ہے تو مسلمانوں کی قوت کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ دشمن اس خیال سے ہمیشہ لرزاں براندام رہتا ہے کہ مسلمان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ان میں شگاف ڈالنا ممکن نہیں۔ لیکن جب مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو دشمن کے دلوں سے ان کا رعب جاتا رہتا ہے اور یہ وہ خطرناک بات ہے جس سے زیادہ تباہ کن بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ایسی تمام کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے ایک ایسا حکم دیا جس پر عمل کے نتیجے میں تمام ممکن کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ صبر کی تلقین فرمایا ” وَاصْبِرُوْا “ اور صبر کرو۔ یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھوکیون کہ جذبات و خواہشات کے بےقابو ہونے کے نتیجے میں اختلافات کو درآنے کا موقعہ ملتا ہے۔ جلد بازی، گھبراہٹ، ہراس، طمع اور نامناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دل اور جچی تلی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو قدموں میں لغزش نہ آنے پائے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیض وغضب کا ہیجان غالب نہ آنے پائے۔ مصائب کا طوفان بھی کبھی اللہ کے اعتماد کو شکست نہ دے سکے اور بڑی سے بڑی پریشانی بھی کبھی حواس پر اپنی گرفت قائم نہ کرسکے۔ کبھی دنیوی منافع اور فوائد اور لذات نفس کی ترغیبات، طبیعت کی آسودگی کو شکست نہ دے سکیں۔ ایسے تمام کمزور جذبات کو صبر کی زنجیر پہنا کر رکھو اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگر کبھی رائے کا اختلاف پیدا ہو اور ایسا پیدا ہونا ناگزیر بھی ہے تو دیکھو اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ جمائو اختیار نہ کرو اور اپنی بات پر حد سے زیادہ اصرار نہ کرو۔ نیت میں کبھی اپنی ہی رائے پر پسندیدگی کے اثرات غالب نہ آنے پائیں۔ اپنی بات کہنا اور دوسروں کی سننا یہ دو متوازن پلڑے ہیں جس کے نتیجے میں صراط مستقیم کھلتی ہے ان تمام پہلوئوں کو برابر رکھنے کا نام صبر ہے۔ اس صبر کے نتیجے میں تنازعات پر غلبہ پایا جاسکتا ہے اور اسی سے باہمی تلخیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اسی سے اللہ کا وہ انعام میسر آسکتا ہے جسے اللہ کی معیت کہا گیا ہے اور یہ وہ انعام ہے جب مسلمان کو نصیب ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی قوت نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ اس کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے۔ اس لیے فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
Top